قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 14 اگست 2020ء)

ماہنامہ’’خالد‘‘ربوہ اگست 2012ء میں مکرم طاہر نقاش صاحب کے قلم سے ایک تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں قیامِ پاکستان کے دوران جماعت احمدیہ کے کردار پر مختلف اخبارات و مطبوعات سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
٭… 1933ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ جب کانگریس میں شامل ہندوذہنیت رکھنے والے علماء کے رویے سے مایوس ہوکر انگلستان جابسے تو حضرت مصلح موعودؓ نے معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے لندن مشن کے امام مکرم مولانا عبدالرحیم درد صاحب کے ذریعے قائداعظم کو واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے کی تحریک فرمائی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی اور اس کا اعلان قائداعظم نے مسجد فضل لندن میں خطاب کرتے ہوئے یوں کیا:
’’امام مسجد فضل لندن کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لیے کوئی راہ بچنے کے لیے نہ چھوڑی۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد ششم)
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز صحافی جناب م ش نے لکھا:
’’یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘
(پاکستان ٹائمز 11؍ستمبر 1981ء)
٭… جب حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا تو آپؓ نے انگریزی حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلّل اور زوردار الفاظ میں پیش کیا کہ ہندو اخبار ’’پربھارت‘‘ نے بھی 20؍فروری 1945ء کی اشاعت میں لکھا:
’’ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفراللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جاکر حق کی بات کہہ دی۔‘‘
٭… 1945ء کے آخر میں جب وائسرائے ہند سردیول نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو ہندو کانگریس نے مسلمان علماء کے ذریعے پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف پراپیگنڈہ کا ایک جال پھیلادیا تا مسلم لیگ ان انتخابات میں ناکام ہو اور پاکستان کا قیام عمل میں نہ آسکے۔ ایسے وقت میں حضرت مصلح موعودؓ نے مسلم لیگ کی پالیسی کی حمایت کا اعلان فرمایا۔ حضورؓ کا ایک خط قائداعظم نے خود پریس کو جاری کیا۔مجلس احرار اسلام نے ان حالات کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
’’1945ء میں جب انتخابات کا زمانہ شروع ہوا تو مرزائیوں اور لیگیوں میں خفیہ سازباز شروع ہوئی۔ مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک اہم اعلان کیا … اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود احمد صاحب کی پالیسی کو سراہا اور اس کے بعد سنٹرل اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیے یہاں تک کہ … کسی زمانہ میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن … مولانا ظفر علی خان کے حق میں ووٹ ڈالے گئے۔‘‘
(مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر تبصرہ)
٭… انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کے قیام میں ایک بہت بڑی روک خضر حیات خان کی وزارت تھی اور مسلم لیگ کے ذمہ دار اکابرین سر خضرحیات کو وزارت سے استعفیٰ دینے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس نازک موقعے پر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ذریعے سر خضرحیات کو استعفیٰ دینے پر آمادہ کیا اور اس طرح پنجاب کی پاکستان میں شمولیت ممکن ہوئی۔ اس کا ذکر اخبارات ’’ٹریبیون‘‘ (5؍مارچ 1947ء) اور ’’ملاپ‘‘ (20؍فروری 1951ء) نے بھی کیا۔
٭… 30؍جون 1947ء کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لیے ایک حدبندی کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا گیا۔ اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک محضرنامہ پیش کیا گیا تا پنجاب کی حدود کو مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور تک پھیلایا جاسکے۔
اس محضرنامہ کی تیاری کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے امریکہ اور برطانیہ سے نہایت قیمتی باؤنڈری لٹریچر بذریعہ ہوائی جہاز منگوایا اورغیرملکی ماہرین کی خدمات حاصل کیں جس پر جماعت احمدیہ نے ہزاروں روپیہ خرچ کیا۔
مسلم لیگ کی طرف سے باؤنڈری کمیشن کے سامنے کیس پیش کرنے کی اہم ذمہ داری قائد اعظمؒ نے حضرت ظفراللہ خان صاحبؓ کے سپرد کی۔ آپؓ نے جس مدلّل اور پُرشوکت انداز میں اپنا کیس پیش کیا اس کا ذکر اخبار ’’نوائے وقت لاہور‘‘نے یوں کیا:
’’سرظفراللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلّل نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی … سر ظفراللہ خان کو کیس کی تیاری کے لیے بہت کم وقت ملا مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکرگزار ہوں گے۔‘‘
(بتاریخ یکم اگست 1947ء)
٭… قائداعظم نے حضرت چودھری سرظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپؓ کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا اور 25؍دسمبر 1947ء کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ مقرر فرمایا۔ اخبار’’نوائے وقت‘‘لکھتا ہے:
’’قائداعظم نے خوش ہوکر آپ کو یو این او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا۔ … آپ نے ملک و ملّت کی شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائداعظم انہیں پاکستان کے اس عہدہ پر فائز کرنے کے لیے تیار ہوگئے جو باعتبار منصب وزیراعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے۔‘‘
(مؤرخہ 24؍اگست 1948ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں