محبت، شفقت اور عقیدت کی دلپذیر داستان (پہلا حصہ)

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری2023ء)

خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب

مکرم خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب (المعروف فِلّی بھائی) نے اپنے لڑکپن کے زمانے سے ہی خلفائے عظام کی ذاتی خدمت نہایت محبت، جانفشانی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ شروع کردی تھی۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ (جو رشتے میں آپ کے پھوپھا بھی تھے) کی خدمت سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بھرپور عقیدت اور بے لَوث محبت کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ دراصل آپ کی ساری زندگی ہی خلافت احمدیہ کے قرب میں اور خلفائے کرام کی دعاؤں کے سائے تلے بسر ہوئی ہے اور اس حوالے سے آپ نے بے شمار نشانات بھی مشاہدہ کیے اور کئی معجزات کے عینی گواہ ٹھہرے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کو خلفائے کرام کی خدمت میں خطابات اور خطبات کے دوران قہوہ پیش کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہے جس کا مشاہدہ ایم ٹی اے پر ناظرین بھی کرتے ہیں۔
آنمحترم کے بیان کردہ ایمان افروز مشاہدات سے تاریخ احمدیت اور خلفائے کرام کے پاکیزہ اخلاق اور تعلق باللہ کے بے شمار خوبصورت گوشے بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ ذیل میں اس منفرد خودنوشت سے انتخاب اس دعا کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت والی لمبی زندگی سے نوازے اور تادمِ واپسیں مقبول خدمت کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین (مدیر)
(مرتبہ: محمد اسلم خالد + محمود احمد ملک)

محمد اسلم خالد صاحب
(محمود احمد ملک)

===============

مکرم خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار حضرت خلیفہ سیّد صلاح الدین احمد صاحب کا بیٹا اور حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ سیّد رشیدالدین احمدصاحب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔ میرے دادا کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ میرے بارہ حواریوں میں سے ایک ہیں۔


میرے دادا جان کی دو بیویاں تھیں۔ بڑی دادی جان کا نام عمدہ بیگم صاحبہ تھا۔ اُن کی شادی داداجان کے احمدی ہونے سے پہلے ہوئی تھی اور وہ احمدی نہیں ہوئی تھیں۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دادا جان کو ارشاد فرمایا کہ وہ دوسری شادی کرلیں۔ حضور علیہ السلام نے حضرت مرادخاتون صاحبہؓ کا رشتہ بھی تجویز فرمایا تھا جو حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ کی ہمشیرہ تھیں اور صحابیہ بھی تھیں۔ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ بھی حضورعلیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے اور سکھوں میں سے احمدی ہوئے تھے۔ مذکورہ حالات میں بڑی دادی جان نے دادا جان کو دوسری شادی کی اجازت دے دی تھی۔ ہماری بڑی دادی جان کی اولاد میں تین بیٹے حضرت خلیفہ علیم الدین صاحبؓ اور حضرت ڈاکٹر کرنل تقی الدین صاحبؓ احمدی تھے جبکہ ایک بیٹے خلیفہ شجاع الدین صاحب احمدی نہیں ہوئے تھے۔ وہ لاہور میں مقیم تھے اور بڑی دادی جان اُن کے پاس ہی رہتی تھیں۔ بڑی دادی جان کی دو بیٹیوں میں سے ایک حضرت سیّدہ اُمّ ناصر تھیں جن کا اصل نام رشیدہ بیگم صاحبہؓ تھا۔ اُن کی حضرت مصلح موعودؓ سے شادی کے بعد اُن کا نام اُمّ المومنین حضرت امّاں جانؓ نے بدل کر محمودہ بیگم رکھ دیا تھا ۔ بڑی دادی جان کی دوسری بیٹی حمیدہ بیگم صاحبہ تھیں اور وہ بھی احمدی نہیں ہوئیں۔
پاکستان کے قیام کے چند ماہ بعد جب حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے اور رتن باغ لاہور میں مقیم تھے تو ابّاجان کی تبلیغ کے نتیجے میں بڑی دادی جان نے حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ پہلے اُنہیں اس بات پر ہچکچاہٹ تھی کہ وہ اپنے داماد کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرسکتی ہیں۔ تاہم پھر سمجھانے پر انہوں نے بیعت کی توفیق پالی۔ حضرت سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہ (اُمّ ناصرؓ) میری پھوپھی تھیں۔
میرے والد محترم خلیفہ سیّد صلاح الدین احمد صاحب کی پیدائش گول کمرہ (دارالمسیح قادیان) میں 8؍مئی 1908ء کو ہوئی تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچے کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپؑ نے ازراہ شفقت تشریف لاکر بچے کو دیکھا اور نام بھی تجویز فرمایا۔ محترم والد صاحب کی پیدائش کے قریباً اڑہائی ہفتے بعد ہی حضور علیہ السلام کی وفات ہوگئی۔
میری پیدائش 3؍فروری 1938ء کو دارالمسیح قادیان میں ہوئی جہاں ہم اپنے پھوپھا مکرم مرزا گل محمد صاحب کے ہاں رہتے تھے۔

مرزا گُل محمد صاحب

جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو نومولود کی آمد کا بتایا گیا تو حضورؓ ازراہ شفقت خود تشریف لائے، میرے کان میں اذان دی اور منہ میں گڑتی بھی ڈالی۔ میری پیدائش سے دو سال قبل میرے بڑے بھائی کے پیدا ہونے پر حضورؓ نے میرے والد صاحب کو یہ خوش خبری دی تھی کہ تمہارے ہاں سات بیٹے پیدا ہو ں گے۔ حضورؓ نے سب بیٹوں کے نام بھی تجویز فرما دیے۔ اس طرح میرا نام میری پیدائش سے دو سال قبل ہی حضرت مصلح موعودؓ نے ’’فلاح الدین‘‘ تجویز فرماد یا ہوا تھا۔
جب میرے والدین کے ہاں چار بیٹے ہوگئے تو ایک روز والدہ محترمہ حضورؓ کے ہاں تشریف لے گئیں۔ آپ حضرت اُمّ المومنین کے پاس بیٹھی تھیں کہ وہاں اَور بھی چند خواتین ملنے کو آ گئیں جن کے ساتھ ایک چھوٹی بچی بھی تھی۔ میری والدہ اس بچی کو پیار کرنے لگیں اور گود میں لے کر اس کے ساتھ کھیلنے لگ گئیں۔ اس دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ بھی وہاں تشریف لے آئے تو حضرت اُمّ المومنین نے حضورؓ سے مخاطب ہو کر میری والدہ کے بارے میں فرمایا: میاں محمود! چار بھائیوں میں بہن بھی ہو تو اچھی لگتی ہے۔ اس پر حضور مسکرائے اور چل دیے۔ تصرّف الٰہی کہ پھر ہماری ایک بہن ہوئی اور اس کے بعد تین بھائی مزید پید ا ہوئے۔ بھائی بچپن ہی میں اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن خلیفۂ وقت کے منہ سے نکلی ہوئی بات کہ سات بیٹے ہوں گے پوری ہوئی۔
1942ء تک ہم دار المسیح میں مقیم رہے۔ بعدازاں والد صاحب نے جب اپنا مکان دار الانوار میں بنا لیا تو ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ جب تک ہم دارالمسیح میں رہائش پذیر رہے، حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ اور حضرت اُمّ المومنینؓ کو ملنے اپنی والدہ کے ساتھ روزانہ جایا کرتے تھے لیکن جب دارالانوار چلے آئے تو پھر ہفتے میں دو بار (ہر جمعے کو اور ہفتے کے کسی دوسرے روز) جانے لگے۔
1943ء میں خاکسار اپنے بھائی صباح الدین احمد صاحب کے ساتھ تعلیم الاسلام پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا۔ 1944ء میں والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں دہلی تشریف لے گئے اور وہاں بچوں کے لیے کھلونے تیار کرنے کی ایک فیکٹری بنائی اور ساتھ ہی انڈین آرمی کو مسالہ جات بھی پیک کر کے سپلائی کرنے لگے۔ ساری فیملی بھی دہلی منتقل ہوگئی لیکن اس دوران ہم دونوں بھائی اپنی دادی جان کے پاس قادیان میں ہی مقیم رہے۔ ہماری دادی جان (حضرت مراد خاتون صاحبہؓ) کی شخصیت بڑی پُروقار تھی۔ وہ قادیان میں اماں جی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ لجنہ کی فعال ممبر تھیں۔ شٹل کاک برقع کی جگہ نئی طرز کا برقع انہی کی ایجاد ہے۔ جلسہ سالانہ کے ایام میں ہمارے گھر میں بڑے بڑے خیمے نصب ہوتے تھے جن میں دیہات سے آنے والی مہمان خواتین قیام کرتی تھیں۔ ہم دونوں بھائی اُن کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔
1947ء میں قادیان سے جب ہجرت ہوئی تو مَیں چوتھی جماعت میں اور بھائی چھٹی میں زیرتعلیم تھے۔ ہمارے والدین دہلی میں تھے تو تقسیمِ ہند کی خبر سن کر وہ قادیان تشریف لے آئے۔ خاکسار کے ماموں مکرم سردار عبدالمنان صاحب اور مکرم سردار عبدالسلام صاحب ملٹری میں تھے۔ چنانچہ وہ دو ملٹری ٹرک اور ساتھ کچھ فوجی قادیان لے کر آئے تا ہمیں پاکستان پہنچا دیا جائے۔ ہم سب بچے اور نیز پانچ دوسری فیملیز ان ٹرکوں میں بیٹھ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ رات ہم نے بٹالہ میں گزاری اور اگلی صبح جب پاکستان کی سرزمین کی جانب سفر شروع کیا تو راستے میں بے شمار نعشیں پڑی ہوئی دیکھیں جو بُری طرح مسخ کی گئی تھیں۔ خواتین کی کلائیوں سے زیور ان کے بازو کاٹ کر اتارے ہوئے تھے۔ بڑا خوف ناک منظر تھا۔ واہگہ بارڈر پر ہندوستانی فوج نے ہم سے سارا زیور اور ہر طرح کی مشینری (سائیکل اور سلائی مشینیں بھی) لے لیں اور کہا کہ یہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لاہور آکر ہم اپنی امی کے خالو حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ کے ہاں مسلم ٹاؤن میں ٹھہرے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو بچپن میں حساب پڑھانے کی وجہ سے ہمارے خالو ’ماسٹر‘ کہلاتے تھے۔ آپؓ دفتر وکالت مال تحریک جدید میں تاوقت وفات خدمات دینیہ بجا لاتے رہے۔
میرے والد محترم خلیفہ صلاح الدین صاحب اپنے کاروبار کے سلسلے میں دہلی تشریف لے جانے سے قبل ضیاء الاسلام پریس قادیان میں مینیجر تھے۔ تفسیر کبیر کی اشاعت کا کام آپ کی نگرانی میں ہی ہوا تھا۔ آپ نے کچھ عرصہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی ائرگن تیار کرنے والی فیکٹری میں بھی کام کیا تھا۔ تقسیم ہند کے اعلان کے بعد جب آپ دہلی سے قادیان آگئے تو حضور ؓ نے آپ کی ڈیوٹی ’’حفاظتِ مرکز‘‘ میں لگا دی۔ آپ کے گروپ انچارج حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ تھے۔ جب ’احمدیہ کور‘ بنائی گئی تو حضرت میاں صاحبؓ اس میں کیپٹن اور والد صاحب لانس نائیک مقرر ہوئے جبکہ مکرم مرزا گل محمد صاحب رئیس اعظم پنجاب کو کرنل مقرر کیا گیا۔ بعدازاں جب حضرت میاں صاحب اور ابا جان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے تو حضورؓ کی ہدایت پر دونوں بھیس بدل کر ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ قادیان سے ہجرت سے قبل ہم دونوں بھائی بھی قادیان میں مختلف جگہوں پر حفاظتی ڈیوٹیوں پر متعین خدام کو اسلحہ اور کھانا وغیرہ سائیکلوں پرپہنچا یا کرتے تھے۔


پارٹیشن کے ابتدائی دنوں میں جبکہ ہم لاہور میں مقیم تھے اور محترم والد صاحب قادیان میں ڈیوٹی پر تھے تو ایک روز حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے ہمیں اپنے ہاں بلایا اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے فرمایا کہ انہیں کھانا وغیرہ کھلائیں۔ یہ میرا حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے پہلا تعارف تھا۔ تین چار روز بعد حضورؓ نے ہمیں پھر بلوایا اور بتا یا کہ مَیں نے چند روز قبل جو آپ لوگوں کو بلوا یا تھا اُس وقت مجھے خبر ملی تھی کہ تمہارے ابا ایک گاؤں میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے گئے تھے اور خبر تھی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں لیکن کسی نے نعش دیکھنے کی تصدیق نہیں کی تھی۔ لیکن اب خبر آئی ہے کہ وہ وہاں کسی چھت پر چھپ گئے تھے اور اگلے روز بخیریت قادیان پہنچ گئے ہیں۔
جب تک اباجان پاکستان نہ پہنچے ہم کسی سکول میں داخل نہ ہوسکے اور اس طرح پڑھائی کا ڈیڑھ سال ضائع ہو گیا۔ 1949ء میں اباجان نے پاکستان آکر ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک کوٹھی اپنے نام الاٹ کروائی اور پھر ہم سب وہاں شفٹ ہو گئے۔ ہم دونوں بھائیوں کو قریبی سکولوں میں داخلہ بھی مل گیا۔ پھر جب ربوہ آباد ہونے لگا تو والد صاحب نے دارالیمن میں اپنا مکان بنا نے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں بنیادی اینٹ حضورؓ کی خدمت میں دعا کی غرض سے پیش کی جس پر حضورؓ نے بڑی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ہے تو دارالصدر سے دُور مگر وہاں بھی آبادی ہو نی چاہیے۔


اُس وقت تک دارالیمن ربوہ میں زمین سے پانی نہیں نکلا تھا۔ مکان کی تعمیر کے دوران تین مختلف جگہوں پر پانی کی غرض سے بور بھی کروایا گیامگر پانی نہ نکلا۔ گھر کی تعمیر کے لیے حسب ضرورت پانی دریا سے لے کر آتے رہے۔ مکان ابھی زیرتعمیر ہی تھا اور چھتیں پڑ چکی تھیں جبکہ دروازے لگنے ابھی باقی تھے کہ ہم ربوہ شفٹ ہو گئے۔ اُن دنوں میں ہی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی دعاؤں کی برکت سے ہمارے مکان کے صحن کے مغربی کونے میں بور کرنے سے معجزانہ طور پر پانی نکل آیا چنانچہ وہاں پر نلکا لگا دیا گیا۔ پھر سارا محلہ وہیں سے پانی لے کرجاتا تھا۔ یہ پانی اگرچہ کھارا تھا مگر اُن دنوں تعمیر ہونے والے اکثر مکانات اسی پانی سے تعمیر ہوئے۔ بعد ازاں دوسرے صحن میں بھی نلکا لگ گیا۔ ہمارے پینے کے لیے پانی ماشکی لے کر آتا تھا۔
والد صاحب کام کے سلسلے میں اکثر لاہور میں ہوتے تھے اور ہمارا گھر چونکہ ایک ویرانے میں تھا اس لیے والد صاحب نے ایک سابق فوجی دریاب گُل خان کو بغرض حفاظت ملازم رکھ لیا تھا۔ کسی حادثے میں اس کے پاؤں پر گولی لگی تھی۔ ہم دونوں بھائی تعلیم الاسلام سکول میں داخل ہوگئے جو اُس وقت چنیوٹ میں جاری ہوچکا تھا۔ یہ غالباً 1952-1953ء کی بات ہوگی۔ تب ہم سائیکلوں پر ربوہ سے چنیوٹ جایا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھیوں میں صاحبزادہ مرزاادریس احمد صاحب، سید امین احمد صاحب، نوابزادہ پاشا صاحب اور صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بھی شامل تھے۔ یہ اکٹھے ہوکر دار الصدر سے دار الیمن آ جاتے اور پھر ہم سب مل کر چنیوٹ جایا کرتے تھے۔ واپسی پر بھی یہ سب ہمارے ہاں کچھ آرام کرنے کے بعد اپنے گھروں کو جاتے، کبھی کھانا وغیرہ بھی کھالیتے۔
جب تک سکول چنیوٹ میں رہا تو ہمیں حضورؓ کے پاس جانے کا وقت کم ملتا رہا۔ جب سکول ربوہ میں آگیا تو پھر ہر روز ہی ہم اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت پھوپھی جان (اُمّ ناصرؓ) اور حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضورؓ ان دنوں کچے قصرخلافت میں رہائش پذیر تھے۔ حضرت اُمّ المومنینؓ کی خدمت میں بھی سلام عرض کرنے کی سعادت ہمیں مل جاتی۔ ان دنوں ربوہ میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ سبھی لالٹینوں کا استعمال کرتے تھے۔ حضورؓ کو بھی بعض اوقات اپنی لالٹین صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک دو بار مجھے بھی اُسے صاف کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
جب حضورؓ پکے قصر خلافت میں تشریف لے آئے تو اُس وقت ربوہ میں درخت نہیں ہوتے تھے۔ پاؤں کلّر میں دھنس جایا کرتے تھے۔ ایک بار مَیں اپنی والدہ کے ہمراہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت اُمّ ناصرؓ کے صحن کے اوپر برآمدے میں حضورؓ پاؤں کے بل بیٹھے تھے اور سامنے رکھے ہوئے تین گملوں میں لگائی جانے والی قلموں کو دیکھ رہے تھے کہ ابھی پھوٹی ہیں یا نہیں۔ خاکسار نے سلام عرض کیا تو حضورؓ نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پوچھا کہ بتاؤ مَیں نے کیا بیجا ہے ؟ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے علم نہیں ہے۔ حضورؓ نے پیار سے فرمایا: مَیں نے فِلّی کا پودا بیجا ہے اس میں بہت ساری فِلّیاں لگیں گی۔ ایک مَیں تمہاری امی کو دے دوں گا اور باقی مَیں رکھ لوں گا۔
مَیں اپنے والد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے خطوط لے کر بھی حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو حضورؓ کو دبانے کی سعادت بھی مل جایا کرتی تھی۔ ابا جان اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ نے جو کہانیاں اور لطائف مجھے سنائے ہوتے تھے مَیں حضور کو دباتے ہوئے وہ بھی سنا دیا کرتا تھا۔ اس دوران حضورؓ کی پانچ چھ منٹ کے لیے آنکھ بھی لگ جاتی تھی۔ پھر فرماتے کہ اب تم جا سکتے ہو۔


جب کبھی مجھے چھٹیوں میں ربوہ سے باہر جانا ہوتا تو حضورؓکی خدمت میں حاضر ہوتا اور اجازت کے لیے عرض کرتا۔ حضورؓ تفصیل سے پوچھتے کہ کتنے دن ٹھہرنا ہے؟ اس کے بعد شفقت فرماتے ہوئے کچھ زاد راہ عنایت کر کے اجازت مرحمت فرماتے۔ اکثر و بیشتر دس روپے عنایت فرماتے جو اس زمانے میں کثیر رقم ہوا کرتی تھی۔ ایک بار حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا لاہور جانے کا ارادہ ہے۔ حضورؓ نے استفسار فرمایا:’’کہاں؟ لندن جا رہے ہو!‘‘ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! لاہور جا نے کا ارادہ ہے۔ اس پر فرمایا:’’اچھا لندن بھی جاؤ گے۔‘‘ اُس وقت خاکسار آٹھویں کلاس میں زیرتعلیم تھا اور لندن جانے کا تو کبھی خیال بھی نہیں آیا ہوگا۔
1954ء میں حضورؓ نے علاج کے لیے لندن آنا تھا تو خاکسار بھی اپنی والدہ کے ساتھ حاضر ہوا۔ حضورؓ نے مجھ سے پوچھا: تمہارے لیے کیا لے کر آؤں؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! آپ صحت مند ہو کر تشریف لائیں میرے لیے یہی تحفہ ہے۔ حضورؓ نے تین بار مجھ سے دریافت فرمایا اور میں نے تین بار یہی جواب عرض کیا۔ حضورؓ مسکرائے اور فرمایا: اچھا مَیں تمہارے لیے میم لے کر آؤں گا۔ مَیں نے کہا جیسے حضور کی مرضی۔ جب حضورؓ واپس تشریف لائے تو خاکسار اور والدہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے مجھے رومر گھڑی اور کوٹ کا کپڑا نیزوالدہ کو موتیوں کا ہار اور سوٹ کا کپڑا عنایت فرمایا۔ میں نے گستاخی کرتے ہوئے پوچھا: حضور! میری میم؟ اس پر میری والدہ نے میرے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا اور کہا: ایسے بات کرتے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے پیار کرتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ لگا لیااور فرمایا: وہ بھی تمہیں مل جائے گی۔
جب کبھی میں نے شکار پر جانا ہوتا تو حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کارتوس اور ٹوٹو کی گولیوں کی درخواست کرتا۔ حضور بہت محتاط تھے۔ آپؓ کے علم میں تھا کہ یہ بچہ ہے اور اس کے پاس لائسنس بھی نہیں ہے اس لیے فرمایا کرتے کہ اپنے ابا کو بھیج دو۔ جب میں آ کر ابا کو کہتا کہ حضور یاد فرماتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے کہ ضرور تم نے حضور سے کچھ مانگا ہو گا۔ابّا کے جانے پر حضور اُن کو کارتوس اور گولیاں دے دیا کرتے تھے۔
ایک روز حاضر ہوا اور کارتوسوں کی درخواست کی۔ حضورؓ نے استفسار کیا کہ کس شکار پر جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: حضور! سنا ہے مگ آئے ہوئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ تین مگ لے کر آنا۔ ایک تمہارے لیے، ایک میرے لیے اور ایک اپنے تایا جان (خلیفہ علیم الدین صاحب)کے لیے۔ مَیں نے دعا کے لیے عرض کیا اور پھر ہم شکار پر چلے گئے۔ مَیں نے ایک جگہ مگ دیکھ کر فائر کیا جس پر دو مگ گرے۔ تیسرے مگ کی تلاش میں بہت کوشش کی۔ سردیوں میں دریا ئے چناب دو دفعہ پار کیا مگر ناکام ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اندھیرا بھی بہت ہو چکا تھا اور تھکاوٹ کا یہ عالم تھا کہ قدم قدم پر لڑکھڑا رہے تھے۔ ہم سب نڈھال اور افسردہ تھے کیونکہ حضورؒ نے تین مگ لانے کا فرمایا ہوا تھا۔ اندھیرے میں مجھے اچانک ٹھوکر لگی تو جھک کر دیکھا۔ ایک زخمی مگ پڑا ہوا تھا۔ ہم نے شکر الحمدللہ پڑھا اور خوشی سے چھلانگیں لگاتے ہوئے واپس لَوٹے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی بات پوری فرمادی تو مایوسی اور تھکاوٹ سب دُور ہو گئی۔ شکار ٹیم میں مرزا رفیق احمد، مرزا ادریس احمد اور نواب پاشا صاحبان بھی شامل تھے۔
میری چھوٹی بہن کی پیدائش پر میرے ابا نے مجھے حضور کی خدمت میں نام رکھوانے کے لیے بھیجا۔ مَیں حاضر ہوا اور نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔ اس وقت حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ بھی موجود تھیں ۔ حضورؓ نے نام امتہ البس تجویز فرمایا۔ حضرت چھوٹی آپا نے فرمایا کہ یہ کیا نام ہواجس پر حضورؓ نے فرمایا کہ یہ آخری ہوگی اور ساتھ ہی فرمایا چلو پھر امتہ البصیر بس رکھ لیں۔
1961ء کی بات ہے کہ ابا جان نے ایک خواب دیکھی اور مجھے لکھ کر دی کہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کردوں۔ مَیں حاضر ہوا۔ ابھی کچھ بھی عرض نہیں کیا تھا کہ حضورؓ نے فرمایا کہ ابا کا خط لائے ہو؟ لاؤ مجھے دے دو۔ مَیں نے خط پیش کیا تو حضورؓ نے خط پڑھ کر فرمایا: اچھا صلا ح الدین بھی ایسی خوابیں دیکھ لیتا ہے!۔ خط بند کرنے سے پہلے اباجان نے مجھے پڑھا دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ مَیں ایک سٹیشن پر کھڑا ہوں۔ ایک گاڑی آتی ہے تو وہاں نہیں ٹھہرتی۔ یہ مال گاڑی ہے جس کے آدھے ڈبے چھت کے بغیر ہیں جن میں لوگ بھرے ہوئے ہیں۔ فرشتے ہاتھوں میں ہنٹر لیے کھڑے ہیں اور لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اَور گاڑی آتی ہے۔ اس کا بھی یہی منظر ہے۔ پھرایک ماشکی سٹیشن پر آ کر چھڑکاؤ کرتا ہے۔ کچھ لوگ آ کر جھنڈیاں لگا تے ہیں اور کچھ اَور لوگ بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ مَیں پوچھتا ہوں کہ اب کیا ہو رہا ہے جس پر مجھے بتا یا جاتا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی ٹرین آ رہی ہے۔ حضور کی ٹرین آتی ہے ،حضور باہر تشریف لاتے ہیں تو لوگ خوشی خوشی استقبال کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مَیں بھی شامل ہوں۔ اس پر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
ابا جان 1962ء میں راولپنڈی ہسپتال میں زیرعلاج تھے جب آپ کی وفات ہوئی۔ جس وقت وفات ہوئی تو اُسی وقت ربوہ میں حضورؓنے حضرت چھوٹی آپا سے فرمایا کہ صلاح الدین فوت ہو گیا ہے۔ حضرت چھوٹی آپا نے پوچھا: کون صلاح الدین؟ حضورؓ نے فرمایا کہ اپنا صلاح الدین۔ حضرت چھوٹی آپا نے کہا: کیسی باتیں کرتے ہیں، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا: نہیں، وہ فوت ہوگیا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیماری کے دوران ملاقات کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ ایک بار ملنے گیا تو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ اب ملنے نہیں آتے؟ عرض کیا کہ حضور کی بیماری کے باعث ملاقات کی اجازت نہیں ملتی۔ اس پر حضورؓ بڑے جوش سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اب مجھ پر بھی پابندی لگانے لگے ہیں!۔
حضورؓ جابہ تشریف لے جاتے تو اکثر ہماری فیملی کو بھی وہاں بلوا لیا کرتے تھے۔ ایک بار غالباً 1956-1957ء میں حضور نخلہ میں مقیم تھے اور جابہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری ایک بڑا جلسہ کر رہے تھے۔ اُن دنوں شدید سیلاب بھی آیا ہوا تھا۔ ربوہ سے مکرم چودھری محمد علی صاحب کی قیادت میں آٹھ طلباء کو (جو کہ ہائیکنگ پارٹی کے ممبر تھے اور اُن کے پاس اپنی بندوقیں بھی تھیں) حضور کی حفاظت کے لیے نخلہ بھجوایا گیا۔ ان میں خاکسار بھی شامل تھا۔ سیلاب کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند تھی۔ ریلوے لائن پر چلتے ہوئے ہم پیدل سرگودھا تک پہنچے۔ جہاں سیلاب کی وجہ سے ریلوے لائن ٹوٹی ہوتی وہاں ہم تیر کر پانی عبور کرلیتے۔ دو ساتھی بیمار ہوگئے جنہیں سرگودھا میں رُکنا پڑا۔ سرگودھا سے ایک ٹرک کوہاٹہ جارہا تھا۔ اُن سے لفٹ مل گئی تو اس میں لدے ہوئے سامان پر بیٹھ کر ہم رات اڑہائی بجے پیل پہنچ گئے۔ مکرم چودھری صاحب نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے دو رضاکار نخلہ تک پیدل جائیں۔ خاکسار نے خود کو پیش کیا اور میرے ساتھ باسط لون صاحب ابن ٹھیکیدار عبد اللطیف صاحب شامل ہوئے۔ جب ہم نخلہ پہنچے تو حضورؓ فجر کی نماز کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے۔ خاکسار نے سلام عرض کیا۔ حضورؓ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور پوچھا باقی کہاں ہیں؟ عرض کیا کہ چونکہ ٹرانسپورٹ نہیں تھی تو وہ پیل میں رُک گئے ہیں۔ حضورؓ نے پوچھا کہ تم کیسے آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا پیدل آئے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا اچھا جائیں، ناشتہ کرکے آرام کریں۔ پھر حضورؓ نے ڈرائیور صلاح الدین صاحب کو ہدایت دی کہ جاکر باقی گروپ کو بھی لے آئیں۔ ہمارا گروپ قریباً پندرہ روز تک نخلہ میں حفاظتی ڈیوٹیاں دیتا رہا۔
نخلہ میں ایک روز مَیں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور شکار پر جانا ہے، کارتوس عنایت فرمائیں۔ حضورؓ نے کارتوس دے دیے۔ مَیں تیتر کا شکار کرکے واپس آیا اور پکا کر حضورؓ کی خدمت میں پیش کیے تو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ تیتر ہیں۔ حضورؓ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ’’تم خود بھی حرام کھاتے ہو اور مجھے بھی حرام کھلاتے ہو۔‘‘ دراصل مجھے بالکل خیال نہیں رہا تھا کہ اُن دنوں تیتر کا شکار منع تھا۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی اور جاکر سارے تیتر اُن کتّوں کو کھلادیے جو حفاظت کے لیے سندھ سے لائے گئے تھے۔
ایک واقعہ یو ں ہوا کہ جابہ کے کچھ زمیندار گھوڑوں پر سوار گزر رہے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ گھوڑوں سے اُتر کے یہاں سے گزریں لیکن وہ نہ مانے۔ اس پر مَیں نے ہوائی فائر کر دیا۔ میرے اس عمل پر چودھری محمد علی صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا اور مجھ سے میری گن لے کر ڈیوٹیاں لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ اگلے دن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ تشریف لائے تو معاملہ آپؒ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؒ نے میری گن مجھے واپس کرکے ڈیوٹیاں بھی شروع کروادیں۔ اور چودھری صاحب کو یہ فرماتے ہوئے واپس ربوہ بھجوا دیا گیا کہ شاید آپ تھک گئے ہیں۔

چودھری محمد علی صاحب

میٹرک کے امتحانات کے بعد ہماری الوداعی پارٹی تھی جس میں حضورؒ بھی تشریف لائے۔ ہم طلبا قطاروں میں کھڑے تھے اور ہیڈماسٹر مکرم ابراہیم جمونی صاحب ہمارا تعارف کروا رہے تھے۔ جب میری باری آئی تو انہوں نے کہا کہ یہ خلیفہ فلاح الدین ہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا یہ تو میرا فِلّی ہے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ قطار میں آگے چار طلبا کے بعد مکرم نواب مودود احمد خان صاحب (امیر ضلع کراچی) کھڑے تھے۔ حضورؓ نے اُن سے مصا فحہ فرمایا اور آگے تشریف لے گئے۔ وہ آج تک اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ حضورؓ تم سے تو گلے ملے لیکن مجھ سے صرف مصافحہ کیا۔
ابا جان کی وفات کے بعد چونکہ فیملی کی مالی طور پر دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اور ذریعہ معاش ختم ہو گیا تھا اس لیے 1963ء میں خاکسار ربوہ سے لاہور چلا گیا جہاں صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کی کمپنی ’’احمد ٹرانسپورٹ‘‘ میں کام کرنے لگا۔ اس کاروبار میں والد صاحب کا بھی حصہ تھا۔ خاکسار ایک انشورنس کمپنی کا ایجنٹ بھی بن گیا۔ اُن دنوں مکرم ملک منور احمد صاحب قائد ضلع لاہور ہوا کرتے تھے۔ اُن کے ساتھ نائب قائد ضلع کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی وفات ہوئی تو خاکسار اُن دنوں ربوہ میں تھا۔ مجھے حضورؓ کی وفات پر سخت صدمہ ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کے موقع پر اتنا رنج نہ ہوا تھا جتنا حضورؓ کی وفات پر صدمہ ہوا۔ خاکسار کو حضورؓ کے جسد خاکی کے پاس دو تین گھنٹہ بیٹھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس وقت عجیب جذباتی کیفیت رہی۔
خلافت ثالثہ کے انتخاب کے موقع پر خاکسار مسجد مبارک کی محراب کے باہر کھڑا تھا۔ جب انتخاب کا اعلان ہو گیا تو مَیں بھاگ کر قصر خلافت میں گیا اور حضرت مریم صدیقہ صاحبہ المعروف چھوٹی آپا (حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ) کو اطلاع کی کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفہ منتخب ہوئے ہیں۔ یہ سن کر آ پ سجدہ میں گر گئیں اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بہت بڑے ابتلاء سے محفوظ کر لیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد پہلی بار لاہور تشریف لائے تو ایک جیپ خراب ہو گئی اور مجھے حکم ملا کہ اپنی گاڑی لے کر حضور کی گاڑی کے پیچھے پیچھے آؤں۔ جب ہم پنڈی بھٹیاں کے قریب پہنچے تو تیز بارش شروع ہوگئی اور سڑک پر پانی کھڑا ہو گیا۔ حضورؒ کی گاڑی کے آگے ایک ٹرک جا رہا تھا۔ ڈرائیور نے اُس سے آگے نکلنے کی کوشش کی تو مَیں بھی اپنی گاڑی کو حضور کی گاڑی کے ساتھ ہی آگے لے آیا تا ساتھ ہی نکل جاؤں لیکن ٹرک ڈرائیور اچانک واپس سٹرک میں آ گیا تو حضورؒ کی گاڑی کے ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی تو مَیں اپنی گاڑی کو بریک لگانے کے باوجود نہ روک سکا اس طرح میری گاڑی عقب سے حضورؒ کی گاڑی کے ساتھ ٹکراگئی۔ حضورؒ کا خلیفہ وقت کی حیثیت سے جو رُعب تھا اور پھر کالج کے زمانہ کے پرنسپل کا رُعب ذہن پر نقش تھا نیز حضرت بیگم صاحبہ کی گردہ کی تکلیف کا سوچ کر مَیں اپنی گاڑی ہی میں جمود کا شکار ہوگیا۔ لیکن جب حضورؒ اپنی گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مَیں بے اختیار چھلانگ لگاکر باہر آگیا۔ حضورؒ نے دریافت فرمایا کہ گاڑی کا فین اور بیلٹ وغیرہ تو ٹھیک ہیں؟ مَیں نے عرض کیا: جی سب ٹھیک ہیں صرف مڈگارڈ کا تھوڑا سا نقصان ہوا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ موسم کو اُس کا مارجن دینا چاہیے، زیادہ قریب ہوکر ڈرائیو نہ کریں۔ جب وہاں سے روانگی ہوئی تو مَیں نے سوچا کہ راستے میں تو سزا نہیں دی، اب ربوہ جاکر سزا ملے گی۔ چنانچہ ربوہ پہنچ کر گاڑی کو پرائیویٹ سیکر ٹری کے احاطہ میں کھڑا کرکے مَیں خود چھپ گیا۔ حضورؒباہر تشریف لائے اور پوچھا فِلّی کہاں ہے؟ خاکسار نے سلام عرض کیا تو ازراہ شفقت فرمایا: آج واپس نہیں جانا۔ گھر جاؤ، آرام کرو اور کل صبح واپس جانا۔ اس طرح حضور نے اپنی شفقت کا اظہار فرمایا۔


حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ جب لاہور تشریف لایا کرتے تو قافلے میں شامل ہونے کی سعادت مجھے بھی ملتی۔ حضورؒ کے قیام کے دوران مہمانان کی خدمت کی توفیق بھی ملتی۔ لاہور کے گردو نواح میں دُور دراز کے علاقہ جات میں رہنے والے جن بوڑھے اور معذور لوگوں کی خلیفہ وقت سے ملاقات نہ ہوسکی ہوتی تو ہم انہیں موٹرسائیکل پر بٹھا کر لاتے۔ حضورؓ اُن سے مل کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔


حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے دَور میں جلسہ سالانہ پر میری ڈیوٹی حفاظتِ خاص میں سٹیج پر ہوا کرتی تھی۔ ہمارے انچارج صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ہوا کرتے تھے۔ جب میری ڈیوٹی ختم ہوتی تو میں صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے پاس جا کر بیٹھ جاتا جو کہ حضور ؓ کو تقریر کے دوران چائے پیش کیا کرتے تھے۔ جب مَیں آپ کے پاس آ جاتا تو چائے بناکر مجھے دیا کرتے کہ حضرت صاحب کے ڈائس پر رکھ آؤ۔ اس طرح ایک تو تبرک مل جاتا تھا اور دوسرے حضور کی پیالی کو دھونے کی سعادت مل جایا کرتی تھی۔ پھر یہ ڈیوٹی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اُس وقت حضرت بیگم صاحبہ کے لیے سٹیج کے عقب میں خیمہ لگتا تھا جس میں آپ کی کار کھڑی ہوتی اور آپ اس میں تشریف رکھتیں جہاں وہ حضورؒ کے لیے خودچائے بناتی تھیں۔ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اور مرزا فرید احمد صاحب حضورؒ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ جب مَیں وہاں آجاتا تو یہ ڈیوٹی میرے ذمہ کرکے وہ خود چلے جاتے۔ جب حضورؒ لاہور تشریف لاتے تب بھی حضرت بیگم صاحبہ تھرموس میں چائے بناکر مجھے دے دیتی تھیں۔ خاکسار مشاعرہ یا میٹنگ کے دوران قہوہ پیش کر دیا کرتا تھا۔


1968ء میں مَیں صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں تھا جس میں سخت مندی کے حالات پیدا ہو گئے تو کاروبار کو فروخت کردیا گیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے اجازت لے کر ہمارا جرمنی ہجرت کرنے کا پروگرام بن گیا۔ ہم دونوں کے علاوہ میرا چھوٹا بھائی رواح الدین اور تین دوسرے دوست ایک واکس ویگن مائیکرو بس کے ذریعہ روانہ ہوئے۔ کابل پہنچے تو مرزاحفیظ احمد صاحب کے ہاتھ پرچو ٹ لگ گئی اور وہ بذریعہ جہاز جرمنی چلے گئے اور باقی دوستوں پر یہ فیصلہ چھوڑ دیا کہ وہ واپس چلے جائیں یا آگے سفر جاری رکھیں۔ سب نے یہی مناسب سمجھا کہ جرمنی کے سفر پر چلتے ہیں۔ چنانچہ ہم روانہ ہوگئے۔ ایران سے ہوتے ہوئے جب ترکی پہنچے تو کار کا انجن خراب ہو گیا۔ انجن کی مرمّت کے لیے ہمیں استنبول میں ٹھہرنا پڑا۔ چنانچہ تقریباً 7 ہفتوں میں جرمنی تک کا سفر مکمل ہوا۔
1970ء میں خاکسار اور مرزا حفیظ احمد صاحب بذریعہ کار واپس پاکستان چلے گئے۔ اسی سال کے آخر میں خاکسار دوبارہ بائی روڈ جرمنی چلاگیا۔ سفر سے پہلے خاکسار حضورؒ کو ملنے گیا تو حضورؒ نے پوچھا کہ پہلے تو کاروبار کے لیے گئے تھے اب کیا ارادہ ہے ؟ عرض کیا کہ حضور! مزدوری کروں گا اور کام کروں گا۔ حضور مسکرائے، دعا کرائی اور فرمایا: اب جائیں۔
جنوری 1971ء کے وسط میں مَیں جرمنی پہنچ گیا۔ ایک کمپنی میں کام مل گیا اور ویک اینڈ میں مارکیٹ میں جا کر سٹال لگا لیتا اور پاکستان کے بنے ہینڈی کرافٹ فروخت کرتا۔ الحمدللہ اچھی آمدن ہوتی رہی۔ علاوہ ازیں مشن ہاؤس میں ضیافت کے شعبے میں خدمت کی توفیق بھی ملتی رہی۔


اُن دنوں خدام الاحمدیہ جرمنی اتنی فعال نہ تھی۔ مبلغ انچارج مکرم فضل الٰہی انوری صاحب تھے۔ ہم نے اُن کے ذریعے مرکز سے اجازت لے کر 1972ء کے آغاز میں مسجد نور فرینکفرٹ میں اجلاس منعقد کیا جس میں جرمنی بھر سے گیارہ خدام شامل ہوئے۔ اس میں خاکسار کو قائد مجلس منتخب کرلیا گیا۔ 1973ء میں ہم نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا انعقاد کیا تو کافی حاضری ہوگئی۔ کچھ خدام برطانیہ سے آگئے، 2خدام فرانس سے اور چند دیگر یورپی ممالک سے بھی تشریف لائے۔ مسجد نور کے باغیچے میں چادروں سے تیار کردہ خیمے نصب کیے گئے جیسا پاکستان میں لگایا کرتے تھے۔ فٹ بال میچ کے لیے دو ٹیمیں بنائی گئیں۔ ایک جرمنی کی اور ایک بیرونی ممالک سے آنے والے خدام کی۔ یہ پہلا یورپین اجتماع بھی تھا۔
فرینکفرٹ میں اُن دنوں صرف احمدیہ مسجد نُور ہی واحد مسجد تھی۔ عیدین کے موقع پر اس میں پہلے ایرانی احباب آ کر عید پڑھتے۔ پھر ترکی کے لوگ آ جاتے اور آخر میں ہم احمدی عید پڑھا کرتے۔ سب حاضرین کے لیے ہم ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ عید کے تینوں اجتماعات کی امامت ہمارے مبلغ سلسلہ مکرم فضل الٰہی انوری صاحب کیا کرتے تھے۔


1974ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ جرمنی تشریف لائے تو حضورؒ نے فرمایا کہ تمہاری شرط پوری ہو گئی ہے اس لیے اب شادی کر لو۔ دراصل میری خواہش یہ تھی کہ پہلے بہنوں کی شادی ہو جائے تو پھر مَیں کروں گا۔ یہ بات حضورؒ کے علم میں تھی۔ حضورؒ جرمنی تشریف لانے سے قبل چھوٹی بہن کا نکاح پڑھا کر تشریف لائے تھے۔ خاکسار نے عرض کیا: بکرا حاضر ہے۔ حضورؒ نے فرمایا: اچھا میں قربانی کا انتظام کرتا ہوں۔ پھر حضورؒ جرمنی سے لندن تشریف لے گئے تو امام مسجد فضل لندن مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کو ارشاد فرمایا کہ میرے جانے کے بعد فِلّی کے لیے مکرم نذیر احمد ڈار صاحب کی بیٹی نعیمہ صاحبہ کا رشتہ لے کر جائیں۔ چنانچہ حضورؒ کی واپسی کے بعد مکرم خان صاحب جرمنی تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ حضور نے یہ رشتہ تجویز کیا ہے، تم یہ تصویر دیکھ لو اور اپنی والدہ کو پوچھ لو اور استخارہ کرلو۔ میں نے عرض کیا کہ نہ مجھے تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ استخارہ کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے رشتہ بھجوا یا ہے انہوں نے تصویر بھی دیکھی ہو گی اور استخارہ بھی کیا ہوگا، مجھے منظور ہے۔ اس پر انہوں نے ازراہ تفنّن کہا کہ ’’دیکھ لو، ’ڈار‘ ڈر کا مبالغہ ہے۔ ان کی طبیعت بہت سخت ہے۔‘‘ مَیں نے کہا بہرحال جو بھی ہے ٹھیک ہے۔ بعد ازاں ضروری کارروائی کے بعد نومبر 1974ء کے وسط میں مَیں لندن آ گیا اور نومبر کے آخر میں میری شادی ہوگئی۔ مسجد مبارک ربوہ میں میرا نکاح مکرم مولوی عبد المالک خان صاحب نے پڑھایا جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے دعا کروائی۔ میری طرف سے میرے بڑے بھائی مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب مرحوم میرے وکیل تھے جبکہ میری اہلیہ کی طرف سے ان کے دادا مکرم عبد الکریم ڈار صاحب وکیل مقرر ہوئے تھے۔ نکاح کے تین روز بعد لندن میں شادی قرار پائی۔
جرمنی میں مجھے یہ خواب آئی تھی کہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ مسجد مبارک میں تشریف فرما ہیں اور مجھے فرما تے ہیں کہ آج سے تین دن کے لیے تم میرے مہمان ہو۔ یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ لندن میں شادی کے بعد مکرم خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ شادی کے بعد تین روز کے لیے آپ مشن ہاؤس کے مہمان ہیں، کمرہ تیار کر دیا گیا ہے۔
بعدازاں خاکسار اہلیہ کو لے کر اپنی ہمشیرہ (اہلیہ مکرم ممتاز بٹ صاحب) کے ہاں منتقل ہو گیا۔ لندن ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی اور مجلس خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن کے ریجنل نائب قائد کے طور پر خدمت بھی کرنے لگا۔ 1975ء میں ساؤتھ ریجن کے خدام کی تعداد قریباً ڈیڑھ صد تھی۔


حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ جب 1978ء میں کسر صلیب کانفرنس کے لیے لندن تشریف لائے تو حضورؒ کی اجازت سے حضورؒ کی کار پر لوائے احمدیت بھی لگایا گیا تھا تاہم حفاظتی نکتہ نگاہ سے حضورؒ نے وہ کار استعمال نہ کی بلکہ مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب کی کار میں سفر کرتے رہے اور پرچم والی کار مکرم چودھری انور احمد کاہلوں صاحب کے استعمال میں رہی۔ مجھے حفاظت خاص میں ڈیوٹی دینے کی توفیق ملتی رہی۔ ایک روز ڈیوٹی کے دوران دفتر کے باہر کھڑا تھا اور خاکسار کا دوسالہ بیٹا عزیزم نورالدین اس وقت میری گود میں تھا۔ حضورؒ نماز ظہر کے بعد اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے جارہے تھے۔ خاکسار نے سلام عرض کیا تو فرمایا: کس کو اٹھایا ہوا ہے ؟ خاکسار نے عرض کیا: حضور کے غلام کو۔ اُس وقت حضورؒ چند سیڑھیاں چڑھ چکے تھے۔ یہ سن کر آپؒ واپس تشریف لائے، ازراہ شفقت نورالدین کو پیار کیا اور محبت سے فرمایا: ہیں! یہ میرا غلام ہے!! ۔
1980ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ دورہ یورپ کے لیے تشریف لائے تو حضورؒ نے مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد بھی رکھنا تھا۔ لندن سے میڈرڈ تک کا سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیا گیا۔ پھر میڈرڈ سے قرطبہ تک کا سفر بذریعہ کار ہوا تھا۔ کاریں میڈرڈ سے کرایہ پر حاصل کی گئی تھیں۔


سپین کے اس سفر کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ سپین میں چائے اچھی نہیں ملتی۔ چنانچہ خاکسار نے چائے بناکر حضورؒ کی خدمت میں پیش کی تو حضورؒ کو بہت پسند آئی اور حضورؒ نے ازراہ شفقت خاکسار کو دس پاؤنڈ انعام میں عطا فرمائے۔ یہ نوٹ اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔خاکسار کو الحمراء (سپین) میں حضورؒ کی رہائشگاہ کے داخلی دروازے پر حفاظتی ڈیوٹی دینے اور حضورؒ کے لباس پر استری کرنے کی سعادت بھی ملی۔

محترم میر محمود احمد ناصر صاحب

ایک روز حضورؒ الحمرا ء باغ کی سیر کر رہے تھے کہ ایک خاتون سیاح بےاختیار حضورؒ کی جانب لپکی اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔ مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب بھی حضورؒ کے ہمراہ تھے، انہوں نے تیزی سے آگے بڑھ کر خاتون سے مصافحہ کر لیا اور پھر اس خاتون کو سمجھایا کہ اسلام میں عورت کو عزت کا جو مقام دیا گیا اس وجہ سے اُسے مردوں سے مصا فحہ کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تب اس خاتون نے کہا کہ مَیں نے اتنا خوبصورت اور نورانی چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔
1982ء میں جب حضورؒ کی وفات ہوئی تو صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب مرحوم اُن دنوں لندن میں میرے مہمان تھے۔ چنانچہ ہم اکٹھے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ اُسی فلائٹ میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اور بعض دیگر احباب بھی عازم سفر ہوئے۔ فلائٹ جب اسلام آباد پہنچی تو وہاں سے حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ لاہور تشریف لے گئے اور ہم ربوہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ربوہ میں مجھے حضورؒ کی تدفین کے سلسلے میں ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ جسد خاکی کے پاس بھی دو گھنٹے تک ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی اور تدفین کے موقع پر قبر پر مٹی ڈالنے کا موقع بھی ملا۔

(باقی آئندہ انشاء اللہ)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں