قرآن کریم کی عظمت کا اعتراف

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ جون 2012ء میں مکرم چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب مرحوم کا ایک مختصر مضمون رسالہ ’’الفرقان‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں ایک مستشرق ڈاکٹر بیل (Bell) کے ساتھ ملاقات اور ڈاکٹر موصوف کی طرف سے قرآن کریم کی عظمت کے اعتراف پر مبنی روئیداد شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ سکاٹ لینڈ کے چوٹی کے مستشرق ڈاکٹر بیل ایڈنبرا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ جب آپ ریٹائرڈ ہونے کے بعد تالیف و تصنیف کا شغل جاری رکھے ہوئے تھے اور اُن کا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوچکا تھا تو اُن سے خط و کتابت کے بعد نومبر 1949ء میں محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کے ہمراہ اُن سے ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا۔
دورانِ گفتگو ڈاکٹر بیل نے اعتراف کیا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کی زبان اعلیٰ درجے کی ہے۔ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم میں علوم کا ذخیرہ موجود ہے۔ گزشتہ تیرہ صدیوں تک وسیع اسلامی دنیا اس پر انحصار کرتی رہی ہے۔ مثلاً اس میں بیان شدہ قانونِ وراثت باقی دنیا کے قوانینِ وراثت سے افضل ہے۔ یعنی اُمّی نبی ﷺ کی زبان پر جو الفاظ خدا نے جاری فرمائے وہ دیگر دنیاوی قوانین سے کمتر نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر بیل نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی اس عظمت کو مَیں تسلیم کرتا ہوں لیکن آپ اس سے جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ہونا مشکل ہے۔ آپ قرآن کریم کو کسی اَور ہستی کی طرف منسوب کرکے محمد ﷺ کی ذہانت کا پورا اعتراف نہیں کرتے۔ محمدﷺ اُس سے بہت زیادہ ذہین تھے جتنا آپ لوگ بیان کرتے ہیں۔
میرے پوچھنے پر انہوں نے تسلیم کیا کہ حدیث نبی کریم ﷺ کے اقوال پر مشتمل ہے۔مَیں نے کہا کہ اگر قرآن کریم بھی آنحضرت ﷺ کا ہی کلام ہوتا تو دونوں کا انداز اور بیان مشابہ ہونا چاہیے تھا۔ کیا ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں میں بڑا فرق ہے لیکن قرآن کی عبارت بھی محمد ﷺ کا ہی ایک مخصوص انداز ہے جو کہیں اَور نہیں پایا جاتا۔ مَیں نے کہا کہ پھر آپ لوگ قرآن کریم کے اس چیلنج کو قبول نہیں کرلیتے کہ بڑے بڑے سکالر اس کی مثل تیار کرلیں۔ وہ کہنے لگے کہ کسی بھی تصنیف شدہ کتاب کی مثل تیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو آپ تمام علمائ کو ساتھ ملاکر ایک کتاب تیار کردیں اور اُس میں یہی چیلنج دنیا کو دے دیں کہ کوئی اس کی مثل تیار نہیں کرسکتا۔ اس پر ڈاکٹر بیل مسکرادیے۔
مَیں نے مزید عرض کیا کہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم کے بے نظیر ہونے کا جو اعجاز اسے بخشا ہے اس زمانے میں اس کے ظلّ کے طور پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خداتعالیٰ کی تائید سے معجزانہ کلام لکھا اور دنیا کو اس کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پروفیسر مارگولیتھ بھی جب قادیان آئے تو حضرت مصلح موعودؓ سے گفتگو کے دوران انہوں نے قرآن کریم کے اس اعجاز کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس پر حضورؓ نے اُن کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب‘‘اعجازالمسیح’’رکھ کر کہا کہ اس تصنیف کا ہی جواب پیش کریں۔ لیکن وہ اس پر کوئی جواب نہ دے سکے تھے۔
ڈاکٹر بیل بھی یہ بات سن کر خاموش ہوگئے اور نظریں جھکائے جذبات پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں