محترمہ آپا فاطمہ صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29 اپریل 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جولائی 2013ء میں ہندوؤں سے احمدیت کی آغوش میں آنے والی ایک خاتون المعروف آپا فاطمہ کے بارے میں مکرمہ ن۔درد صاحبہ کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ربوہ میں واقع ہمارے مکان کے سرونٹ کوارٹر کے ایک کمرے میں ہماری والدہ نے ایک خاتون کو ٹھہرایا جو ہماری والدہ کو آپا کہتی اور ہم بچے اُسے آپا کہتے۔اُن کے متعلق معلوم ہوا کہ قادیان میں وہ اپنے شوہر صدیق صاحب مرحوم کے ساتھ ہمارے گھر کے ایک حصے میں رہائش پذیر تھیں اور میری والدہ سے قرآن کریم اور اردو وغیرہ پڑھنا سیکھتی تھیں۔ ہجرت کے بعد ربوہ آگئیں تو کچھ عرصے بعد شوہر کی وفات ہوگئی۔ اولاد کوئی نہیں تھی۔ دوبارہ شادی کی تو دوسرے شوہر بھی ایک عرصے بعد وفات پاگئے۔ ربوہ ریلوے سٹیشن کے سامنے ایک کمرے والا کوارٹر اُن کا گھر تھا۔ ایک روز میری والدہ نے خواب میں انہیں پریشان دیکھا تو فوراً لاہور سے ربوہ پہنچیں۔ ربوہ جاکر معلوم ہوا کہ اُنہیں کوارٹر خالی کرنے کا آرڈر ملا ہے۔ چنانچہ آپا فاطمہ کا سامان اور اُن کو امّی اپنے ہاں لے آئیں۔
خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہے لیکن اُن کو بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔ یا یوں کہہ لیں کہ جو خدا کے ہوجاتے ہیں اُن کا سارا جہان ہوجاتا ہے۔
اُن کا مختصر سا سامان جس کمرے میں رکھا گیا وہ صبر شکر کے ساتھ وہاں رہنے لگیں۔ اُس میں ایک کھڑکی تھی جو باہر کی طرف کھلتی تھی۔ ہم نے ایک بار پوچھا کہ کیا آپ کو سردیوں کی راتوں میں ڈر نہیں لگتا۔ مسکراکر کہنے لگیں کہ میرے ساتھ میرا خدا ہوتا ہے، وہ خود کہتا ہے کہ اُسے تو اونگھ بھی نہیں آتی۔ مَیں سوجاتی ہوں تو وہ میری حفاظت کرتا ہے۔
آپا فاطمہ کی زندگی تعلق باللہ کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی۔ نہایت سادہ، صابر، شاکر، عبادت گزار، متوکّل اور بےحد غیرت مند خاتون تھیں۔ کئی بار اُن سے کہا کہ شام کو چائے اکٹھے پیا کریں لیکن وہ مسکراکر کہہ دیتیں کہ مَیں نے پی لی ہے۔ اگر زیادہ زور دیا کہ چائے کا مزہ اکٹھے پی کر آتا ہے تو پھر اپنا چائے کا مگ لاکر ہمارے ساتھ بیٹھ کر پی لیتیں۔ کئی بار امّی نے کہا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھالیا کرو یا رات کو ہمارے ساتھ آکر سوجایا کرو۔ لیکن اُن کی غیور طبیعت ہمیشہ ایسے کاموں میں آڑے آتی۔ کبھی کسی کا یا اپنے حالات کا شکوہ نہ کرتیں۔ فیصل آباد سے کپڑا لاتیں جو محلے کی عورتیں خرید لیتیں اور آپ سادہ شلوار قمیص سی کر پیسے کمالیتیں۔ موصیہ تھیں اور باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرتیں۔ لجنہ کے پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتیں۔ پردے کی بےحد پابند تھیں۔
آپا فاطمہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز ادا کرکے قرآن کریم کی تلاوت کرتیں۔بعد میں اُن کی مستقل ڈیوٹی قصرخلافت میں لگ گئی تو نہایت جوش، جذبے اور ذمہ داری سے اس ڈیوٹی کو تاعمر نبھایا۔ موسم کی سختی کبھی آڑے نہ آئی۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہمیں کہنے لگیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل مَیں ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ کس طرح خداتعالیٰ نے احسان کرکے ایک ہندو کو احمدی بنایا اور اب قصرخلافت میں نوکری۔ یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔
اُن کی یہ خواہش اور دعا تھی کہ خدا تعالیٰ چلتے پھرتے اپنے پاس بلالے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی یہ دعا قبول کرلی اور ایک روز اُن کے کمرے میں جاکر دیکھا تو اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں