علی برادران اور جماعت احمدیہ

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ جولائی 2007ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے علی برادران کے جماعت احمدیہ سے تعلق کے حوالہ سے رقم کیا گیا ایک تاریخی مضمون بھی شامل اشاعت ہے۔
مولانا محمد علی جوہر بر صغیر پاک و ہند کے نامور سیاسی لیڈر تھے۔ آپ نے بطور صحافی سیاست میں حصہ لیا۔ ریشمی رومال تحریک اور کراچی میں تقریر کے سلسلہ میں قید ہوئے۔ برصغیر کی آزادی، تحریک خلافت، تحریک عدم تعاون و موالات، ہجرت کے ساتھ وابستہ رہے۔ کانگرس کے صدر بھی رہے۔ ’’ہمدرد کامریڈ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ادب سے بھی لگاؤ تھا اور بچپن سے شعرگوئی کا شوق بھی۔
آپ عبد العلی خان صاحب کے ہاں 10؍دسمبر 1878ء کو کوچہ لنگر خانہ رام پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت ذوالفقار علی گوہر صاحبؓ ناظر امور عامہ قادیان اور مولانا شوکت علی صاحب تھے۔
مولانا جوہر نے انگریزی میڈیم سکول میں چھٹی تک تعلیم حاصل کی۔ 1990ء میں بریلی اور پھر علی گڑھ گئے 1898ء میں علی گڑھ سے فرسٹ ڈویژن میں B.A. کیا۔ نومبر 1899ء میں لنکن کالج آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ سول سروس میں کامیاب نہ ہوسکنے پر دسمبر 1901ء میں ہندوستان واپس آگئے اور ریاست رام پور میں محکمہ تعلیمات میں انسپکٹر آف سکول کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ 1902ء میں پھر آکسفورڈ گئے اور لنکن کالج سے B.A. hon.کیا۔ 1903ء میں ریاست بڑودہ میں محکمہ آبکاری میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ 1910ء میں استعفیٰ دے دیا اور ’’کامریڈ‘‘ نکالنے کی تیاری کرنے لگے۔ 1916ء میں رامپور میں اور 1919ء میں کئی ماہ تک جیل میں قید رہے۔ پھر تحریک خلافت، تحریک ہجرت و عدم تعاون موالات کا آغاز ہوا تو دس سال مسلمانان ہند بالعموم گاندھی کے ہمنوا بنے رہے۔ اس تحریک سے ہنود کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی جائیدادیں ہندوؤں کے سپرد کرکے خود ہندوستان سے ہجرت کر جائیں۔ ایسے میں صرف حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی جرأت سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ طریق غلط ہے اور وہ ہندوؤں کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ پھر ہندوؤں نے ہندوستان میں شدھی کی تحریک کا آغاز کر دیا تا کہ بچے کھچے مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنا لیا جائے۔ اس خطرناک زمانہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک شدھی کو ناکام کرنے کے لئے شاندار کارنامہ سرانجام دیا۔
اس نازک دَور میں جب جمعیت علماء ہند مسلمانوں میں کانگریس کو مضبوط بنانے میں ہمہ تن مصروف تھی اور ہندو لیڈروں کو بادشاہی مسجد دہلی میں کرسی صدارت پر بٹھاکر اپنے اجلاسات کر رہی تھی گاندھی نے مولانا محمد علی جوہر کو کانگریس کا صدر بنا دیا تاکہ مسلمانوں کو باور کرایا جاسکے کہ کانگریس پر تو مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ صدر بے اختیار تھا اور اصل طاقت گاندھی کے پاس ہی تھی۔ آخر مولانا پر کچھ حالات کھلے تو آپ پر واضح ہوگیا کہ یہ دونوں قومیں کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں مگر آپ مسلم ہندو تفرقات کو انگریز کی سیاست ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ قرار دیتے تھے۔ اسی لئے آپ آخر تک دونوں قوموں کو ملاکر انگریزوں سے آزادی کے حصول میں مصروف رہے۔ اپنی صدارت کے دوران دونوں قوموں کے اتحاد کے لئے کانفرنسیں بھی کیں لیکن اس مقصد میں ناکامی کے بعد کانگریس سے دُور ہونے لگے۔
1930ء میں آپ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن آئے اور یہاں اپنے خطاب میں کہا کہ: ’’میں اپنے ملک میں اسی صورت میں واپس جاؤں گا جب ایسی آزادی جس پر آزادی کا اطلاق ہوسکے، میرے ہاتھ میں ہو۔ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیرملک میں بشرطیکہ وہ آزاد ملک ہو رہنے کو ترجیح دوں گا۔ اگر آپ ہندوستان کو آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو یہاں میرے لئے قبر کا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘
اسی سفر میں آپ نے شدید دماغی محنت کی جس کی وجہ سے 4جنوری 1931ء کو آپ کی وفات ہوگئی اور بیت المقدس میں آسودہ خاک ہوئے۔
مولانا محمد علی جوہر کے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا ذوالفقار علی گوہرؓ سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے اور آپ نے کبھی احمدیت کی مخالفت نہیں کی۔ آپ کی والدہ محترمہ اور اہلیہ بھی قادیان میں تشریف لاتی رہیں۔ حضرت مولانا ذوالفقار علی گوہرؓ کے بیٹے پروفیسر حبیب اللہ خانصاحب بتایا کرتے تھے کہ مولانا محمد علی جوہر اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے۔ ان کے سامنے ہمیشہ ادب سے بیٹھتے اور دھیمی آواز میں بات کرتے۔ ہم بھائیوں سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ خاکسار جب علی گڑھ میں زیر تعلیم تھا تو فرمایا کہ بھائی جان نے اپنے وعدہ کے مطابق مجھے آکسفورڈ تعلیم کے لئے بھجوایا تھا اور تم بھی B.Sc کر لو تو میں تمہیں تعلیم کے لئے یورپ بھجواؤں گا۔ میں نے 1930ء میں B.Sc کر لی تو وہ بہت بیمار تھے پھر وفات پاگئے۔ وہ جماعت احمدیہ کی قومی اور ملی خدمات کو سراہا کرتے تھے۔ سیاسی کاموں کے سلسلہ میں جن بزرگان کا آپ سے واسطہ پڑا آپ ان کا ادب کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ اگرچہ مولانا محمد علی جوہر کی طرزِ سیاست اور گاندھی کے تحت کانگریس کے تعاون کے مخالف تھے لیکن آپؓ کے دل میں مولانا کے جذبۂ آزادی اور قربانیوں کی بہت قدر تھی۔ جب مولانا قید سے رہائی پانے والے تھے تو اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے بارہ میں یہ نظم بھی کہی تھی:
صید و شکارِ غم تو مسلم خستہ جاں کیوں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پہلے سفر یورپ کے بعد 19 نومبر 1924ء کو بمبئی پہنچے تو اگلے روز مہاتما گاندھی سے ملاقات کی جس کا ذکر مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ’’ہمدرد‘‘ نے بھی تفصیل سے کیا جس میں احمدیوں کے کانگریس میں شمولیت کا معاملہ زیرنظر تھا۔ 26؍نومبر 1924ء میں ہمدرد نے حضورؓ پر ایک اور طویل کالم لکھا جس میں احمدیوں کے کانگریس میں شمولیت کی امید ظاہر کی۔ حضورؑ نے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’جب میں 1924ء میں ولایت گیا تو لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ گاندھی سے کیوں نہیں ملتے؟ آپ ان سے مل لیں۔ اس پر میں نے انہیں تار دی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں وہ شریف آدمی تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وقت دہلی میں ہوں اس لئے آپ یہیں آکر مجھ سے مل لیں… میں نے انہیں لکھا کہ میں دہلی بعض وجوہات کی بنا پر نہیں ٹھہر سکتا اگر بمبئی میں ملاقات کی صورت پیدا ہوجائے تو بہتر ہوگا۔ گاندھی جی نے میرا اتنا لحاظ کیا کہ بمبئی آگئے اور وہاں ہماری ملاقات ہوئی۔ جب گاندھی جی نے مجھ سے کہا کہ آپ کانگریس میں شامل کیوں نہیں ہوتے تو میں نے جواب دیا کہ ہم مذہبی جماعت ہیں لیکن اگر سیاست کا سوال ہوا تو میں کانگریس میں شامل کیسے ہوسکتا ہوں؟ مسٹر محمد علی جناح کو آپ نے کانگریس سے صرف اس لئے نکال دیا کہ انہوں نے کہا کہ میں کھدر نہیں پہنتا۔ وہ آپ سے اس بارے میں متفق نہیں تھے ان کا خیال تھا کہ ملک مشینوں کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ جب آپ اس قدر جبر کرتے ہیں تو میں کانگریس میں کس طرح شامل ہوسکتا ہوں!‘‘۔ ’’کانگریس انڈیا کانگریس نہیں کہلاسکتی۔ وہ ہندوستان کی اکثریت کا نمائندہ کہلانے کی تب ہی مستحق ہوگی جب ہندوستان کے تمام افراد کو اس میں برابر کا حصہ لینے کا اختیار ہوگا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ جانتے تھے کہ ہندو کانگریس کس طرح شدھی اور سنگھاٹن تحریکوں کی پس پردہ پشت پناہی کررہی ہے۔ اس لئے آپ نے کانگریس سے الگ رہنا ہی مناسب سمجھا اور مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کے لئے کوشش کی۔
حضرت مولوی نعمت اللہ صاحبؓ کی افغانستان میں شہادت ہوئی تو پنجاب کے اخبارات یہ بیان شائع کر رہے تھے کہ شاہ افغانستان امیر امان اللہ نے یہ فعل شریعت کے مطابق کیا ہے۔ ایسے میں مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اپنے اخبار میں قرآن مجید و احادیث کے حوالے سے اس کا ردّ فرمایا۔ اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی اس موضوع پر اپنے اخبار ہمدرد میں کئی اقساط میں ایک مفصل مقالہ سپرد قلم کیا جس میں مسئلہ قتل مرتد پر قرآن و حدیث سے بحث کرنے کے بعد لکھا: ’’اس وقت احمدیوں کی دو جماعتیں ہیں۔ لاہوری جماعت کے عقائد تو بالکل عام مسلمانوں کے سے ہیں … قادیانی احمدی یعنی مرزا بشیرالدین صاحب کے حلقہ کے لوگ بے شک ان کے عقائد عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ہم ان لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ مگر باوجود ان کے غلط عقائد کے ان کو کافر و مرتد کہنا صریح ظلم ہے کیونکہ وہ اہل کعبہ ہیں، توحید، رسالت، قرآن اور حدیث کو ماننے اور عبادت ومعاملات میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں۔ صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کو فرض تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ قرآن کو کلام الٰہی اور رسول اللہ کو افضل الرسل و انبیاء مانتے ہیں۔ باقی مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو خیال انہوں نے قائم کرلیا ہے وہ ایک لحاظ سے غلط و باطل ہے مگر بہر صورت وہ قصور علم و کوتاہیٔ فہم کی وجہ سے ہے۔ وہ آیات و احادیث میں تاویل کرتے ہیں اور مؤول کو آج تک کسی نے مرتد و کافر نہیں کہا۔ مرتد کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ مرتد و کافر قرار دے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ

ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلٰم لست مومنا

جو تم کو سلام کرے اس سے یہ مت کہو کہ تو مومن نہیں۔ اگر قصور و فہم و تاویلات بعیدہ کی بناء پر کفر و ارتداد کے فتوے نکلنے اور احکام جاری ہونے لگیں تو کوئی فرقہ بھی کفر و ارتداد کی زد سے نہیں بچ سکتا۔… اگر مناظرانہ الزامات کفر وارتداد کو معتبر قرار دیا جائے تو پھر تمام فرقے ایک دوسرے کے نزدیک واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ بہت سے غالی اور منقشت علمائے احناف شیعوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ بالخصوص قائلین افک عائشہؓ کو۔ اسی طرح شیعہ خوارج کو کافر کہتے ہیں اور مناظرانہ حیثیت میں تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کو باطل ٹھہراتے اور کفرو ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں۔ بریل دارالکفر سے سینکڑوں علمائے حق کی نسبت کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ خصوصاً مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمہ اللہ علیہ سے لے کر حضرت شیخ الہند قدس سرہ العزیز تک تمام علمائے دیو بندان کے نزدیک بالکل ہی مرتد کافر تھے۔ کیا یہ سب واجب القتل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طریقہ پر ایک ایسے فتنہ کا … دروازہ نہیں کھل جاتا جو انتہائی تباہی اور بربادی کا باعث ہوگا‘‘۔
سید رئیس احمد صاحب جعفری نے مولانا جوہر کے مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’انہوں نے ان دونوں جماعتوں کے افکارو آراء کا مطالعہ کیا اور پھر اپنا نظریہ پیش کیا کہ اسلام میں قتل مرتد جائز نہیں… اس مسئلہ پر انہوں نے آیات قرآنی، احادیث رسول ﷺ اقوال فقہاء، خیالات آئمہ، افکار مجتہدین کا اتنا نادر ذخیرہ جمع کر لیا کہ ایک شخص پوری بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ پر ’’ریسرچ‘‘ کر سکتا ہے۔ اس ذخیرہ سے متمتع ہونے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق ایک رائے قائم کی اور اس پر آخر وقت تک مصر رہے‘‘۔
مولانا محمد علی جوہر کی سیاسی بصیرت کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’چند سال ہوئے ایک دفعہ پٹنہ میں مسلمانوں کی میٹنگ ہوئی اور اس میں … بہار کے ایک مولوی صاحب نے اس ذکر کے دوران میں کہ ہندوؤں کو سکھوں سے زیادہ طاقت مل رہی ہے کیونکہ وہ اقلیت میں ہو کر حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تمسخر کے طور پر کہہ دیا کہ اس کا علاج آسان ہے ہم بھی احمدیوں کو عام مسلمانوں سے الگ کر دیں اور انہیں کہیں کہ وہ حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کریں۔ اس پر مولانا محمد علی صاحب نے جو اس جلسہ کے صدر تھے بڑی سختی سے ان مولوی صاحب کو ڈانٹا اور کہا کہ کیا تم اسلام کے دوست ہو یا دشمن؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں پہلے ہی کافی تفرقہ ہے تم چاہتے ہو کہ ان میں اور زیادہ تفرقہ پیدا کردو‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں