قادیان سے عورتوں اور بچوں کا انخلاء

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اگست 1999ء میں مکرم چودھری محمد صدیق صاحب اپنی یادداشت کے حوالہ سے قادیان سے عورتوں اور بچوں کے انخلاء کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ستمبر 1947ء میں صوبیدار میجر ریٹائرڈ محمد حنیف صاحب ابن محترم مولانا محمد حسین صاحب نے لاہور آکر قادیان جانے کے لئے معلومات حاصل کیں ۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی غلط فہمی سے حضرت مصلح موعودؓ کو رپورٹ ہوگئی کہ وہ کنوائے لے کر آئے ہیں۔ چنانچہ حضورؓ نے راشن اور کچھ نوجوانوں کو قادیان پہنچانے کا پروگرام بنایا اور مضمون نگار کو کنوائے کا انچارج مقرر فرمایا۔ اگلے روز جب اصل حقیقت کا علم ہوا تو حضورؓ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور محمد حنیف صاحب نے کنوائے کے لئے کوشش شروع کردی۔ وہ لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے تو وہاں اُن کی یونٹ کے ایک سکھ افسر کی نظر اُن پر پڑی جو کنوائے بھجوایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے خود اِن کو آواز دے کر پوچھا کہ تم نے قادیان جانا ہے۔ اور پھر حالات معلوم کرکے تیس لاریوں پر مشتمل کنوائے کا کمانڈر اِنہیں مقرر کردیا ۔ اس کنوائے کے ذریعہ ہندوؤں اور سکھوں کو امرتسر پہنچانا تھا اور واپسی پر قادیان سے محصورین کو لے کر آنا تھا۔ چنانچہ یہ قافلہ پروگرام کے مطابق روانہ ہوکر قادیان پہنچا اور وہاں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو رپورٹ کی۔ ساری رات اور اگلی صبح بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ تب حضورؓ کی ہدایت کے مطابق کنوائے تیار کیا گیا جس میں ضعیف اور کمزور مردوں اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے لئے ترجیح تھی۔ بارش کی وجہ سے راستہ بہت خراب تھا۔ ابھی تتلہ تک پہنچے تھے کہ ایک گاڑی بند ہوگئی جو کسی طرح سٹارٹ نہ ہوئی۔ اس اثناء میں پتہ چلا کہ اس گاڑی میں سلسلہ کے ایک معاند مولوی محمد یعقوب آف بھامبڑی بھی موجود تھے جو کسی طریقہ سے اس میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہیں نیچے اتارا گیا تو گاڑی سٹارٹ ہوگئی۔ اُس کی منت سماجت پر اُسے دوسری گاڑی میں بٹھادیا گیا اور قافلہ بٹالہ پہنچ گیا۔ وہاں یہ افواہ ملی کہ ہندوؤں نے پینے کے پانی میں زہر ملا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بنادیا کہ محمد حنیف صاحب نے دوسری یونٹ کے افسر سے پانی کا ٹینکر حاصل کیا۔ رات کو ایک عورت کو زچگی کی تکلیف شروع ہوگئی تو محمد حنیف صاحب نے اپنی اہلیہ کو اُس کے پاس پہنچایا اور سارا مرحلہ بخیریت مکمل ہوگیا۔ اگلے روز جب ہم واہگہ بارڈر پر پہنچے تو وہاں کئی قافلے سرحد پار کرنے کی اجازت ملنے کے منتظر تھے۔ افسر کا ایک ہی جواب تھا کہ پہلے وہ جائیں گے پھر ہمارے قافلے کی باری آئے گی۔ اسی اثناء میں حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کے صاحبزادے عبداللطیف صاحب بھی وہاں آگئے جو ہمارے قافلہ کے ساتھ اپنی پرائیویٹ گاڑی میں قادیان سے چلے تھے۔ افسر نے انہیں پہچان لیا اور حضرت ڈپٹی صاحب کے احسانات کا ذکر کرکے فوری طور پر ہمارے کنوائے کو گزرنے کی اجازت دیدی اور ہم عصر کے قریب جودھا مل بلڈنگ پہنچ گئے اور حضورؓ کی خدمت میں اطلاع دیدی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں