علماء کی آنکھوں کا تارا (حضرت مسیح موعودؑ کو خراج تحسین)

کچھ عرصہ قبل ARY ٹی وی چینل پر “Views On News” پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے پاکستان کی جن شخصیات کو مدعو کیا تھا اُن میں علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب، ممتاز دانشور مہدی حسن صاحب، مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی صاحب اور انجمن خدام القرآن کے بانی اور تحریکِ خلافت کے داعی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب شامل تھے۔ اس پروگرام میں مختلف موضوعات زِیر بحث آئے۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت ِ اسلام اور آپ ؑ کی دعویٰ سے پہلے کی مجاہدانہ زندگی پر بھی بات ہوئی جو قرآن کریم کے مطابق صداقت کی ایک زبردست دلیل ہوتی ہے۔ اس گفتگو کا منتخب حصہ پیش ہے جو ماہنامہ ’’السلام‘‘ مارچ 2005ء کی زینت ہے (مرسلہ: مکرم محمد اکرام صاحب )۔
’’سوال۔ کیا علامہ اقبال قادیانی تھے؟
ڈاکٹر اسرار احمد: نہیں قطعاً نہیں، ہرگز نہیں۔ غلام احمد سے بہت لوگ متأثر ہوئے۔ میرا یہ خیال ہے کہ وہ کبھی بھی احمدی نہیں تھے۔ البتہ غلام احمد کی تعریف انہوں نے کی اور آپ نے جو جملہ نوٹ کیا ہے (اشارہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف تھا) میں نے اس کے برعکس یہ سنا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی آج اسلام زندہ دیکھنا چاہے تو وہ قادیان میں جاکے دیکھے۔ وہاں کیونکہ ایک مذہبی سی ریاست تھی اور وہ سارا ماحول… تو ایک وقتی تأثر تھا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود: تحریکِ پاکستان کی بہت بڑی تعداد اِس تحریک سے متاثر ہوئی تھی۔
ڈاکٹر اسرار احمد: تحریکِ پاکستان ہی نہیں، خود مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ثناء اللہ امرتسری۔ اصل میں ایک خاص دَور تھا کہ جب اسلام کے خلاف عیسائی تھے۔
پروفیسر مہدی حسن صاحب: عبد المجید سالک اور غلام رسول مہر بھی احمدی تھے۔
ڈاکٹر اسرار احمد: میری اطلاع نہیں ہے۔ (پھر اپنی پہلی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا) میں جو عرض کر رہا تھا تو اُس (حضرت اقدسؑ۔ ناقل) نے اُن عیسائی مشنریز کے ساتھ مناظرے کئے اور غلام احمد نے انہیں شکستیں دیں۔ اور ایک زبردست جو voilentتحریک اُٹھ گئی تھی… آریہ سماج (کی۔ ناقل)۔ تو آریہ سماج کے لوگوں سے بھی اُس نے مناظرے کئے اور انہیں شکستیں دیں… ان چیزوں کی وجہ سے علماء کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اس لئے کہ ہمارے علماء تو پڑھتے نہیں، نہ بائبل پڑھتے ہیں نہ اَور کسی کی مذہب کی کتاب پڑھتے ہیں۔ تو آخر مناظرہ کیسے کریں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں