محترمہ رضیہ بیگم صا حبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍نومبر 2011ء میں مکرمہ سلیمہ خاتون صاحبہ کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنی ممانی مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری نثار احمد صاحب کا ذکرخیر کرتی ہیں ۔
محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ پابند صوم و صلوٰۃاور دینی شعار پر عمل کرنے والی بہت نیک فطرت خاتون تھیں ۔ آپ کے والد محترم ڈاکٹر عبداللہ احمدی صاحب گجرات کے بہت متموّل اور معزّز گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے کینیا کے شہر نیروبی میں تعلیم پائی۔ وہ احمدیت سے محبت کے اظہار کے طور پر اپنے نام کے ساتھ احمدی لگایا کرتے تھے۔ ہر روز رات کو ایک گھنٹہ کے لئے اپنے بچوں کو احمدیت کی تعلیمات سے روشناس کروانا اُن کا معمول تھا۔ جب نیروبی میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو انہوں نے اپنے سب بچوں کو اکٹھا کیا اور جنت میں گھر تعمیر کرنے سے متعلق بتایا۔ پھر مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی اور کہا کہ جس کا چندہ سب سے زیادہ ہوگا اُسے مَیں انعام دوں گا۔ اتفاق تھا کہ رضیہ بیگم صاحبہ کا چندہ بچوں میں سب سے زیادہ تھا اور آپ نے اپنے والد سے ملنے والا 50شلنگ کا انعام بھی چندہ میں دے دیا۔
محترم عبداللہ احمدی صاحب نے قادیان میں پلاٹ خرید کر ایک کوٹھی بھی تعمیر کروائی تھی۔ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ اپنی شادی کے بعد کینیا سے قادیان آبسیں۔ یہاں آپ کے ہاں رہنے والی ایک عیسائی نوکرانی نے آپ اور آپ کے گھر والوں کی خداترسی دیکھ کر احمدیت قبول کرلی۔ بعد میں اُس کا خاوند بھی عیسائیت ترک کرکے احمدی ہوگیا۔
آپ بتایا کرتیں کہ ہمارے ہاں رواج تھا کہ جوسترہ برس کا ہو جاتا اس کی وصیت کروا دی جاتی تھی میری وصیت بھی سترہ برس کی عمر میں ہو گئی تھی۔ آپ بہت سادہ مزاج تھیں ۔ باوجود نہایت متموّل ہونے کے جلسہ کے ایّام میں لنگر کی دال کو گھر کے ہر سالن پر ترجیح دیتیں ۔
آپ کی وفات لندن میں ہوئی۔ آپ نے تین بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں