قرآن کریم میں مذکور ’’اصحاب‘‘

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 2 اکتوبر 2020ء)

قرآن کریم میں بیس سے زائد مختلف گروہوں (اصحاب) کا ذکر ہے جو تعریف و تحسین، تلقینِ عمل یا درسِ عبرت کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔ ماہنامہ ’’النور‘‘امریکہ نومبر دسمبر 2012ء میں اس حوالے سے مکرم لطف الرحمٰن محمود صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے۔

اَصْحَابُ الرَّسُوْل ﷺ

متعدد آیاتِ قرآنی میں صحابہ اور صحابیات کا انفرادی اور اجتماعی طور پر ذکر موجود ہے۔ مثلاً بدر، اُحد، احزاب، حُنین اور تبوک وغیرہ معرکوں میں حصہ لینے والے صحابہ۔ حُدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان میں شامل ہونے والے صحابہ۔ غارِ ثور کے حوالہ سے حضرت ابوبکرؓ کا ذکر۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کی تردید۔ حضرت خولہؓ بنتِ ثعلبہ کی اپنے شوہر کے خلاف شکایت جو اللہ تعالیٰ نے عرش پر سُن لی۔ حضورؐ کے نابینا صحابی عبداللہ ؓ بن شُریح (ابن اُمّ مکتوم) کا واقعہ۔ نیز اجتماعی طورپر صحابہ کرام کا یہ پہلو کہ

اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَہُمْ

اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ سے راضی ہونے کی سندِ امتیاز چند مشہور مثالیں ہیں۔
نام کے ساتھ صرف زیدبن حارثہ ؓ کا ذکر قرآن مجید میں وارد ہوا ہے۔ حضرت زید بن حارثہؓ ایک آزاد کردہ غلام تھے اس لیے کئی لوگ اُنہیں سیاہ فام اور حبشی النسل سمجھتے ہیں حالانکہ وہ عرب کے مشہور قبیلہ بنو کلب کے چشم و چراغ تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں بنو قین کے ڈاکوؤں نے اُنہیں قیدی بنا کر بیچ دیا۔حکیم بن حزام بن خویلد اُنہیں خرید کر مکّہ لائے اور حضرت خدیجہؓ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہؓ نے حضرت نبی کریمﷺ سے شادی کے بعد انہیں حضورؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔اس وقت زیدؓ کی عمر 15 سال تھی۔ زیدؓ کے والد، چچا اور بھائی اُنہیں واپس لے جانے کے لیے مکہ آئے مگر انہوں نے حضورؐ کے دامنِ شفقت سے الگ ہونا پسند نہ کیا۔ گویا اس غلامی پر اپنی آزادی کو قربان کردیا۔ اس پر حضورؐ نے خانہ کعبہ کے سامنے لے جاکر ان کی آزادی کا اعلان کیا اور عرب کے دستور کے مطابق اُنہیں اپنا متبنّٰی بنادیا۔ حضرت زید ؓکو پہلے چار مسلمانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دیگر تین حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ ہیں۔ قبولِ اسلام کے بعد زیدؓ ہر وقت حضورؐ کی خدمت اور حفاظت پر کمربستہ رہے۔ طائف کے سفر میں بھی وہ حضورؐ کے ساتھ تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد اُمّ المومنین سودہؓ اور حضورؐ کی صاحبزادیوں کو مکّہ سے مدینہ لے کر آئے۔ ایک بہادر اور جری سپاہی تھے۔ تمام معرکوں میں پیش پیش رہے۔ حضورؐنے اُنہیں بعض مہمات میں اسلامی لشکر کا سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ 8ہجری میں جنگِ موتہ میں سپہ سالار کی حیثیت سے 51 سال کی عمر میں شہید ہوکر اُردن میں مدفون ہوئے۔

اَصْحَابُ السَّفِیْنَہ

حضرت نوحؑ کو قبول کرنے والوں کا ذکرسورۃ العنکبوت کی آیت16 میں ہے جن کے لیے ’’اصحاب السفینہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ سورۂ ہود میں حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے کے لیے الٰہی حکم کا ذکر ملتا ہے اور پھر منکرینِ نوحؑ کے انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ قومِ نوحؑ جنوبی عراق میں آباد تھی۔ حضرت نوحؑ کا سفینہ، جُودی پہاڑ پر جاکر رُکا جس کو آرارات بھی کہتے ہیں۔ اس وقت یہ پہاڑ مشرقی تُرکی میں واقع ہے اور اس کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کی تاسیس کے حکم کے لیے حضرت نوحؑ کی کشتی کی تیاری والے قرآنی الفاظ حضرت مسیح موعودؑ پر الہاماً نازل فرمائے۔ چنانچہ حضورؑ نے اپنی جماعت کے لیے تعلیمات کا خلاصہ جس کتاب میں رقم فرمایااس کا نام بھی ’’کشتی نوح‘‘ رکھا۔ سورۃ ہود کی آیت47میں ہم احمدیوں کے لیے ایک بین السطور پیغام موجود ہے۔ یعنی جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو اپنا ’اہل‘ (گھر کا فرد) قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے رحم کی اپیل کی تو اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا:

اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ۔
اَصْحَابِ مُوْسیٰ ؑ

سورۃ الشعراء کی آیت 62میں حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ مصر سے ارضِ موعود کے لیے نکلنے والے بنی اسرائیل کے لیے اصحابِ موسیٰؑ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس اجتماعی ہجرت کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے، صدیوں کی اس غلامی سے نجات دلانے کے لیے حضرت موسیٰ ؑکو یہ مشن سونپا۔ کئی معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اس مطالبہ کو ٹالتا رہا توآخرکار، باذنِ الٰہی، بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کی نیّت سے نکل کھڑے ہوئے۔ فرعون غیض و غضب میں لاؤلشکر کے ساتھ تعاقب میں نکلا اور دریائے نیل یا بحرئہ قلزم کے کنارے انہیں جا لیا۔ صدیوں کی غلامی کے بداثرات سے بنی اسرائیل کے ذہن ماؤف ہوچکے تھے۔ فرعونی لشکر کو دیکھ کرچلّانے لگے ’’ہائے پکڑے گئے‘‘ ۔ لیکن حضرت موسیٰؑ کا توکّل علی اللہ پیغمبرانہ تھا، فرمایا:

کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْن۔

چنانچہ اگلی تین چار آیات میں آلِ فرعون کی غرقابی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
ضمناً عرض ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺنے غارِ ثور میں جس پائے کا توکّل علی اللہ دکھایا وہ حضرت موسیٰؑ سے بڑھ کر ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہزاروں اسرائیلی تھے۔ لڑائی کی نوبت آتی تو مدافعت کچھ دن تو چلتی۔ کمزوروں کے لیے کم از کم فرار کی راہیں موجود تھیں۔ لیکن غارِ ثور سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جس پر خُون کے پیاسے مسلّط تھے اور غار کے اندر سے حضرت ابوبکرؓ کو ان کے پاؤںنظر آرہے تھے۔ تجربہ کار کھوجی کہہ رہے تھے یا تو وہ اس غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں۔ ان حالات میں حضورﷺ نے ابوبکرؓ کو تسلی دی:

لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا۔ (توبہ:40)
اَصْحَابُ الْاَعْرَاف

سورۃ الاعراف کی آیت 49 میں اصحاب الاعراف کا ذکر وارد ہوا ہے۔ اعراف، عُرف کی جمع ہے۔ اعراف سے مراد جنت کے ایسے بلندوبالا مقامات ہیں جہاں صاحبانِ عزّوشرف قیام فرما ہوں گے۔ تفاسیر میں اعراف میں قیام کرنے والی شخصیات کے بارے میں پندرہ اقوال ملتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق جنّت کے اُن اعلیٰ مقامات کے اصل مقیم انبیاء و مرسلین اور ان کے فیض سے متمتع ہونے والے صدیقین، شہداء، صالحین اور امّت مسلمہ کے اولیاء و علماء ربّانی ہیں۔

اَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ

سورۃ طٰہٰ کی آخری آیت میں ایمان کی نعمت سے سرفراز ہونے کے نتیجے میں جادئہ مستقیم کے مبارک رہرووں کو ’’اَصحابُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ‘‘ کہہ کر یاد فرمایا گیا ہے۔ سورۃ طٰہٰ کا حضرت عمر ؓبن خطاب کے قبولِ اسلام سے تعلق ہے۔ بعثت نبوی کے پانچویں سال جب حضرت عمرؓ، شمشیر بکف، حضورﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے نکلے اور راستے میں معلوم ہوا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں تو وہیں سے اپنی بہن کے ہاں پہنچے۔ بہن اور بہنوئی کو مارا پیٹا اور پھر بہن کو خون میں لت پت دیکھ کر شرمندہ ہوئے اور پوچھا کیا پڑھ رہے تھے۔ بہن نے طٰہٰ کی آیات کا ذکر کیا۔ کہا مجھے بھی دکھاؤ۔انہوں نے غسل کرنے کی شرط عائد کردی۔ غُسل کیا۔ غصہ فرو ہوا۔ پاک صاف ہوکر جب اُن آیات کو پڑھا تو حق ظاہر ہوگیا۔ وہیں سے دارِ ارقم پہنچے اور آنحضورﷺ کے سامنے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس ابتدائی زمانے میں بھی قرآن مجید کی آیات کولکھ کر محفوظ کرنے کی روایت مستحکم تھی۔ چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ، تازہ قرآنی آیات کے مسودہ کو لے کر حضرت عمرؓ کی بہن اور اُن کے شوہر حضرت سعیدبن زیدؓ کے پاس لائے تھے۔
حضرت خبابؓ کو چھٹے نمبر پر قبولِ اسلام کی توفیق ملی۔ اس وجہ سے اُنہیں ’’سَادِسُ الْاِسْلَام‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ باہر سے آکر مکّہ میں آباد ہوگئے تھے۔غریب آدمی تھے۔ لوہارکا کام کرتے تھے۔ قبولِ اسلام کی پاداش میں قریش انہیں اِن کی دُکان کے انگاروں پر لٹادیتے تھے۔ جب یہ زخم مندمل ہوئے تو ان کی پشت چیتے کی کھال کی طرح داغدار نظر آتی تھی۔ حضرت عمرؓ انہیں اپنے پہلو میںجگہ دیتے۔ حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں انتقال فرمایا اور عراق کے شہر کُوفہ میں مدفون ہوئے۔

اَصْحَابُ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْم

سورۃ الکہف کی آیت 10میں اصحاب الکہف والرقیم کے الفاظ آئے ہیں جن کا مطلب ہے ’’غار اور یادگاری تختی والے لوگ‘‘۔ رُومی شہنشاہ Decius (دقیانوس) 249ء سے 251ء تک حکمران رہا۔ یہ عیسائیت کا بدترین دشمن تھا۔ اس کے مظالم سے تنگ آکر کئی عیسائی غاروں میں چُھپ گئے۔ مظالم کا یہ سلسلہ شہنشاہ Theodosius دوم کے عہدِ حکومت 408ء تا 450ء تک جاری رہا۔ سورۃ الکہف میں اُن عیسائی نوجوانوں کا ذکر ہے جو عقیدئہ توحید پر استقامت سے ڈٹے رہے اور اس راہ میں ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان پر ایسا زمانہ بھی آیا کہ اُنہیں اپنا دین بچانے کے لیے غاروں میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ اصحاب الکہف کو مغربی دانشور Seven Sleepers of Ephesus کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ’’رقیم‘‘ کا مطلب چونکہ کتبہ بھی ہوتا ہے اس حوالے سے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سات نوجوانوں کے نام تانبے کی پلیٹ یا پتھر کی سِلّ پر کُھدوائے گئے تھے۔ بعض نے ’’رقیم‘‘ سے وہ وادی یا پہاڑ مراد لیا ہے جس میں ان کی غار موجود تھی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تحقیق کے مطابق اصحاب کہف رومی سلطنت میں مقیم مسیحی تھے اور اُن پربت پرست حکمرانوں کے مظالم تقریباً تین سو سال تک جاری رہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ مسیحی موحدوں کی تین سو سال کے عرصے میں دی گئیں قربانیوں کا مجموعی ذکر فِتْیَۃٌ (نوجوان لوگ) کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ حضورؓ نے ان غاروں یعنی روم کے Catacombsکاذکر کیا ہے جنہیں حضورؓ نے 1924ء میں سفر یورپ کے دوران دیکھا اور وہاں مسیحی شہیدوں کی قبروں پر نصب کتبوں کو پادریوں سے پڑھوا کر سنا۔ اس سے اصحاب کہف کے حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ ایسے غار روم کے علاوہ مصر، سسلی، مالٹا اور دیگر مقامات پر بھی پائے جاتے ہیں۔
اصحاب کہف کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ نے گہری معرفت کا نکتہ یوں بیان فرمایا ہے:
’’میںدیکھتا ہوں براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں سِرّ یہی ہے کہ جیسے وہ مخفی تھے اسی طرح تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کسی پر نہ کھلا۔ اور ساتھ اس کے جو رقیم کا لفظ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے اور وہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیش گوئی کرتے چلے آئے ہیں۔‘‘

اَصْحَابُ الْمَیْمَنَہ

قرآن کریم کی دوسورتوں میں ہمیں اصحاب المیمنہ کا ذکر ملتا ہے۔ سورۃ الواقعہ آیت 9اور سورۃ البینہ آیت19۔ اگر میمنہ کو اَیْمن سے ماخوذ سمجھا جائے تو اصحاب المیمنہ کا مطلب ہوگا ’’دائیں ہاتھ والے‘‘ اگر اسے یُمن سے اخذ کیاجائے تو پھر اس سے برکت کے حامل لوگ مراد لیے جائیں گے۔ اہلِ جنت کو چونکہ اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اس لیے یہی ’’دائیں ہاتھ والے لوگ‘‘ ہیں۔ اور اہل جنت سے بڑھ کر خیرو برکت کا مہبط اور محور اَور کون ہوسکتا ہے۔
سورۃ البلد میں اصحاب المیمنہ کی بعض صفات کا ذکر ہے۔ 1۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا۔ (اگرچہ اب غلامی روایتی شکل میں موجود نہیں مگر مقروض کو قرض سے آزاد کروانا اور چٹی کا شکار ہوجانے والوں کو محض لِوجہ اللہ مصیبت سے نجات دلانا بھی غلام آزاد کرنے کے مترادف ہے)۔ 2۔بھوکوں اورفاقہ کشوں کو کھانا کھلانا۔ 3۔یتیموں کی دیکھ بھال۔4۔ غریب رشتہ داروں سے حسنِ سلوک۔ 5۔ خاک آلود غرباء و مساکین کی امداد۔ 6۔ اصحاب المیمنہ ایمان لانے کے بعد استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسروں کو استقامت اور رحم و کرم کی تلقین کرتے ہیں۔

اَصْحَابُ الْیَمِیْن

سورۃالواقعہ کی آیت 28 میں ’’اصحاب الیمین‘‘ کا ذکر ہے جس کا مطلب ہے دائیں ہاتھ والے۔ ان الفاظ کا دوسرا پہلو اس گروہ کا برکات وحسنات کا حامل ہونا ہے۔ اسی سورت کی آیات 29تا41میں اصحاب الیمین کے لیے حیاتِ آخرت میں مختص انعامات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اَصْحَابُ الْجَنَّہ

قرآن کریم میں یہ اصطلاح کئی مقامات پر مختلف حوالوں سے استعمال ہوئی ہے۔مثلاً سورۃ الاعراف کی آیت 43 میں بیان ہے کہ ایمان لانے اور اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ سورۃ الاحقاف کی آیات 14اور15میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے اور اس راہ میں استقامت اختیار کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ صرف ایک جگہ ’’اصحاب الجنہ‘‘ کی ترکیب اُخروی جنت کی بجائے، دنیاوی باغ کے مالکوں کے لیے استعمال کی گئی ہے (سورۃ القلم آیت 18) جس میں عذاب اور وعید کا ذکر ہے۔

اَصْحَابُ الْقَریہ

سورۃ یٰسٓ کی آیت 14 میں ’’اصحاب القریہ‘‘ کا ذکر ہے۔ بعض مفسرین نے ’قریہ‘ سے مراد شمالی شام کا شہر انطاکیہ لیا ہے اور رسولوں سے مراد حضرت عیسیٰ ؑکے حواری ہیں۔
جماعت احمدیہ کے مطابق ’قریہ‘ سے ساری دنیا بھی مراد ہے اور اصحاب القریہ سے مراد تمام انسانیت۔ نیز اس سے شہر مکہ بھی مراد ہوسکتا ہے جو اُمّ القُریٰ ہے۔ انبیاء و رُسل سے اوّل نمبر پر حضرت نبی کریمﷺ اور پھر مجموعی طورپر تمام انبیاء و رُسل مراد ہیں۔ سورۃ یٰسٓ میں پہلے دو رسول اور پھر تیسرا رسول بھیجنے کا ذکر ہے۔ پہلے دو رسول موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ ہیں اور تیسرے رسول محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں۔

اَصْحَابُ السَّبْت

بنی اسرائیل یعنی یہود کے لیے یہ شرعی حکم تھا کہ وہ ہفتہ کے ساتویں دن کسی قسم کا کام کاج، لین دین، تجارت یا کاروبار نہ کریں۔ یہ دن آرام اور عبادت کے لیے وقف رکھیں۔ موسوی شریعت میں سبت کی بے حُرمتی کرنے والے کے لیے موت کی سزا مقرر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑکی زندگی میں ایک شخص سبت کے دن لکڑیاں چُنتا ہوا پایا گیا تو سبت کی بے حرمتی کے جرم میں اُسے حضرت موسیٰ ؑ کے حکم سے سنگسار کردیا گیا۔
یہودی فقہ کے مطابق، سبت کے دوران 39قسم کے کام ممنوع ہیں۔ مثلاً کھیتی باڑی کرنا۔کھانا تیار کرنا۔ کپڑا بننا۔ آگ روشن کرنا۔ لکھنا۔ جانور ذبح کرنا، عمارت تعمیر کرنا وغیرہ۔ سورۃ النساء آیت 48 میں بیان ہے کہ ’’اصحاب السبت‘‘ سے یہود کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے چالاکی سے سبت کے دن، مچھلیاں پکڑنے کی تدبیر اختیار کرلی۔ اللہ تعالیٰ کو یہ مکرو تلبیس پسند نہ آئی تو بندروں کی طرح ان کے دل مسخ کردیئے اور دینی معاملات میں وہ نقّالی کی حد تک رہ گئے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت66 میں سبت کی بے حرمتی پر ان کی روحانی سزا کا ذکر موجود ہے:

فَقُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ
اَصْحَابُ الْقُبُوْر

’اصحاب القبور‘ کا لفظی مطلب ہے ’قبروں والے‘۔ یعنی مُردہ لوگ۔ یہ اصطلاح سورۃ الممتحنہ کی آخری آیات میں وارد ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو نصیحت فرماتا ہے کہ ایسی قوم کے افراد کو اپنا گہرا دوست نہ بناؤ جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے جارہے ہیں۔ اُن کی ایک علامت یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں جس طرح کُفّار ’’اہلِ قبور‘‘ سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یعنی ان لوگوں کا قیامت اور حیاتِ آخرت پر ایمان نہیں، نہ ہی اعمال کے محاسبہ اور اجرو ثواب یا عذاب و عتاب کے قائل ہیں۔
مشرکینِ مکّہ کی طرح یہود فرقہ صدوقی (Sadducees) بھی حیاتِ آخرت اور قیامت کا منکر تھا۔ بلکہ یہ فرشتوں کے وجود اورتقدیرکے بھی منکر تھے۔ البتہ مذہبی پیشوائیت اور سردارِ کاہن (Chief Priest) وغیرہ کے نظام کے پُرجوش داعی تھے۔ یہ لوگ یہود کے ایک دوسرے فرقے فریسی (Pharisees)کے سخت خلاف تھے جو حیاتِ اُخروی اور اعمال پر جزاسزا کے قائل تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ دونوں فرقے حضرت عیسیٰ ؑ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے اور انہیں صلیب پر لٹکانے پر متفق ہوگئے۔ صدوقی، یہود کی اُس اسمبلی کے ممبر تھے جس نے حضرت عیسیٰ ؑکو سزائے موت دینے کی سازش کی تھی۔ فریسی شریعت موسوی پر ریاکارانہ انداز میں عمل کرتے تھے۔ حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑان کو ریاکاری ترک کرنے کی تلقین فرماتے رہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ نے ’’ریاکار فقیہوں اور فریسیوں‘‘ کو سانپ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے۔ سینٹ پال (St. Paul) جس نے بعد میں نئے عقائد وضع کرکے حضرت عیسیٰ ؑ کے دین کو یکسر بدل دیا، ایک فریسی تھا۔

اَصْحَابُ الْاَیْکَہ

’ایکہ‘ گھنے درختوں کے جھنڈ کو کہتے ہیں اسی لیے ’اصحاب الایکہ‘ سے درختوں کے جھنڈمیں رہنے والے لوگ مراد لیے گئے ہیں۔ سورۃالحجر کی آیات79تا80 میں اصحاب الایکہ کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ صٓ میں ثمود، قوم لوطؑ اور اصحاب الایکہ کو اجتماعی طورپر‘احزاب’کہا گیا ہے۔ سورۃ قٓ کی آیت 15 میں اصحاب الایکہ کا قوم تُبّع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ نبیوں کی تکذیب اور عذاب کی وعید کا ذکر یہاں بھی موجود ہے۔
بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ سے اصحابِ مدین یعنی حضرت شعیبؑ کی قوم مراد لی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی علاقے میں رہنے والی دو الگ قومیں تھیں مگر دونوں کے لیے حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے۔ سورۃ الشعراء کی آیات 177سے 190میں اصحاب الایکہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شعیبؑ کی قوم کی برائیوں کا ذکر بھی موجود ہے یعنی ناپ تول میں کمی اور لین دین میں بددیانتی کرنا۔ سورۃ الاعراف میں اس قوم کی زلزلہ سے تباہی کا ذکر ہے۔

اَصْحَابُ الرَّس

کم گہرے گڑھے کو ’’رس‘‘ کہا جاتا ہے۔غالباً ’’اصحاب الرس‘‘ سے مراد کسی‘کنویں’کے اردگرد آباد لوگ ہیں۔ سورۃ الفرقان آیت39 میں عاد،ثمود اور اصحاب الرس کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ ق کی آیت13 میں قومِ نوح، اصحاب الرس اور ثمود کا ذکریکجا کیا گیا ہے۔ ان تینوں قوموں نے اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور عذابِ الٰہی کا مورد بنے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ کنواں ثمود کی ملکیت تھا اور ان ظالموں نے اپنے معصوم نبی کو کنویں میں پھینک دیا تھا۔ بعض مفسرین نے عاد کی دو نسلوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلے عاد یمن میں آباد تھے جن کی تباہی کے بعد اُن کے نبی حضرت ہُودؑ حضرِموت تشریف لے گئے جہاں بعد میں ان کا انتقال ہوا۔ ثمود کو عاد کی دوسری نسل قرار دیا گیا ہے جن کے نبی حضرت شعیبؑ تھے۔
یورپین یہودی مشہور مصنّف محمد اسد نے اسلام قبول کیا اور تاریخ اسلام کی روایات اور قرآن کریم کے محاورات کو سمجھنے کے لیے اُنہوں نے عرب کے بدّوؤں میں رہ کر عربی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر انگریزی میں قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی۔ وہ عرب کے علاقہ نجد کے صوبہ القاسم میں ’’الرس‘‘ نام کے ایک شہر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں تدبر کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ اس (اصحاب الرس) سے مراد یوسفؑ کو کنویں میں ڈالنے والے ہیں۔‘‘

اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد

سورۃ البروج کی آیت 5 میں ہے: قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ (خندقوں والے ہلاک ہوگئے)۔
اگلی آیت میں ہے اَلنَّارُ ذات الوقود یعنی ان خندقوں میں آگ بھڑکانے والے ان میں بڑی کثرت سے ایندھن جھونکا کرتے تھے۔
یمن کا آخری حمیری بادشاہ ’ذونواس‘ خود یہودیت قبول کرکے اس مذہب کا پُرجوش پیرو بن گیا اور اُس نے نجران (جنوبی عرب) کے عیسائیوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھا۔ اُس کے فوجی، خندقوں میں آگ بھڑکاکر عیسائیوں کو اپنے مذہب یا موت میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے۔ ذونواس 524ء میں مرا اور تب تک اس نے نجران کے اکثر عیسائیوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔
یہود میں کئی بادشاہ گزرے ہیں۔ حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند حضرت سلیمانؑ، دونوں نے چالیس چالیس سال حکومت بھی کی۔ ملکہ بلقیس (عربی نام سبا) نے حضرت سلیمانؑ کا دین قبول کرلیا تھا۔ حضرت سلیمانؑ کا، ملکہ بلقیس کے بطن سے ایک لڑکا Menyelekتھا جو حبشہ کے شاہی خاندان کا بانی بنا۔اس خاندان کا آخری بادشاہ ہیل سلاسی 1977ء میں فوت ہوا۔ اس کا ایک سرکاری خطاب ’’Lion of Juda‘‘ تھا یعنی سلطنت ِسلیمان کا شیر ببر!۔

اَصْحَابُ الْحِجْر

سورۃالحجر کی آیات 81تا85میں اصحاب الحجر کا ذکر ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ اتمامِ حُجّت کے لیے، انہیں معجزات دکھائے گئے مگر ان بدقسمت لوگوں نے تکبر کی روِش جاری رکھی۔ یہ لوگ پہاڑوں کو کھود کر ان میں مکانات بناتے تھے۔آخر انہیں عذاب نے آن گھیرا اور ان کے اموال و اسباب اُن کے کسی کام نہ آئے۔
مدینہ منورہ سے 150میل کے فاصلے پر جبل الحجر نامی ایک پہاڑ موجود ہے جہاں قوم ثمود آباد تھی۔ یہ مقام شام کے تجارتی راستے پر واقع ہے۔ بعض مکانات اب بھی محفوظ ہیں۔ یہاں حضرت صالح ؑکو مبعوث کیا گیا۔ وہ اونٹنی پر بیٹھ کر تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ظالموں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ اس ظلم کے بعد وہ قوم زلزلہ سے تباہ کردی گئی۔ 9؍ہجری میں حضرت نبی کریم ﷺ غزوئہ تبوک پر تشریف لے گئے تو اسلامی لشکر کا اصحاب الحجر(مدائن صالح ؑ) کے علاقہ سے گزر ہوا تو حضرت رسول کریمﷺ نے حکم دیا کہ ’’کوئی شخص یہاں قیام نہ کرے۔ نہ پانی پیے، نہ کسی کام میں لائے۔‘‘

اَصْحَابُ الشِّمَال

سورۃ الواقعہ میں اصطلاحات کے حوالے سے سات گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک تقسیم بارگاہِ الٰہی میں قُرب یا دُوری کے حوالے سے ہے جس میں تین گروہوں کا ذکر ہے:
1۔ مقربین بارگاہِ الٰہی (سابقون الاوّلون)۔
2۔عامۃالمسلمین۔
3۔ مکذبین و منکرین۔
اس سورۃ میں، ایک تقسیم برکت اور نحوست کے حوالے سے ہے۔ برکت کے حامل مبارک وجودوں کو ’اصحاب المیمنہ‘ اور ’اصحاب الیمین‘ کہا گیا ہے۔ پھر آیات 43تا57 میں اصحاب الشمال کا ذکر ہے جنہیں مختلف سزائیں دی جائیں گی۔

اَصْحَابُ الْمَشْئَمَہ

’’اصحاب الشمال‘‘ کی طرح ’’اَصْحَابُ الْمَشْئَمَہ‘‘ بھی ’’بائیں ہاتھ والے‘‘ ہیں یعنی انہیں بھی بروز حشر نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں تھمادیا جائے گا جوان کے مستوجب عذاب ہونے کی علامت ہوگا۔ اَصْحَابُ الْمَشْئَمَہ کی اصطلاح سورۃ الواقعہ کی آیت 10 اور سورۃ البلد کی آیت 19 و 20 میں استعمال کی گئی ہے۔ انہوں نے نشانات سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور نتیجۃً ایک بند آگ اُن پر لپکنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔

اَصْحَابِ الْفِیْل

سورۃ الفیل میں ہاتھی والوں کا ذکر ہے۔
یمن میں شاہِ حبشہ کے وائسرائے ابرہہ نے صنعا میں ایک بہت بڑا چرچ تعمیر کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہ عرب کے لوگ زیارت اور عبادت کے لیے مکہ جانے کی بجائے صنعا آیا کریں۔ معاشی فوائد کے علاوہ وہ آہستہ آہستہ عربوں کو عیسائی بھی بنانا چاہتا تھا۔ مگر اُسے ان حیلوں میں کامیابی نہ ہوئی۔ ناراض ہوکر اس نے خانہ کعبہ کو مُنہدم کرنے کی نیّت سے فوج کشی کی۔ اس کی فوج میں کئی ہاتھی بھی موجود تھے۔ چونکہ ہاتھی عرب کا جانور نہیں اس لیے عربوں نے ابرہہ کی فوج کو ’’اصحاب الفیل‘‘ کہا۔ اصحاب الفیل کی تباہی کو اکثر مورخین (بشمول ولیم میور) نے چیچک کا عارضہ قرار دیا ہے۔ ابرہہ کا لشکر تو مکہ کے اردگرد وادیوں میں تباہ ہوگیا۔ مگر ابرہہ بیماری کی حالت میں، ناکام و نامراد یمن پہنچا اور وہاں نشانِ عبرت بن کر موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ اس سال کو ’’عام الفیل‘‘ کا نام دیا گیا۔ ابرہہ نے محرّم کے مہینے میں مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اُسی سال ربیع الاول میں حضرت نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

اَصْحَابُ النَّار، اَصْحَابُ الْجَحِیْم، اَصْحَابُ السَّعِیْر

اصحاب النّار کے دو اَور نام بھی ہیں یعنی اصحاب الجحیم اور اصحاب السعیر۔ اصحاب النار کے حوالے سے سورۃ البقرۃ کی آیت 40اور سورۃ یونس کی آیت 28 میں آیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا اور نشانات کو جھٹلایا۔ یہ لوگ بدیاں کماتے رہے جن کی وجہ سے ان کے چہروں پر تاریکی اور ذلّت چھا جائے گی اور انجام ان کا دوزخ ہوگا۔ سورۃ البقرۃ آیت120 میں ذکر ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اور حضورؐ سے اصحاب الجحیم کے بارے میں بازپُرس نہیں کی جائے گی یعنی جہنّمی اپنے اعمال اور انجام کے خود ذمہ دار ہیں۔ پھر سورۃ الحدید آیت 20 میں ناجی اور ناری دونوں گروہوں کا پہلو بہ پہلو ذکر ہے۔ جو لوگ اللہ اور رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق اور شہید کے مقام پر فائز ہیں۔ لیکن جنہوں نے کُفر اختیار کیا وہ اصحاب الجحیم ہیں۔
اصحاب السعیرکے حوالہ سے سورۃ فاطر کی آیت 5 میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو متنبہ کرتا ہے کہ شیطان تمہارا ازلی اور ابدی دشمن ہے۔ اُس کی شاطرانہ چالوں میں نہ آجانا کیونکہ اپنے ’حزب‘ یعنی گروہ کو سعیر میں جھونکنا یعنی جہنمی بنانا ہی اس کا مقصد و مدعا ہے۔ پھر سورۃ الملک کی آیات 10 تا 12 سے معلوم ہوتا ہے اصحاب السعیر اللہ تعالیٰ کے مُرسل کو جھٹلاتے ہیں اور اس پر نازل ہونے والی وحی کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن سعیر یعنی دوزخ میں جا کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم ان کی نصائح کو سنتے اور غوروفکر کرتے تو آج ہم اس بھیانک انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ اور یہ بھی کہ اصحاب السعیر اپنے جرائم اور گناہوں کا اعتراف کرلیں گے۔ بالفاظ دیگر وہ یہ تسلیم کرلیں گے کہ ان کا سعیر میں ڈالا جانا، ان پر زیادتی نہیں بلکہ اپنے بداعمال کے نتیجے میں وہ اس سزاکے مستحق تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں