عظیم تحریک… دعوت الی اللہ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی عظیم تحریک دعوت الی اللہ کے ہندوستان میں شیریں ثمرات مکرم ظہیر احمد خادم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
دعوت الی اللہ حضورؒ کا اوڑھنا بچھونا تھا اور یہی توقع آپؒ ہر احمدی سے رکھتے تھے۔ چنانچہ خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍فروری 1983ء میں فرمایا:
’’اے محمد مصطفیﷺ کے غلامو! اور اے دین محمد مصطفیﷺ کے متوالو! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں۔ تم میں سے ہر ایک مبلغ ہے اور ہر ایک خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوگا۔ تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو، کوئی بھی تمہارا کام ہو، دنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو، کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو، تمہارا اوّلین فرض یہ ہے کہ دنیا کو محمد مصطفیﷺ کی طرف بلاؤ اور اُن کے اندھیروں کو نُور میں بدل دو اور اُن کی موت کو زندگی بخش دو، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو‘‘۔
پھر 1993ء میں جب سے حضورؒ نے عالمی بیعت کا نظام جاری فرمایا تو بیعتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہی کیفیت ہندوستان میں بھی دکھائی دینے لگی۔ چنانچہ تقسیم ملک کے بعد سے چھائی ہوئی جمود کی کیفیت دُور ہونے لگی۔ اس کا آغاز 1991ء میں حضورؒ کے دورہ سے ہوا تھا۔ حضورؒ نے احمدیوں کی دینی غیرت کو للکارتے ہوئے فرمایا تھا:
’’اے ہندوستان والو! اے بھارت کے احمدیو! کیا اس عزت و سعادت کو جو خدا تعالیٰ نے تمہیں تھمائی تھی، دوسرے ملکوں کو تم اپنے سے چھین کر لے جانے کی اجازت دو گے … اگر ایسا ہوا تو بہت بڑی بدنصیبی ہوگی‘‘۔
حضورؒ کی خواہش اور دعا کے ساتھ جب ہندوستان کی جماعتیں بیدار ہوئیں تو عالمی بیعت کے پہلے سال کی بیعتیں چودہ ہزار سے بڑھتے بڑھتے 2001ء میں چار کروڑ سے تجاوز کرگئیں۔
یہ عظیم الشان ترقی جہاں مومنوں کے لئے ایمان میں مزید ترقی کا موجب تھی وہاں دشمن اپنے حسد کے نتیجہ میں پہلے تو اس کامیابی کا سرے سے انکار کرتے رہے، پھر اُن کی صفوں میں شدید کھلبلی مچ گئی اور وہ طوعاً و کرہاً اپنے رسائل میں بھی یہ اظہار کرنے لگے کہ کروڑوں سادہ لوح قادیانیت کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اس دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے ساتھ اپنی تائید کا اظہار کیا۔ مثلاً کرناٹک کے ایک مولوی لیڈر نے جب اعلان کیا کہ وہ قادیانیت کے خلاف آئندہ خطبہ جمعہ بھرپور طور پر دے گا۔ لیکن جب وہ جمعہ پڑھانے آرہا تھا تو اُس کی سکوٹر سے ٹکر ہوگئی اور وہ وہیں فوت ہوگیا۔ جو لوگ اُس کا جنازہ لے جارہے تھے تو اُن کا ایک کار سے حادثہ ہوگیا جس سے بہت سے لوگ شدید زخمی ہوئے۔
اسی طرح کرناٹک کا ہی ایک شدید مخالف بڑا اثرو رسوخ رکھتا تھا۔ ایک دفعہ کسی احمدی نے اُسے بددعا دی۔ وہ شخص نو آدمیوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا جب تیزرفتار گاڑی ایک ٹرک سے ٹکراگئی۔ اُس نے دروازہ کھول کر باہر چھلانگ لگادی۔ لیکن اُس کا سر چُور چُور ہوگیا جبکہ باقی سب لوگ بچ گئے۔ علاقہ میں شور پڑگیا کہ صرف احمدیت کا دشمن ہی مرا۔
ایک طرف اللہ تعالیٰ کا دشمنوں کے ساتھ یہ سلوک ہے تو دوسری طرف لوگوں کو خود قبول احمدیت کے لئے تیار کر رہا ہے۔ چنانچہ بہت سوں کو خواب کے ذریعہ ہدایت کی طرف راہنمائی عطا ہوئی جن کے ساتھ سینکڑوں عوام الناس بھی احمدیت کے نُور سے منور ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں