لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے نیشنل سالانہ اجتماع 2007ء کے موقع پرسیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو روحانی پانی اُتارا اور ہمارے دِلوں کو روشن کرنے کے لئے جس شخص کو اپنے نور سے منور کرکے بھیجا ہم اُس کی جماعت میں شامل ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی شکر و احسان ہے کہ ہم سے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو میرے بھیجے ہوؤں کو مان لیتے ہیں ، میں اُن کی تمکنت، عزت اور رعب کے سامان بھی پیدا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں اپنے بھیجے ہوؤں کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں تو پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی مضبوطی، تمکنت اور رعب دنیا میں قائم کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ مومنین کی جماعت سے ہے۔ یہ وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ کی جماعت کے بارہ میں ہے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر شخص کے ساتھ مشروط ہے۔ ہر فرد کے ساتھ اس شرط کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور ہر اس شخص کے ساتھ جو ایمان پر مضبوط ہو اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والا ہو، اس کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ وہ ان انعاموں سے تب ہی فیض پائے گا جب نیک اعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان نیک اعمال کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔
سورۃ الفرقان میں مذکور عبادالرحمن کی علامات کے حوالہ سے اہم نصائح
ہم میں سے ہر ایک بچے، جوان، بوڑھے کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے اور آپ جو احمدی عورتیں اور لڑکیاں ہیں جن کے ذمہ اگلی نسلوں کی تربیت اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا کام ہے۔ آپ کو اپنی نمازوں کی حفاظت، اپنی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی اور اپنے بچوں کی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی ہر لمحہ نظر رکھتے ہوئے توجہ دینی چاہئے۔
عورتوں میں بعض دفعہ دیکھا دیکھی ضرورت سے زیادہ اپنے پر یا اپنے کپڑوں پر یا زیور پر خرچ کرنے کا رجحان ہوجاتا ہے۔ زینت بڑی اچھی چیز ہے۔ صاف ستھرا لباس پہننا اورایک حد تک سنگھار کرنا بڑا اچھا ہے۔ عورت کے لیے جائز ہے اور کرنا بھی چاہئے۔ لیکن فیشن میں اس قدر ڈوب جانا اور اس کے لیے بے انتہاخرچ کرنا اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے
جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ کسی حالت میں بھی غلط بیانی اور جھوٹ کی ایک مومن سے توقع نہیں کی جاسکتی۔
بعض ٹی وی چینلز ہیں ، ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں ان کو نہ دیکھیں۔ آج کل کی بعض ایجادوں کا جو غلط استعمال ہے یہ بھی شیطان کے حملوں میں سے ہی ہے۔ اس لئے ہراحمدی بچی کو اِن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر اِن لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے نیشنل سالانہ اجتماع کے موقع پر04نومبر2007ء بروز اتوار
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا مستورات سے خطاب
بمقام طاہر ہال ،بیت الفتوح مورڈن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور ہمیں آپ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ زمانہ جس میں مادیت کا زور ہے۔ یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہ زمانہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمام قدرتوں کا مالک سمجھنے والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ مذہب اور خدا کا تصور ایک ایسی چیز سمجھی جاتی ہے جو جہالت کی نشانی ہو۔ بظاہر بعض ایسے لوگ بھی جو مذہب کو صحیح سمجھنے والے ہیں عملًا خدا سے زیادہ مادّیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نور سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔ پس ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو روحانی پانی اُتارا اور ہمارے دِلوں کو روشن کرنے کے لئے جس شخص کو اپنے نور سے منور کرکے بھیجا ہم اُس کی جماعت میں شامل ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی شکر و احسان ہے کہ ہم سے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو میرے بھیجے ہوؤں کو مان لیتے ہیں ، میں اُن کی تمکنت، عزت اور رعب کے سامان بھی پیدا کروں گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں اپنے بھیجے ہوؤں کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں تو پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی مضبوطی، تمکنت اور رعب دنیا میں قائم کرتا ہوں۔ جب بھی میرے پیارے کی جماعت میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جس سے بے چینی اور گھبراہٹ کی صورت پیدا ہو، جب بھی کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے جوماننے والے ہیں اُن میں کوئی خوف کی صورت پیدا ہو تو فوراً اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کے ماننے والوں کو اپنے پیار اور محبت کی آغوش میں لے کر جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو اُس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چیخنے چلّانے پر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی اپنے پیارے کی جماعت کو سینے سے لگا لیتا ہوں۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے اُس سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے۔
پس ہمارے پیارے خدا کا ہم پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اِس زمانے میں اپنے اُس پیارے کی جماعت میں شامل فرمایا جس کی ہر تکلیف دُور کرنے کا، ہر خوف دُور کرنے کا، ہر خوف اور تکلیف کی حالت کو امن اور خوشیوں میں بدلنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو ہمارے اعمال کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ یہ نہیں کہ جو چاہے کرتے پھرو، کسی قانون قاعدے کی پابندی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں سینے سے لگائے رکھے گا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ مومنین کی جماعت سے ہے۔ یہ وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ کی جماعت کے بارہ میں ہے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر شخص کے ساتھ مشروط ہے۔ ہر فرد کے ساتھ اس شرط کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور ہر اس شخص کے ساتھ جو ایمان پر مضبوط ہو اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والا ہو، اس کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ وہ ان انعاموں سے تب ہی فیض پائے گا جب نیک اعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان نیک اعمال کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ یہ سات سو احکامات ہیں اور ان کا ماننا ضروری ہے اگر آپ کی جماعت میں شامل ہونا ہے۔
ایک جگہ قرآنِ کریم میں مومن کی یہ نشانی بتائی گئی ہے، رحمان خدا کے بندوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے۔ چند مثالیں مَیں دیتا ہوں۔

یَمْشُوْنَ عَلَیْ الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان:64)

یعنی جو زمین پر فروتنی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ عاجزی دکھائی جائے۔
بعض دفعہ ذرا ذرا سی بات پر بعض لوگوں کے جذبات بھڑک جاتے ہیں مثلاً بعض بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ کسی کے بچے کو دوسرے نے کچھ کہہ دیا تو فوراً غصہ آگیا، ڈیوٹی والوں نے کچھ کہہ دیا تو غصہ آگیا، چلتے چلتے کسی کے کام کئے ہوئے قیمتی دوپٹے پر پاؤں آگیا تو غصہ آگیا۔ اوّل تو ایسے اجتماعوں میں ، جلسوں میں ایسے قیمتی دوپٹے پہن کر نہیں آنے چاہئیں۔ مَیں نے دیکھا ہے شادیوں میں بعض دفعہ شکائتیں آتی ہیں۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ کسی سے کسی بات میں اختلافِ رائے ہوگیا تو غصہ آگیا۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو پھر انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ نیکیوں کو کھاجاتی ہیں اور تکبّر اور غرور پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رحمان کے بندے بن کر رہنا ہے، اگر یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کر اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھانے کا عہد کیا ہے تو یہ بھی یاد رکھو کہ

اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ (الفرقان: 64)

کہ جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام۔ کتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر تم سے کوئی سختی سے بھی بات کرے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر تم سے تُوتکار کرنے کی اگر کوئی کوشش کرے تو تم اس کا جواب سختی سے نہ دو بلکہ سلام کہہ کر علیحدہ ہوجاؤ۔ اپنی زبان گندی کرنے کی بجائے، اپنے دل میں نفرتوں کے بیج بونے کی بجائے، ایسی فتنوں کی جگہ سے سلام کہہ کر اُٹھ جاؤ۔ تمہارے دل تب ہی سب سے حقیقی محبت کا اظہار کرنے والے ہوں گے جب جاہلوں کی طرف سے پہنچنے والی جو تکلیف ہے اسے بھی تم نظر انداز کرنے والی ہوگی۔ جب تمہارے بچوں یا تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اُلٹاکر جواب دینے کی بجائے ایک طرف ہوجاؤ۔ تمہارے دل میں ان کے لئے سختی یا ظلم کے خیالات نہ آئیں اور انسانیت کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پربُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں ‘‘۔ (براہین احمدیہ چہارم حصص، روحانی خزائن جلد نمبر 1، صفحہ 449۔ حاشیہ)
پس یہ ایک احمدی کا فسادوں کو دُور کرنے کا کردار ہے۔ اگر ہر عورت اس کو سمجھ لے تو گھروں کی لڑائیاں بھی ختم ہوجائیں۔ ساس بہوکی لڑائیاں بھی ختم ہوجائیں۔ رنجشیں اور بدمزگیاں بھی ختم ہوجائیں۔ آپس میں عزیزوں کی رنجشیں بھی دُور ہوجائیں۔ عہدیداران کے لئے دلوں میں پلنے والی، بعض لوگوں کے دلوں میں رنجشیں ہوتی ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں۔ عہدیداران کے دلوں میں بعض ممبرات کے لئے رنجشیں ہوتی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اور جب آپس میں صلح صفائی اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کے جذبات پیدا ہوں گے تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا باعث بنے گی۔ اس سے پھر جماعتی مضبوطی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
پھر سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ رحمن خدا کے بندوں اور ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والوں کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہیں ، عبادت کرتے ہیں۔ اب جو رات کو اُٹھ کر دعا کرے گا اور عبادت کرے گا وہ یقینا فرض نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والا ہوگا، ان کی بھی حفاظت کرنے والا ہوگا۔
پس ہم میں سے ہر ایک بچے، جوان، بوڑھے کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے اور آپ جو احمدی عورتیں اور لڑکیاں ہیں جن کے ذمہ اگلی نسلوں کی تربیت اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا کام ہے۔ آپ کو اپنی نمازوں کی حفاظت، اپنی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی اور اپنے بچوں کی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی ہر لمحہ نظر رکھتے ہوئے توجہ دینی چاہئے۔ اس مادی معاشرہ میں اس چیز کے لئے بہت گڑگڑا کر دُعا کرنی چاہئے، بہت گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر شیطان کے حملوں سے بچنا بہت مشکل ہے۔ ہمیشہ یہ دعا کرتی رہیں کہ

رَبَّنَااصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ (الفرقان: 67)

کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے سے جہنم کا عذاب ٹال دے۔
جہنم کا عذاب صرف مرنے کے بعد کا عذاب نہیں ہے۔ اُس سے بچنے کی دعا تو ہر مومن کو مانگنی ہی چاہئے لیکن بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں ، اپنے قریبیوں سے تکلیفیں پہنچتی ہیں ، اپنے بچوں کی طرف سے بعض ایسی باتیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جس سے زندگی جہنم بنی ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی عبادت کرتے ہوئے صرف ہر وقت اپنی دنیاوی ضروریات ہی سامنے نہ رکھیں بلکہ بہت بڑی دعا قناعت، سکونِ قلب اور اللہ تعالیٰ کی رضااور اُس کے ہر قسم کے انعاموں کے بڑھنے کی دعا ہے۔ بعض لوگوں کے پاس دنیا کی مادی نعمتوں میں سے سب کچھ ہوتا ہے مگر زندگی بے چین ہوتی ہے اور تکلیف دِہ ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کا فضل مانگنا چاہئے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور نیک اعمال کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ

اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا (الفرقان: 68)

جب خرچ کرتے ہیں تو اِسراف نہیں کرتے اور

وَلَمْ یَقْتُرُوْا (الفرقان:68)

بخل سے کام نہیں لیتے ہیں۔ یعنی فضول خرچی بھی نہیں کرتے اور کنجوس بھی نہیں ہوتے۔ پس عورتوں میں بعض دفعہ دیکھا دیکھی ضرورت سے زیادہ اپنے پر یا اپنے کپڑوں پر یا زیور پر خرچ کرنے کا رجحان ہوجاتا ہے۔ زینت بڑی اچھی چیز ہے۔ صاف ستھرا لباس پہننا اورایک حد تک سنگھار کرنا بڑا اچھا ہے۔ عورت کے لیے جائز ہے اور کرنا بھی چاہئے۔ لیکن فیشن میں اس قدر ڈوب جانا اور اس کے لیے بے انتہا خرچ کرنا اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور فرمایا نہ پھر ایسے بنو کہ بالکل ہی کنجوس بن جاؤاور پیسے جوڑنے لگ جاؤ۔نہ اپنے پر خرچ کرنے والی ہو، نہ دین پر خرچ کرنے والی ہو۔ چندہ دینے کا وقت آئے تو ایک مشکل پڑی ہو۔ بعض لوگوں کو پیسے جوڑنے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور پیسے جوڑ جوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان کا پیسہ نہ ان کے کسی کام آتا ہے اور نہ دین کے کام آتا ہے۔ اگر اولاد نیک ہے تو پھر کوئی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیسے میں سے اولاد کو ہی توفیق دیدے کہ وہ دین پر خرچ کردے۔ اگر اولاد دنیا دار ہے تو وہ پیسے کو اِس طرح اُڑاتی ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ تمہیں مَیں خلافت کے ذریعے تمکنت اور رعب عطا کروں گا تو یہ بھی فرمایا کہ میرے راستے میں خرچ کرو۔ کنجوس بن کر اپنے پیسے پر بیٹھے نہ رہو یا صرف یہی سوچ نہ ہو کہ اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے۔ یہ مَیں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ ہے کہ خرچ نہیں کرتیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عورتیں اور بچیاں اس اصول کو بڑی اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اس پر عمل بھی کرتی ہیں۔ بڑی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں۔ یوکے (UK)کی لجنہ میں بھی انتہائی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں۔ لیکن مَیں یاد دہانی اس لئے کروا رہا ہوں کہ نیک باتوں کو دہراتے رہنا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور آئندہ نسلوں میں نیکیوں کو جاری کرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔
پھر نیک لوگ جن کا رُعب ہمیشہ قائم رہتا ہے، جو رحمن خدا کے بندے ہوتے ہیں اُس کے انعامات سے فیض پانے والے ہیں اور فیض پاتے رہیں گے، اُن کے لئے یہ بھی حکم ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ پس اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہم نے مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کرکے شرک سے توبہ کرلی ہے اور عبادالرحمن بن گئے ہیں۔ دوسری طرف بعض معاملات میں سچائی سے کام نہ لیں۔ چھوٹی چھوٹی روزمرہ کی باتوں میں غلط بیانیاں کریں۔ بعض باتوں پر، بعض احکامات پر جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہیں ، ان پر عمل نہیں ہورہا ہوتا۔ اور کہہ دیتی ہیں کہ ہم کرتے ہیں۔ مثلاً بعض لڑکیوں کے بارہ میں شکایت آتی ہے اور عورتوں کے بارہ میں بھی کہ بازار میں اپنے سرکو ڈھانک کر نہیں رکھتیں یا لباس ایسا پہنا ہوتا ہے جس سے بے پردگی ہورہی ہوتی ہے۔ لیکن پوچھو تو یہی کہتی ہیں کہ ہم تو پردہ کرتی ہیں ، ہمارے سر تو کبھی ننگے نہیں ہوئے۔ تو یہ جو چیزیں ہیں یہ جھوٹ میں شامل ہوتی ہیں۔ بعض عہدیدار، لجنہ کی جو کام کرنے والی عہدیدار ہیں ، وہ بھی دوسروں کے بارہ میں پوچھنے پر صحیح رپورٹ نہیں دیتیں۔ ایک دوسری قسم کی عہدیدار بھی ہیں جو ایک دوسرے سے رنجشوں کی بناء پر غلط رپورٹ بھی کردیتی ہیں۔ کسی حالت میں بھی غلط بیانی اور جھوٹ کی ایک مومن سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اصلاح کا پہلو غالب رہے۔
اگر کسی کو دیکھیں کہ اس نے غلط انداز میں لباس پہنا ہوا ہے جس سے جماعتی روایات پر حرف آتا ہے تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ پیار سے سمجھائیں۔ نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے نہ کہ دوسروں کو ڈرانے کی۔ لیکن جب حدسے معاملہ بڑھ رہا ہو تو پھر صحیح رپورٹ بھی دینی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جھوٹ بولنا مومن نہ ہونے اور عبادالرحمن نہ ہونے کی نشانی ہے اس لئے ہمیشہ اس سے بچنا چاہئے۔
آگے اللہ تعالیٰ ایک جگہ پھر فرماتا ہے کہ لغویات سے مومن پرہیز کرتا ہے۔ ایک اور نشانی یہ ہے۔ لغویات کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنا وقار رکھتے ہوئے، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم احمدی ہیں ، ہمارا کام نہیں کہ دنیا کی لغویات اور فضولیات میں پڑیں ، اُن سے بچتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ مثلاً آج کل مختلف ٹیلیوژن چینل ہیں جن میں انتہائی لغو اور بیہودہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ بعض اچھے پروگرام بھی آرہے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان میں انتہائی بیہودہ اور لغو اشتہارات شروع ہوجاتے ہیں۔ تو ہر احمدی کو چاہئے، چاہے وہ بچی ہے، لڑکی ہے یا عورت ہے یا مرد ہے، اُس کا یہ کام ہے کہ اگر ایسے پروگرام آرہے ہوں یا کسی بھی قسم کی ایسی تصویر نظر آئے تو فوراً اسے بند کردیں۔ اور جیسے مَیں بات کررہاہوں کہ اشتہار بیچ میں آجاتے ہیں تو اُن کو بھی نہیں دیکھنا چاہئے۔ اور جو بیہودہ پروگرام ہیں اُن کے تو قریب بھی ایک احمدی بچی کو، ایک احمدی لڑکی کو، ایک احمدی عورت کو نہیں جانا چاہئے۔
انٹرنیٹ پر بعض سائٹس(sites) ہیں۔ بڑے گندے پروگرام اُن میں آتے ہیں۔ اِن سب سے بچنا ہی حقیقی مومن کی نشانی ہے اور یہی ایک حقیقی احمدی کی نشانی ہے کہ ان سب لغویات سے، فضولیات سے بچیں۔ کیونکہ اللہ کے اس انعام سے جڑے رہنے کے لئے اور فیض پانے کے لئے یہ ضروری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دعا بھی کیا کرو۔ اور ایسے لوگوں کی یہ نشانی ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)

کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے۔ پس یہ دعا جہاں خود آپ کو تقویٰ پر قائم رکھے گی، آپ کی اولاد کو بھی دنیا کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلائے گی۔ اور جو عورتیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے خاوند دین سے رغبت نہیں رکھتے، نمازوں میں بے قاعدہ ہیں ، ان کے حق میں بھی یہ دعا ہوگی۔ ہمارے دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ متقیوں کاا مام صرف مرد ہے۔ ہر عورت جو اپنے بچے کے لئے دعا کرتی ہے اور آئندہ نسلوں میں اس روح کو پھونکنے کی کوشش کرتی ہے کہ اللہ سے دل لگاؤ، اس کے آگے جھکو، نیکیوں پر قائم ہو وہ متقیوں کا امام بننے کی کوشش کرتی ہے اور بنتی ہے۔ اپنے گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ امام ہے۔
پس مختصراً مَیں نے یہ باتیں کی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بھرا پڑا ہے۔ اُسے پڑھیں اور سمجھیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو یہی چیز ہے جو آپ کی نسلوں کو ہر شر سے بچنے کی ضمانت بنے گی۔ اور یہی چیز ہے جو آپ کو اُس نظام سے جوڑے رکھنے کا باعث بنے گی جس کے ساتھ تمکنت کا وعدہ ہے۔
بعض دفعہ ایک عمر کو پہنچ کر بعض نوجوان بچیاں جو ہیں اُن کو یہ خیال آتا ہے کہ شاید دین ہم پر بعض پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعض ٹی وی چینلز ہیں ، ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں ان کو نہ دیکھیں۔ لیکن غیروں کے زیر اثر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ اُنہیں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ ہم کون سا وہ حرکتیں کر رہی ہیں جو ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ دو چار چھ دفعہ دیکھنے کے بعد یہی حرکتیں پھر شروع بھی ہوجاتی ہیں۔ بعض گھر اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ یہی کہتے رہے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ دین سے بھی گئے، دنیا سے بھی گئے، اپنے بچوں سے بھی گئے۔ تو یہ جو ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے، کچھ آزادی ہونی چاہئے۔ یہ بڑی نقصان دِہ چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لغوسے بچو تو اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی فطرت کو جانتا ہے۔ اُسے پتہ ہے کہ آزادی کے نام پر کیا کچھ ہونا ہے اور ہوتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہی کہا تھا کہ میں ہر راستے سے ان بندوں کے پاس جو آدم کی یہ اولاد ہے انہیں ورغلانے آؤں گا اور سوائے عبادالرحمن کے سب کو مَیں قابو کرلوں گا۔ اُس نے بڑا کھُل کے چیلنج دیا تھا۔
پس آج کل کی بعض ایجادوں کا جو غلط استعمال ہے یہ بھی شیطان کے حملوں میں سے ہی ہے۔ اس لئے ہراحمدی بچی کو اِن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر اِن لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ یہ سوچیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور آپؑ کو سچا سمجھتے ہوئے آپؑ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ہمیں تمام ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، تبھی ہم اُن انعاموں سے فیض اٹھا سکیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو وہ مقام عطا فرمائے جہاں کھڑی ہوکر آپ دین کی مضبوطی اور اشاعت میں اہم کردار ادا کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمانوں کو وہ مضبوطی اور استقامت عطا فرمائے جو ہمیشہ تمکنتِ دین کا باعث بننے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو خلافت سے مضبوط تعلق نبھانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔
اب دعا سے پہلے مَیں یہ بھی اعلان کردوں کہ کل جو انتخاب ہوا تھا، اس میں سب سے زیادہ جن کے حق میں رائے تھی وہ آپ کی موجودہ صدر شمائلہ ناگی صاحبہ تھیں۔ تو وہی آئندہ دو سال کے لئے بھی صدر ہوں گی۔ لیکن یاد رکھیں کہ صدر اکیلی کچھ نہیں کر سکتی جب تک نچلی سے نچلی سطح پر جو چھوٹی سے چھوٹی مجلس ہے اس میں بھی صحیح طرح کام نہ ہورہا ہو۔ اس لئے ہر مقامی مجلس کی صدر اور اس کی عاملہ کی ممبرات کو اپنے آپ کو جماعتی کام کے سلسلہ میں اتنا ہی اہم سمجھنا چاہئے، اتنا ہی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے جتنا کہ نیشنل صدر کو ہونا چاہئے اور نیشنل صدر کی عاملہ کو ہونا چاہئے۔ اگر یہ احساس ہر مجلس میں پیدا ہوجائے تو آج ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تبھی آپ اپنی نسلوں کی بھی صحیح تربیت کر سکتی ہیں ، اپنی بھی صحیح تربیت کرسکتی ہیں۔ بچیاں بھی اپنے آپ کو سنبھال کر احمدیت کے لئے پوری وفا اور اخلاص کے ساتھ ہر قربانی کے لئے تیار کرسکتی ہیں اور پیش کرسکتی ہیں۔ آپ کے بچے بھی اسی وقت اخلاص و وفا کے ساتھ ہر قربانی پیش کرنے والے ہوں گے جب ہر سطح پر آپ لوگوں میں احساس پیدا ہوجائے گا۔ آپ جو یہاں میرے سامنے ناصرات سمیت اڑھائی ہزار بیٹھی ہیں ، یہ لجنہ یوکے کی ٹوٹل تعداد تو نہیں۔ لندن کے قریبی علاقے سے زیادہ لجنات ہیں ، باقی کافی مجالس کی قریباً نمائندگی ہے۔ اس کا مطلب ہے آپ میں سے اکثریت اُن کی ہے جن کو دین سے لگاؤ ہے۔ جن کو اس بات کی ہر وقت تڑپ رہتی ہے کہ ہم جمع ہوں اور دین کی باتیں سنیں۔ اجتماعات پر جائیں۔ جلسوں پر جائیں۔ آپ سب لوگوں کا کردار بہت اہم ہے۔ آپ جو یہاں بیٹھی ہیں یہ سب اپنی اپنی مجالس کے عہدیداران سے بھی اور مرکزی عہدیداران سے بھی اپنے تعاون میں مثالی بن جائیں تبھی ہر مجلس مثالی بنتی چلی جائے گی اور آپ کا کام آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ اور استحکامِ دین کی جو کوشش، جو کام ہمارے سپرد ہوا ہے وہ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور پہلے سے بڑھ کر آپ قربانی کے ساتھ کام کرنے والی ہوں ، اپنی تربیت کی طرف توجہ دینے والی ہوں ، اللہ تعالیٰ سے لَولگانے والی ہوں ،اپنی نسلوں کو سنبھالنے والی ہوں۔
اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں