قبولیت دعا کے دو واقعات

محترم میاں محمد ابراہیم صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍دسمبر1997ء میں ایسے دو واقعات بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمایا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ 1947ء میں ہم نقل مکانی کرکے چنیوٹ میں آباد ہوئے۔ جو سکول ہمیں الاٹ ہوا اس کی عمارت جل چکی تھی، فرنیچر غائب تھا۔ حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ ہیڈماسٹر تھے۔ قادیان کے زمانہ سے ہی ہماری یہ خصوصیت تھی کہ ہم اپنی اور طلبہ کی کامیابی کے لئے دعاؤں پر زور دیتے تھے۔ جن احمدیوں کے بچے کسی اور سکول میں داخلہ نہ لے سکے وہ ہمارے پاس بھجوادیئے گئے تھے اس لئے خدشہ تھا کہ میٹرک کا نتیجہ لازماً خراب نکلے گا اور جگ ہنسائی کا موجب ہوگا۔ سکول کے آخری دن دعا ہوئی تو سوز و گداز سے چیخیں نکل گئیں کیونکہ جو بچے امتحان دینے جا رہے تھے ان میں اکثریت کمزور بچوں کی تھی جن کے فیل ہونے سے جماعت کے وقار کو دھبہ لگنا تھا۔ بدنامی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو دل مطمئن ہوگیا لیکن دماغ کہہ رہا تھا کہ بدنامی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔… نتیجہ کا اعلان ہوا تو یونیورسٹی کی پہلی سات میں سے چار پوزیشنیں ہمارے سکول کے حصے میں آئیں۔ گو مجموعی طور پر نتیجہ واجبی سا تھا لیکن کیفیت نے ایسا سماں باندھ دیا کہ کمیت کی جگہ کیفیت نے لے لی۔
مضمون نگار ایک ذاتی واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ 1973ء میں خاکسار کو امریکہ بطور مبلغ بھجوایا گیا۔ رہائش مسجد احمدیہ ڈیٹن میں تھی۔ چونکہ کھانا پکانا نہیں آتا تھا اس لئے زیادہ تر گزارا بسکٹ کھاکر کرتا رہا۔ آہستہ آہستہ صحت گِرنی شروع ہوئی اور میں بیمار پڑگیا۔ ہسپتال داخل کروایا گیا لیکن تشخیص نہ ہوسکی۔ خوراک نہ ملنے سے کمزوری بھی ہوتی گئی۔ آخر ایک روز ڈاکٹرز کے ایک بورڈ نے لاعلاج قرار دے دیا اور اندازہ لگایا کہ یہ مریض جمعہ تک نہیں بچے گا۔ مجھے یہ فیصلہ سن کر بہت گھبراہٹ ہوئی اور میں نے رات کو تضرّع سے دعا کی کہ اے اللہ تو جب چاہے بلالے لیکن اس وقت میں دیارغیر میں ہوں، اگر تُو میری موت کو مؤخر کردے تو یہ خاص فضل ہوگا۔ … میں دعا کرتے ہوئے روتا رہا حتی کہ مجھے محسوس ہوا کہ دعا قبول ہوگئی ہے اور میں مطمئن ہوگیا۔ صبح ڈاکٹرز آئے اور مجھے غیرمتوقع طور پر ہشاش بشاش دیکھا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے ہسپتال سے فارغ کردیں۔ چنانچہ مجھے جماعت کے افراد ہسپتال سے لے آئے اور اللہ تعالیٰ نے میرے امریکہ میں دس سالہ قیام کو اس طرح قبول فرمایا کہ آئندہ مجھے کبھی کسی قابل تشویش عارضہ میں مبتلا نہ ہونے دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں