قید وبند کی صعوبتیں برموقع حج بیت ﷲ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 18 جنوری 2019ء)

جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ کے شمارہ اکتوبر 2012ء میں الحاج محمد شریف صاحب مرحوم، مولوی فاضل، کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد اُن تکلیف دہ حالات کا ذکر کرتے ہیں جو اُنہیں حج بیت اللہ کے موقع پر حرمین شریفین میں پیش آئے۔
محترم محمد شریف صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی پیدائش 5؍اکتوبر1922ء کو موضع مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ میں مکرم حاجی پیر محمد صاحب کے ہاں ہوئی۔ وہ اجناس کی تجارت کرتے تھے اور گاؤں میں امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ موصی تھے ۔ 1989ء میں 100برس سے زائد عمر پاکر وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودۂ لحد ہیں۔
خاکسار کے تایا حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ یوپی اور حیدر آباد دکن میں بطور مبلغ کام کرتے رہے۔ وہ بھی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں ۔
ہم پانچ بھائی اور دوبہنیں ہیں۔ دیہاتی ماحول کے باوجود سب تعلیم یافتہ ہیں۔ خاکسار نے 1942ء میں مولوی فاضل پاس کرلیا تو خاکسار کی شادی محترم چودھری فضل محمد صاحب آف ہرسیاں کی بیٹی مسماۃ صادقہ بیگم سے قادیان میں ہوگئی۔ خاکسار کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ایک بیٹا وسیم احمد ظفرؔمربی سلسلہ ہے۔
میرے علاوہ میرے والدین کو بھی حج بیت اﷲ کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ جنوری 1974ء میں خاکسار اپنی والدہ صاحبہ کے ہمراہ حج کرنے گیا تو ہم بارہ احمدی احباب نے مکہ معظمہ میں اکٹھا کمرہ کرایہ پر لیا اور مکان کرایہ پر لینے کا انتظام نذیر احمد صاحب (انصاف کمپنی والے) کے سپرد کیا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ تین غیر از جماعت احباب کو بھی شامل کرلیا جو چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ حج کا فریضہ اداکرنے کے بعد باتوں کے دوران اِن کو ہمارے احمدی ہونے کا علم ہوگیا۔
ہمارا مکہ معظمہ میں قیام چارماہ کا تھا۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی نے مکہ معظمہ پہنچ کر تقریر کی کہ جو مرزائیوں کی نشاندہی نہیں کرے گا‘ اس کا حج قبول نہیں ہوگا۔ چنانچہ ہمارے کمرہ میں رہنے والے نے ہماری مخبری کردی۔ ایک دن ہمارے مکان پرتین آدمی آئے۔ انہوں نے مجھے باہر بلا کر کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں مرزائی رہتے ہیں۔ آپ ہمیں تسلی کرادیں۔ ورنہ معاملہ سعودی عرب کی حکومت تک پہنچ چکا ہے۔ آپ کو اور آپ کی مستورات کو بھی عدالت میں جانا پڑے گا۔ اگر آپ مسلمان ہوجائیں تو یہ معاملہ رفع دفع کروادیا جائے گا۔ میں نے

لَآاِلٰہَ اِلَّاﷲ مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اﷲ

پڑھ کر کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ (حضرت) مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا مانتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ یہ بحث مباحثہ کی جگہ نہیں ہے۔ چنانچہ وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہمارا مقصد حل نہیں ہوا۔
جب ہمارے احمدی احباب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو اُن میں سے پانچ آدمی مدینہ منورہ چلے گئے اور چار جدّہ روانہ ہوگئے اور صرف خاکسار اور خاکسار کی والدہ کمرہ میں رہ گئے۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ آپ قانونی طور پر آئے ہیں اور سعودی عرب کی حکومت کہتی ہے کہ ہمارے لئے سارے فرقے برابر ہیں۔ ہم کسی کو روک نہیں سکتے۔ تاہم مَیں نے احتیاطاً والدہ صاحبہ کو کہہ دیا کہ اگر میں قید ہوگیا تو آپ گھبرانہ جائیں۔
16 مارچ کی رات مَیں مسجد حرام میں عشاء کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کررہا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور سوال پوچھنے لگا۔ مَیں نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور تلاوت میں مشغول رہا۔ اتنے میں ایک جوشیلا آدمی آیا اور قرآن مجید چھین کر بولا کہ شریف آدمی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اور آپ توجہ نہیں کرتے۔ اور اس نے کہا کہ میں حرم کا نقیب ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ (حضرت) مرزا غلام احمد قادیانی کو آپ مانتے ہیں یا نہیں؟ جب مَیں نے بحث کرنے سے انکار کیا تو اُس نے مجھے ایک سپاہی کے حوالہ کردیا۔ سپاہی مجھے حرم کی پولیس کے دفتر لے گیا۔ وہاں منظور احمد چنیوٹی اور وہ تینوں غیر از جماعت احباب موجود تھے جو ہمارے مکان پر گئے تھے۔
تھانیدار کو گھر سے بلوایا گیا۔ منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ یہ قادیانی ہے اور اس کے کمرے میں رہنے والوں نے ہمیں یہ بتایا ہے۔ تھانیدار نے میرا بیان لیا تو میں نے کہا کہ میں احمدی ہوں اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو امام مہدی مانتا ہوں۔ آپ اسلام کی تجدید کیلئے تشریف لائے تھے۔ تھانیدار منظور چنیوٹی سے کہنے لگا کہ سعودی حکومت نے تو قادیانیوں کے آنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے پھر یہ لوگ یہاں کیسے آجاتے ہیں؟ اُس نے جواب دیا کہ ان کے نام مسلمانوں والے ہیں اور کام بھی مسلمانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ بظاہر ان میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں۔ تھانیدار نے مجھے ہتھکڑی لگا کر جیل بھجوادیا۔ مجھے والدہ صاحبہ کی طرف سے سخت پریشانی تھی کہ اُن کا کیا حال ہورہا ہوگا ۔ جیل میں دیگر قیدیوں نے مجھ سے میرا جرم پوچھا تو مَیں نے انہیں اپنے عقائد بتائے۔
دوسرے روز میں نے ان کو کہا کہ میری والدہ صاحبہ کو اطلاع دی جائے وہ سخت پریشان ہورہی ہوں گی۔ چنانچہ مجھے ہمارے مکان پر لایا گیا۔ سامان کی تلاشی لی گئی اور ہمارے پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے۔ والدہ صاحبہ کو بھی ہمراہ لے لیا گیا اور حرم کی حوالات میں بند کردیا گیا۔ ہتھکڑی لگا کر بیت الخلاء اور جائے وضو پر لے جاتے۔ پاکستانی یہ دیکھتے تو بعض تو اظہار ہمدردی کرتے اور بعض کہتے کہ تم اسی سلوک کے مستحق ہو۔
مجھے اور والدہ صاحبہ کو عدالت میں قاضی کے سامنے پیش کیا گیا۔ سرکاری ترجمان، منظوراحمد چنیوٹی اورتینوں غیر احمدی بھی ساتھ تھے۔ منظور چنیوٹی نے قاضی کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقۃالوحی پیش کی اور کہا کہ یہ مرزا صاحب پر وحی نازل ہوئی ہے قاضی نے پڑھنا شروع کیا:

یَا اَحْمَد بَارَکَ اﷲ فِیْکَ۔ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنّ اﷲ رَمیٰ۔

اُس نے مجھے کہا کہ کیا تم ایمان رکھتے ہو کہ یہ وحی ہے؟ مَیں نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ یہ وحی ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ وحی کیسے ہوسکتی ہے، اس میں کچھ اپنے الفاظ شامل کئے گئے ہیں اور کچھ قرآنی آیات ہیں۔ مَیں نے کہا کہ یہ اُسی طرح کی وحی ہے جس طرح دوسرے انبیاء پر نازل ہوئی اور قرآنی آیات دوبارہ نازل ہوئی ہیں۔پھر قاضی نے پوچھا کہ وحی کن ذرائع سے نازل ہوتی ہے؟ مَیں نے کہا کہ قرآن مجید میں وحی کے نزول کے تین ذرائع بیان ہوئے ہیں ایک تو براہ راست وحی آتی ہے۔ دوسرے مِنْ وَّرَاءِ حِجَاب اور تیسرے فرشتہ کے ذریعہ۔
پھر امام مہدیؑ کے ظہور کے بارہ میں سوال جواب ہوئے۔ آخر وہ مجھے کہنے لگا کہ آپ ہمارے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہیں۔ آپ توبہ کرکے ہمارے نظریات قبول کرلیں ورنہ ہم آپ کو قتل کی سزا دیں گے۔
مَیں نے کہا کہ ’’مرنا ایک دن ضرور ہے، مَیں قتل ہونے سے نہیں ڈرتا۔ مَیں کسی حالت میں بھی احمدیت سے تائب نہیں ہوسکتا۔‘‘
عدالت سے مجھے اور والدہ صاحبہ کو حرم واپس لایا گیا۔ وہاں ایک شخص نے مباحثہ کرنے کے بارہ میں کہا اور کہا کہ اگر آپ نے مجھے قائل کرلیا تو میں احمدی ہوجاؤں گا اور اگر میں نے آپ کو قائل کرلیا تو آپ کو احمدیت چھوڑنی ہوگی۔ میں نے کہا کہ مجھے منظورہے۔ چنانچہ میں نے اپنے قرآن مجید پر ان آیات کے حوالے نوٹ کرنے شروع کردئے جن سے وفات مسیح پر استدلال کرنا تھا۔ تھانیدار کو جب یہ معلوم ہوا تو اُس نے قرآن مجید مجھ سے لے کر ضبط کرلیا۔
دوسرے دن ہم پھر عدالت میں پیش ہوئے۔ اس روزآٹھ دس کے قریب قاضی تھے۔ میرا بیان پڑھ کر سنایا گیا تو میرے کچھ بولنے پر قاضی القضاۃ کہنے لگا کہ تم مرتد ہو اگر تم نے قادیانی دین سے توبہ نہ کی تو ہم تم کو قتل کی سزادیں گے۔ میں نے کہا قادیانی کوئی دین نہیں ہے ہمارا دین اسلام ہے۔
پھر جتنا عرصہ مَیں جیل میں رہا تو حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کے بارہ میں فرمائے تھے، میرے ذہن میں رہے۔ نیز مَیں نے کہا کہ اے خدا مجھے یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ مَیں اگر دین کی راہ میں مارا جاؤں تو شہید اور اگر زندہ سلامت واپس چلا جاؤں تو غازی۔ اور مَیںنے قاضی کو یہ بھی کہا کہ ہم آنحضرت ﷺ کے بعد ایسی نبوت پر اعتقاد رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی اُمّت میں سے بغیر کسی شریعت جدیدہ کے ہو اور احیائے اسلام کے لئے ہو۔ یہ بات میں نے اپنے بیان میں مزید لکھوائی اور کہا کہ اس قسم کی نبوت کا ثبوت قرآن مجید کی اس آیت سے ملتا ہے:

وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئٓـِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِٓـکَ رَفِیْقًاO

یہ آیت سُن کر قاضی کہنے لگا کہ مِنَ النَّبِیِّیْنَ سے مراد گزشتہ نبی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ کیا صدیق بھی گزشتہ مراد ہیں۔ اور شہداء اور صالحین بھی گزشتہ مراد ہیں؟ اس پر قاضی خاموش ہوگیا۔ پھر منظور احمد چنیوٹی کہنے لگا کہ اس آیت میں مع کا لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔ میں نے اسے کہا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ

وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار

تو کیا نیکوں کے ساتھ تم بھی مرجاتے ہو؟
دراصل مجھے ڈرا دھمکاکر اور احمدیت سے منحرف کرواکے اگلا قدم اُن کا یہ تھا کہ وہ مجھ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کروائیں۔ مَیں نے ان کو کہا کہ آپ مجھے اس شخص کو برا بھلا کہنے پر مجبور کرتے ہیں جنہوں نے حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی شان میں قصیدہ لکھا ہے۔پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ ؎

یَاعَیْنَ فَیْضِ للہِ وَالْعِرْفَانٖ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْاٰنٖ

پڑھ کر سنایا۔ جب مَیں نصف کے قریب پہنچا تو مجھے چُپ کرادیا گیا اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین یقین نہیں کرتا۔ مَیں نے کہا کہ ہم تو آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور میں نے ترجمان کے ذریعہ ان سے دریافت کیا کہ خاتم کا لفظ ’ ت‘ کی زبر سے ہے یا زیر سے۔ یہ سن کر قاضی کہنے لگا کہ یہ قادیانی مبلغ معلوم ہوتا ہے اور یہاں جاسوسی کرنے آیا ہے۔ اس کو تنہائی کی جیل میں رکھا جائے یہ واجب القتل ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ میری ایک درخواست ہے وہ یہ کہ اگر میں قتل کردیا جاؤں تو میری میت میرے وطن پہنچائی جائے۔ وہ کہنے لگا میت جہنم میں دفن کی جائے گی تمہارے وطن نہیں بھجوائی جاسکتی۔ مجھے اُس کی باتوں سے یقین ہوگیا تھا کہ مجھے قتل کردیا جائے گا چنانچہ میں والدہ صاحبہ کو اپنا وصیت نامہ لکھ کر دے گیا۔
میرے ترجمان پر میری باتوں کا اچھا اثر تھا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے استقلال پر رشک آتا ہے، آپ نے دین کی خاطر قید ہو کرحضرت یوسف علیہ السلام کی سنّت تازہ کردی ہے۔
پھر مجھے مکہ معظمہ کی جیل کے کمرہ میں تنہا بند کردیا گیا تو میں نے قرآن طلب کیا جو مجھے مہیا کردیا گیا۔ اﷲتعالیٰ کی ذات کے سوا میرا اور کوئی ساتھی نہ تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرکے اپنی گھبراہٹ دُور کرلیتا تھا۔ نمازیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور احبابِ جماعت کیلئے خوب دعائیں کرتا۔
ایک ماہ کے بعد مجھے جدّہ کی جیل میں پہنچایا گیا۔ وہاں بھی میری وہی مصروفیت رہی۔ لیکن یہاں خوراک نہایت ناقص تھی۔ زیادہ تر مسور کی دال کھانے کو دی جاتی تھی جس کی وجہ سے میرے ناک سے خون جاری ہوگیا۔
25؍اپریل کو مجھے ہتھکڑی لگاکر جیل سے تھانے میں لے جایا گیا۔ کچھ فارموں پر دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کے نشان ثبت کئے گئے۔ پھر لکڑی کی ایک تختی پر میرا نام لکھ کر اُسے دونوں ہاتھوں میں پکڑاکر فوٹو لیا گیا۔
والدہ صاحبہ کو مکہ معظمہ کی عورتوں کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ مجھے اُن کے حالات کا اور اُن کو میرے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ آخر2 مئی کو قریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد جدّہ میں میری اُن سے ملاقات ہوئی اور اُسی دن ہم دونوں کو رہا کرکے مکہ معظمہ بھجوادیا گیا کیونکہ ہمارے پاسپورٹ وہاں تھے۔
آخری جہاز جدّہ سے 13مئی کو پاکستان جارہا تھا۔ تھانیدار نے ہمیں اُس وقت تک جیل میں رکھنے کا حکم دیا۔ 5مئی کو ایک دفتر میں لانے کے لئے ہمیں ایک موٹر میں بٹھایا گیا تو میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ میں پاکستان کا رہنے والا ہوں اور میرا نام محمد دین ہے اور احمدی ہونے کے جرم میں پکڑا ہوا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ہمارا بھی یہی جرم ہے۔ ہم ایک دوسرے سے متعارف ہو کر بہت خوش ہوئے۔
پھر ہماری ٹکٹیں بنوانے ہمیں پاکستانی حج آفس لے جایا گیا۔ آفیسرنے پاسپورٹ دیکھ کر کہا کہ آپ کی واپسی تو 7؍اپریل کو تھی، کہاں رہے ہیں؟ مَیں نے ہتھکڑی دکھائی اور وجہ بتائی تو کہنے لگے کہ سعودی عرب کی حکومت نے ٹھیک کیا۔ آپ مودودی صاحب کی کتاب کو پڑھیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی سعودی عرب میں داخل ہوسکتے ہیں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ آپ ہمیں جو مرضی سمجھیں، ہم تو اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔
13مئی کو مجھے سخت بے چینی تھی کہ آج مجھے رہا کرتے ہیں یا نہیں۔ مَیں نے اسی بے چینی کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔ جب میں عین اس آیت پر پہنچا کہ

اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

تو اُسی وقت جیل کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ مجھے اور والدہ صاحبہ کو بھی جیل سے نکال کر جدہ کی بندرگاہ پر پہنچایا گیا۔ پھر جہاز کی سیڑھی پر ہمیں پاسپورٹ دیا گیا۔ جہاز میں جس پاکستانی کو میں نے بتایا کہ مجھے احمدی ہونے کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا تھا تو وہ حیران ہوکر کہتے کہ سعودی حکومت نے آپ کو کیسے چھوڑ دیا۔ مَیں ان کو کہتا: ؎

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے مِرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو

خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے مقدس گھر کی زیارت کی توفیق عطافرمائی۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ مقدّس سرزمین میں اس خدا کی راہ میں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور جیل میں ڈالا گیا۔ میری لذّت دوگنی ہوگئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں