لبلبے کا خطرناک کینسر اور اس سے بچاؤ – جدید تحقیق کی روشنی میں

لبلبے کا خطرناک کینسر اور اس سے بچاؤ – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

لبلبے کے کینسر کی تشخیص مشکل کام ہے اور بعض اوقات اس کی تشخیص میں خاصی تاخیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لبلبہ انسانی جسم کے خاصا اندر پایا جاتا ہے اور ابھی تک کوئی ایسا طریقۂ علاج دریافت نہیں ہوا ہے جس کی مدد سے لبلبے کے کینسر کا خون کے تجزیے کے ذریعے جلدی پتہ لگایا جاسکے۔ تاہم یونیورسٹی آف ٹیکساس کے اینڈرسن کینسر سینٹر کے پروفیسر لی کا کہنا ہے کہ موٹاپے اور لبلبے کے کینسر کا براہِ راست تعلق ہے۔ انہوں نے لبلبے کے کینسر کے آٹھ سو سے زیادہ مریضوں کی زندگی کا اُن کے وزن کے حوالے سے مطالعہ کیا ۔تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا وزن جوانی میں زیادہ تھا اُن میں لبلبے کا کینسر ہونے کا امکان دوسروں کی نسبت دو گنا تھا۔ جبکہ وہ افراد جو بچپن میں ہی موٹاپے کا شکار تھے ان میں اس بیماری کا تناسب چار گنا تھا۔ اُن کی تحقیق میں یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ موٹاپے اور مردوں کا تعلق لبلبے کے کینسر میں عورتوں کی نسبت زیادہ تھا۔ جبکہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد میں بھی یہ شرح دوسروں کی نسبت زیادہ تھی۔ ڈاکٹر لی کی یہ تحقیق جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی ہے۔ جس کا ماحصل یہی ہے کہ اوائل عمر میں ہی موٹاپے سے محفوظ رہ کر کینسر سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
اسی طرح ایک نئی طبّی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کوئلوں کی تیز آنچ پر بھنا ہوا اور کہیں کہیں سے اَدھ جلا گوشت، کثرت سے کھانے والوں میں، لبلبے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف منی سوٹا کے سکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈاکٹر کرسٹین اینڈرسن نے حال ہی میں جو تحقیقی مطالعہ کیا ہے اُس میں 62ہزار سے زیادہ امریکیوں کو شامل کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن لوگوں نے زیادہ مقدار میں تیز آنچ پر براہ راست پکا ہوا یعنی باربی کیو کی صورت میں تیار شدہ گوشت استعمال کیا تھا، بعض صورتوں میں ان میں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں لبلبے کے کینسر کا خطرہ دو گنے سے زیادہ تھا۔ ڈاکٹر اینڈرسن کے مطابق اَدھ جلے گوشت میں ایک خاص قسم کا کیمیائی مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو اُسی طرح عمل کرکے کینسر کا باعث بنتا ہے جیسے کہ تمباکو کو جلانے سے پیدا ہونے والے کیمیائی مادے کینسر پیدا کرتے ہیں۔ اس لئے اگر گوشت کو تیز آنچ پر زیادہ نہ جلایا جائے تو اس میں نقصان دہ اجزاء کم مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ گوشت کا وہ حصہ کاٹ کر الگ کر دیا جائے جو زیادہ جلا ہوا یا گہرا سرخی مائل ہو۔ نیز کینسر کا باعث بننے والے کیمیائی اجزاء کو کم کرنے کے لئے گوشت کو المونیم فوئل میں لپیٹ کر یا اس پر مکئی کا پانی ملا برادہ لگا کر بھی پکایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ہر سال 37ہزار سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مریض وہ ہوتے ہیں جو عام طور پر تیز آنچ پر پکا ہوا گوشت کھاتے ہیں۔ قبل ازیں کئے جانے والے بعض جائزوں سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کوئلوں پر جلا ہوا گوشت کھانے سے صرف لبلبے کے کینسر کے خطرات ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے چھاتی، پراسٹیٹ اور آنت کے کینسر کے خطرات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس کینسر کے علاج کے حوالہ سے ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق برازیل کے بیوتانتن انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی امریکہ کے ممالک میں پائی جانے والی ایک جُوں کے ذریعے جلد، جگر اور لبلبے کے کینسر کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ اِس جوں کے منہ کے لعاب میں ایک خاص پروٹین موجودگی کا علم ہوا ہے جو صحت مند خلیوں کو متاثر کئے بغیر کینسر زدہ خلیوں کو مکمل طور پر تباہ کرسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جانداروں کے خون میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جسم سے باہر نکلتے ہی جمنے لگتا ہے لیکن جوں کے منہ کے لعاب میں ایک ایسا جزو موجود ہوتا ہے جو خون کو جمنے نہیں دیتا، اور یہ بغیر رُکے جاندار کے جسم سے خون چوستی رہتی ہے۔ اسی خاصیت پر تحقیق کے دوران ماہرین کو اِس جوں کے لعاب میں Factor X active نامی پروٹین کی موجودگی کا پتہ چلا جس کی خصوصیات خون کو جمنے سے روکنے والے ایک عام جزو سے ملتی جلتی ہیں جسے TFPI (Tissue Factor Pathway Inhibitor)کہا جاتا ہے، اور یہ جزو خلیوں کی نشونما پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں