متّقیانہ افعال کے چند نمونے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر 2009ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا ایک مضمون ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ ایک بار کشمیر تشریف لے گئے۔ ریچھ کے شکار کا لائسنس لیا ہوا تھا۔ جب شکار کے لئے ایک پہاڑی جنگ میں داخل ہوئے تو ایک مشک والا ہرن ہانکے سے نکلا اور سامنے کھڑا ہوگیا۔ رائفل حضورؓ کے کندھے کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ ہمراہی بیقرار تھے کہ ایسا عجیب نایاب شکار سامنے کھڑا ہے۔ پھر وہ ہرن بھاگ گیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اس کا خاص لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے اس پہ فائر کرنا جائز نہ تھا۔ گھر واپس آکر بعض کہنے لگے کہ اگر ایسی احتیاطیں کرنے لگیں تو بس شکار ہوچکا۔ اُن بیچاروں کو معلوم نہ تھا کہ اگر ایسی احتیاطیں نہ کی جائیں تو بس تقویٰ ہوچکا۔
٭ میرے ایک بزرگ کے پاس رفتہ رفتہ نوّے کے قریب کھوٹے روپے جمع ہوگئے۔ جن میں سے کچھ تو بالکل ناکارہ تھے اور کچھ ایسے تھے جن کا ایک حصہ چاندی کی وجہ سے قابل فروخت تھا۔ انہوں نے ناکارہ تالاب میں پھنکوادیئے اور دوسرے سنار کے پاس فروخت کے لئے ایک شخص کو یہ کہہ کر بھجوادیئے کہ اُنہیں سنار سے اپنے سامنے کٹوادے۔ سنار نے جب خریدے تو اُس شخص نے اُن سکّوں کو کاٹنے کا مطالبہ کیا لیکن سنار نے کہا کہ یہ مَیں نے خریدے ہیں اب انہیں جس طرح چاہوں استعمال کروں۔ آخر بحث کے بعد سنار نے کہا کہ اگر اتنے پیسے مزید کم کردو تو پھر کاٹوں گا۔ وہ شخص مان گیا اور سنار کو اُتنی رقم واپس کرکے اپنے سامنے سکّے کٹوادیئے۔ دراصل ناکارہ سکّے چلانے والے اور دھوکہ دینے والے خدا کو اندھا سمجھتے ہیں (نعوذباللہ)۔ جو خدا کو اندھا سمجھے وہ اُس سے روحانی فیض کیونکر حاصل کرسکتا ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں