لوئی پاسچر (Louis Pasteur)

پرانے زمانہ میں اگر کسی کو پاگل کتا کاٹ لیتا تو مریض کا علاج لوہار کیا کرتا تھا۔ یہ علاج ایک سیخ کے ذریعہ کیا جاتا جسے دہکتے انگاروں پر سرخ کرکے پھر اس سے مریض کے زخم کو داغ دیا جاتا۔ اس علاج سے عام طور پر نہ مرض رہتا اور نہ مریض۔ لوئی پاسچر نے بھی کئی بار گاؤں کے لوہار کو یہ عملِ جراحی کرتے ہوئے دیکھا۔ پاسچر 1822ء میں فرانس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ نپولین کی فوج میں سارجنٹ تھا مگر نپولین کی معزولی کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگیا اور چمڑا بنانے کا کام کرنے لگا۔ اُس کی خواہش تھی کہ اُس کا بیٹا پاسچر پڑھ لکھ کر سکول ماسٹر بنے جبکہ پاسچر کو صرف تصویریں بنانے کا ہی شوق تھا۔
پاسچر نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرلی تو باپ نے اُسے پیرس بھیج دیا تاکہ وہ سکول ماسٹری کی تعلیم لے۔ لیکن وہاں اُس کا دل نہ لگا اور وہ بیمار ہوگیا۔ واپس گھر آکر صحتیاب ہوا تو ایک دوسرے شہر میں بھجوادیا گیا جہاں اُس نے سائنس میں بی اے کیا۔ اُس کے سرٹیفکیٹ پر خاص طور پر تحریر تھا کہ یہ کیمسٹری میں کمزور ہے۔
پھر پاسچر نے پیرس کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہ زیادہ تر وقت کیمسٹری کے تجربات کرنے میں صرف کرتا۔ وہاں کے ایک پروفیسر روشنی اور تیزاب پر کوئی تجربہ کر رہے تھے لیکن کامیابی نہیں ہورہی تھی۔ پاسچر نے اس تجربہ میں کامیابی حاصل کرلی تو پروفیسر نے خوش ہوکر اُس کو اسٹراس برگ کی یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کا صدر بنوادیا۔ کچھ عرصہ بعد پاسچر نے اس یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کی بیٹی سے شادی کرلی۔
ایک روز پروفیسر پاسچر کو شراب کے ایک کارخانہ میں مدعو کیا گیا جہاں بعض حوضوں میں بننے والی شراب بدمزہ تھی اور بعض کی خوش ذائقہ تھی۔ پاسچر نے دونوں اقسام کی شراب پر اپنے تجربات کے نتیجہ میں خوردبین کی مدد سے جراثیم کا اصول دریافت کیا اور یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔
لوئی پاسچر نے پاگل کتے کے کاٹے کا علاج بھی دریافت کیا۔ اس تحقیق کے دوران اُس کی زندگی بھی ہر وقت خطرہ میں رہتی۔ ایک بار تو کتوں کا زہریلا لعاب شیشے کی نالی کے ذریعے کھینچتے ہوئے اُس کے منہ میں چلا گیا۔ لیکن پاسچر نے آخر اپنا ٹیکہ تیار کرلیا۔ یہ ٹیکہ ایک پاگل کتے کو لگایا گیا تو وہ اچھا ہوگیا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ کیا آدمی کو بھی یہ ٹیکہ لگایا جاسکتا ہے اور اس میں دوا کی مقدار کتنی ہو؟ ایک روز ایک نو سال کا بچہ اُس کے پاس لایا گیا جسے چند روز پہلے پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا اور اب اس کی حالت بہت نازک ہوگئی تھی۔ پاسچر 9 دن تک اُس کو ٹیکے لگاتا رہا۔ تین ہفتے کے بعد بچے کی حالت سنبھلنے لگی اور تین مہینے بعد وہ بالکل اچھا ہوگیا۔ اس تجربہ نے پاسچر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اُسے اخباروں نے ’’انسان کا نجات دہندہ‘‘ بھی لکھا۔
لوئی پاسچر نے بہت سادہ زندگی بسر کی۔ وہ بہت نیک دل انسان تھا ۔ 28 ستمبر 1895ء کو اُس نے 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں