محترمہ صاحبزادی امۃ الباسط بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 دسمبر 2011ء میں مکرمہ امۃالواسع ندرت صاحبہ کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترمہ صاحبزادی امۃ القیوم بیگم صاحبہ نے حضرت اماں جانؓ کی سیرت کے حوالہ سے دہلی کے سفر کے دوران کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک گاؤں کے گیسٹ ہاؤس کی اونچی سیڑھیوں کے ذریعہ اوپر جاتے وقت محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت امّاں جانؓ کو سہارا دے رہے تھے جبکہ مَیں اور میری بہن امۃالباسط بھی ساتھ تھے۔ کچھ دن بعد مکرم غلام محمد اختر صاحب کا (جو اُن دنوں ریلوے میں ملازم تھے) محترم صاحبزادہ صاحب کو خط آیا کہ مَیں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ اس طرح کی اونچی سیڑھیاں ہیں اور آپ امّاں جان کو سہارا دے کر اوپر لے جارہے ہیں ۔ آپ کی بیوی اور امۃالباسط پیچھے سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں ۔ اتنے میں کوئی کہتا ہے یا غیب سے آواز آتی ہے کہ یہ ابراہیم کا خاندان ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میری اُمّی میں خدا کے فضل سے خاندانِ ابراہیم والی صفات پورے طور پر پائی جاتی تھیں ۔ خداتعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کی مخلوق سے محبت ہی آپ کی زندگی تھی۔ یہ محبت اُس وقت بھی آپ کے چہرے سے ٹپکتی تھی جب آپ صبح صبح پرندوں کو کھانا ڈالا کرتی تھیں ۔ سب سے بڑھ کر خداتعالیٰ کی محبت جو آپ کی ساری زندگی پر محیط تھی۔ جو نہ صرف خوشیوں میں شکرگزاری کی صورت میں نظر آتی تھی بلکہ غم کی حالت میں تو اَور بھی مضبوطی سے اپنے ربّ کا دامن پکڑ لیتی تھیں ۔ زندگی میں آپ نے بڑے بڑے صدمے دیکھے۔ سولہ سال کی عمر میں اپنی اُمّی کی وفات کا صدمہ، پھر تقریباً جوانی کی عمر میں ہی جبکہ ابھی کوئی بچہ بھی بیاہا نہیں گیا تھا ابّا کی وفات۔ پھر اپنی بیٹی نصرت کے خاوند مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت جبکہ ان کے بچے بہت ہی چھوٹے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی آزمائشیں جن سے بڑے مضبوط لوگوں کی کمریں بھی ٹوٹ جاتی ہیں آپ نے نہ صرف برداشت کیں بلکہ اپنے ربّ کے ساتھ مکمل راضی رہ کر برداشت کیں ۔ بظاہر ہنستی مسکراتی اور راتوں کو اٹھ کر نمازوں میں اپنے اللہ کے حضور اس کا رحم، مدد اور پیار مانگتی تھیں ۔ ابّا کی وفات سے لے کر اپنی شادی تک مَیں ہی اُمّی کے ساتھ سوتی تھی۔ میں نے کوئی رات ایسی نہیں دیکھی جب وہ اٹھ کر اپنے اللہ کے حضور حاضر نہ ہوتی ہوں اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک رہا۔ بلکہ آخری چند سالوں میں اُمّی کئی دفعہ ICU میں داخل ہوئیں تو وہاں بھی رات کو تہجد کے لئے سٹاف کو درخواست کر دیتی تھیں اور اُن میں سے کوئی آکر آہستہ سے ان کو جگا دیتے تھے اور آپ اپنے بیڈ پر لیٹے لیٹے نوافل ادا کر لیا کرتی تھیں ۔ ماہِ رمضان میں حقیقتاً کمر کس لیتی تھیں ۔ روزے تو معدے میں السر کی وجہ سے نہیں رکھ سکتی تھیں مگر رکھوانے اور کھلوانے کا اہتمام ضرور کرتی تھیں ۔ نمازوں اور قرآن کی تلاوت میں دن اور رات کا اکثر حصہ گزرتا تھا۔ اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کرتی تھیں ۔ اس طرح صحت بہت متأثر ہوتی تھی۔
رمضان میں اللہ کے فضل سے قرآن شریف کے تین دَور مکمل کرتی تھیں ۔ قرآن شریف کے علاوہ جو کتاب میں نے ان کو زیادہ پڑھتے دیکھا وہ ’’تذکرہ‘‘ تھا جو بہت باقاعدگی سے پڑھتی تھیں ۔ جب ابّا (محترم سید میر داؤد احمد صاحب) نے حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات مختلف موضوعات کے تحت اکٹھے کئے اور وہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے‘‘ کے نام سے طبع ہوئے تو اس میں اُمّی نے ابّا کا بہت ہاتھ بٹایا۔
خلفاء کے ساتھ قریبی رشتوں کے تعلق کے باوجود روحانی تعلق ہی اَور تھا۔ ہم نے اپنے گھر میں خلفاء سلسلہ کی محبت اور اطاعت کے وہ نمونے دیکھے ہیں جو بیان سے قاصر ہیں ۔ ان کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے آپ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ خلافت کے بعد وہ احترام دیا جو خلافت کا حق ہے۔ … خلافت کے بعد میری سب سے پہلی ملاقات شاید ان سے ہوئی اور ان کی آنکھوں میں ، الفاظ میں ، بات چیت میں جو فوری غیرمعمولی احترام مَیں نے دیکھا وہ حیران کن تھا‘‘۔
اُمّی نے زندگی کے ہر مرحلہ پر ہمیشہ خلفاء سلسلہ سے راہنمائی حاصل کی اور ان کے مشوروں سے ہی تمام کام اور فرائض انجام دیئے۔ لیکن کبھی یہ وہم بھی ہوجاتا کہ کہیں خلیفۂ وقت میرے سے ناراض تو نہیں تو پھر بے چینی اور بیقراری انتہا کو پہنچ جاتی۔ ہم کہتے کہ آپ کو وہم کیوں ہورہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔ مگر جب تک آپ کو خود خلیفۂ وقت کی طرف سے تسلی نہیں ہو جاتی تھی کسی کل قرار نہ آتا تھا۔
خدمت دین کی لمبا عرصہ توفیق ملتی رہی۔ 42 سال سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ ربوہ کے فرائض بہترین انداز میں ادا کئے۔
آپ کی سیرت کا ایک بہت اہم پہلو مہمان نوازی تھی۔ اگر کھانے کا وقت ہے اور اچانک کچھ لوگ آگئے ہیں تو ان کو پھر کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دیتی تھیں۔ خواہ گھر میں صرف دال بنی ہو۔ اگر ہم کہتے کہ بالکل معمولی کھانا ہے اور مقدار میں بھی اتنا نہیں کہ مہمانوں کو پیش کیا جائے مگر آپ زور دیتی تھیں کہ کوئی بات نہیں چٹنی اور اچار ساتھ لگالو گزارہ کرلیں گے اور مہمانوں کو بھی بڑی بے تکلفی سے ساری بات بتا کر کھانے کی میز پر لے جاتی تھیں۔ جلسہ سالانہ کے ایام میں گھر کے ہر کمرہ میں دس پندرہ مہمان ضرور ٹھہرے ہوتے تھے اور دوپہر کو تو کئی دوسرے لوگوں کو بھی آکر کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہوتی تھی۔ آپ یہ سارے انتظامات اکیلے ہی کرتی تھیں ۔ ابّا تو افسر جلسہ سالانہ ہونے کی وجہ سے اتنے مصروف ہوتے تھے کہ کئی دن تو تقریباً گھر ہی نہیں آتے تھے۔ ہم سب کی بھی ڈیوٹیاں ہوتی تھیں ۔ خود اُمّی کی بھی سٹیج پر ڈیوٹی ہوتی تھی اس کے باوجود صبح ناشتہ سے لے کر رات کے کھانے تک کا سارا انتظام۔ پھر ٹھہرے ہوئے مہمانوں کی ہر ضرورت کا خیال۔ ناشتہ تو سب کے کمروں میں ٹرالیاں لگا کر بھیجتی تھیں کھانے بھی مردوں ، عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ انتظام، پھر اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کے لئے ڈاکٹر کو بلانا، پرہیزی کھانے وغیرہ کا خیال، چھوٹے بچوں کی ضرورتوں کا خیال، غرض انتھک محنت تھی جو کئی دن پہلے سے شروع ہو جاتی تھی اور بعد میں سمیٹنے میں بھی کئی دن لگ جاتے تھے۔ انتہائی خوشی اور بشاشت سے سب کام کرتی تھیں بلکہ اگر کسی جلسہ پر مہمان کسی وجہ سے کچھ کم ہو جاتے تو اداس ہو جاتی تھیں ۔
ابّا کی وفات کے بعد تو اُمّی کے اپنے کمرے میں بھی بہت سی خواتین ٹھہری ہوتی تھیں ۔ ان میں خصوصی طور پر حیدرآباد دکن کی ایک معزز فیملی تھی جو کہ دراصل قادیان میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ کے گھر مہمان ٹھہرتے تھے۔ اُن کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اُمّی کے پاس لے کر آئے اور فرمایا باچھی یہ تمہاری اُمّی کے مہمان ہیں آئندہ تم نے ان کو سنبھالنا ہے۔ اس دن کے بعد وہ فیملی نسل درنسل اُمّی کی مہمان رہی۔ جلسہ سالانہ کے علاوہ بھی ربوہ آنا ہوتا تو اُمّی کے ہی مہمان رہے۔
اسی طرح ایک اور عہد جو آپ کی اُمّی (حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ) نے وفات کے وقت آپ سے لیا کہ اپنے بھائی (حضرت مرزا طاہر احمدؒ) اور بہنوں (محترمہ بی بی امۃالحکیم صاحبہ اور محترمہ بی بی امۃالجمیل صاحبہ) کا خیال رکھنا۔ یہ عہد بھی آپ نے تادمِ وفات نبھایا۔ گو کہ محبت اُمّی نے سارے ہی بہن بھائیوں سے بے انتہا کی مگر ان تینوں کو تو اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں ۔ بی بی جمیل کی بعض وقت طبیعت خراب ہو جاتی تھی تو رات کو دو تین بجے آدمی بلانے آجاتا تھا اور اُمّی اسی وقت اٹھ کر ان کے گھر چل پڑتی تھیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کے بعد ان کی بیٹیوں سے بہت ہی تعلق رکھا اور کہتی تھیں کہ اب تو میری سات بیٹیاں ہیں ۔ ویسے حضرت مصلح موعودؓ کے ماشاء اللہ 13 بیٹے اور 9 بیٹیاں تھیں ۔ ان سب کا اور اُن کے بچوں کا بھی اُمّی سے ایک خاص تعلق تھا۔ بہت سے لوگ اپنی باتیں اُمّی سے شیئر کرتے تھے۔ اور ان کو انتہائی محبت اور دیانتداری سے مشورے دیتی تھیں اور ان کی بات کو مکمل راز میں رکھتی تھیں ۔ جن بچوں کے والدین یا کسی ایک کی وفات ہو جاتی تو ان کے لئے تو اُمّی کے پیار کا دامن اتنا وسیع ہوجاتا تھا کہ جیسا ایک حقیقی ماں کا۔
اپنی اولاد سے تو والدین محبت کرتے ہی ہیں مگر جس عورت کا خمیر ہی محبت سے اٹھا ہو اس کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپنی اولاد سے کتنی محبت کرتی ہوگی۔ ابّا کی وفات کے وقت ہم کافی چھوٹے تھے خاص طور پر مَیں اور نصرت۔ ہمارے لئے تو اُمّی دعاؤں کا خزانہ بن گئیں اور خدا کی مدد اور توکل سے ہماری ساری ذمہ داریاں ، تعلیم کی ہوں یا پھر شادیوں کی ادا کیں ۔ ہمارے لئے اُمّی کا پیار یہ تھا کہ ہر وقت یہ بیقراری ہوتی تھی کہ کہیں نمازوں میں تو کمزوری نہیں آرہی؟ جماعت اور خلافت سے وابستگی تو ابّا، اُمّی نے ہمیں گھول کے پلا دی تھی۔ اخلاقی لحاظ سے بھی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر نظر رکھتی تھیں ۔ ابّا کے بعد 33 سال اُمّی زندہ رہیں اتنا لمبا عرصہ انتہائی صبر اور ہمت کے ساتھ گزارا۔ ہمارے لئے انہوں نے کبھی دنیا نہیں چاہی بلکہ ہمیشہ اللہ کا پیار اور اس کے دین کا راستہ ہی مانگا۔ جب بھائی (مکرم میر قمر سلیمان احمد صاحب) نے اور پھر بعد میں میرے بیٹے نے وقف کیا تو بہت ہی خوش تھیں ۔ بھائی کے بیٹے ارسلان نے جب قرآن شریف حفظ کیا تو اُمّی کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ اس بات پر بھی بہت خوش تھیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے بعد خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا پہلا لڑکا ہے جس نے حفظ کیا ہے ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے یتیم کی پرورش اچھے انداز میں کی وہ اور مَیں جنت میں (آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو اٹھا کر فرمایا) اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ابّا اُمّی کو اس کی بھی توفیق ملی۔ ابّا کی زندگی میں بھی دونوں نے دو تین بچوں کی پرورش کی اور بعد میں بھی اُمّی کے گھر وقتاً فوقتاً ایسے کئی بچے پرورش پاتے رہے جن میں سے بعض تو اب بڑی کامیاب زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ اپنی خاص دعاؤں میں ان کو ان کے بچوں کو ہمیشہ یاد رکھتی تھیں اور ان کے بچوں کو کہتی تھیں کہ میں تمہاری نانی یا دادی ہوں ۔ اپنی وفات سے چند سال پہلے اُمّی نے کچھ پرائز بانڈز اس نیت سے لے کر رکھے تھے کہ ان سے غریب اور یتیم بچیوں کے جہیز تیار کراؤں گی۔ ان میں ایسی برکت پڑی کہ تقریباً ہر دفعہ ہی انعام نکل آتا تھا۔ اس طرح کئی بچیوں کے جہیز اس رقم سے تیار ہوئے۔ امداد لینے کے لئے تو روزانہ ہی عورتیں آپ کے پاس آیا کرتی تھیں ۔
آپ کا عام احمدی عورتوں سے بہت گہرا تعلق تھا۔ اس بارہ میں خاص طور پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آپ کو اُس وقت ایک خط کے ذریعہ نصیحت فرمائی تھی جب حضرت امّاں جانؓ اور حضرت امّ ناصرؓ کی وفات کے بعد ایک خلا محسوس کیا جانے لگا۔
اس خط نے یقینا اُمّی کی زندگی میں بہت اہم رول ادا کیا اور اُمّی کا گھر بھی ان گھروں میں سے ایک تھا جو نسوانی مرکز کہلا سکتا تھا۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد پاکستان کی خواتین کے لئے اُمّی ایک سہارا بن کے رہیں ۔ محبت کا ایک سمندر تھا جو افراد جماعت کے لئے ٹھاٹھیں مارتا تھا اور اس میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ واقفین زندگی کا اپنا ایک خاص مقام تھا۔ ابّا کے زمانے کے جامعہ احمدیہ کے بعض شاگردوں سے تو بالکل اپنے بچوں جیسا تعلق تھا جو ساری زندگی رہا۔ ایک دفعہ کسی سے تعلق بن گیا تو ساری عمر اس کو نبھایا۔ اگر کوئی تکلیف میں ہوتا تو بڑی بیقرار ہو کر دعائیں کرتیں جب تک اللہ کے فضل سے تسلی نہ ہو جاتی۔
اُمّی کے گھر ایک لڑکی رہتی تھی جو ذہنی طور پرکمزور تھی اس کی بیٹی بالکل معذور تھی وہ اچانک آکر اُمّی سے چمٹ جایا کرتی تھی۔ اس کے کپڑے اور ہاتھ چہرہ وغیرہ بعض دفعہ اتنے گندے ہوتے تھے کہ حقیقتاً جھرجھری آجاتی تھی مگر اُمّی اس کو اس طرح پیار سے اپنے ساتھ لگا لیتی تھیں اور چہرے پر تأثر تک نہیں آنے دیتی تھیں کہ کوئی کراہت آرہی ہے حالانکہ خود بہت ہی صاف اور نفیس تھیں ۔ اُمّی کا یہ تعلق ہر عمر کی خواتین، جوان بچیوں بلکہ چھوٹی عمر کے بچوں سے بھی بہت گہرا تھا۔ ایسے بہت سے غیرازجماعت بلکہ غیر مذاہب سے بھی تھے جو ایک دفعہ مل لیتے تو پھر اُمّی کے اخلاق کو ہمیشہ یاد رکھتے۔ بہت دعا گو تھیں سب کے لئے دعائیں کرتیں مگر اپنے لئے جس کو بھی دعا کے لئے کہتیں یہی زور ہوتا کہ میرے انجام بخیر کے لئے دعا کریں ۔
ایک دفعہ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ صبح صبح ہمارے گھر آئے۔ ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ایک ڈبہ تھا جس میں تین گلاب جامن اور دو بالو شاہیاں تھیں ۔ انہوں نے اُمّی کو دیتے ہوئے کہا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک پلیٹ میں تین گلاب جامن اور دو بالوشاہیاں ہیں اور مجھے کہا گیا ہے کہ یہ مٹھائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھجوائی ہے اور یہ آپؐ، حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی طرف سے باچھی کے لئے ہیں ۔ تو میں صبح صبح یہ مٹھائی خرید کر تمہارے پاس آیا ہوں ۔ یہ خواب سن کر اُمّی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس مٹھائی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ہم سب کو کھلائے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا پیغام آیا کہ مجھے بھی اس میں سے کھلاؤ تو اُن کے لئے بھی لے کر گئیں ۔ اسی طرح ماموں طاری (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) آئے اور اُن کے کہنے پر اُن کو بھی کھلائی۔
وفات سے کچھ عرصہ پہلے اُمّی نے خواب دیکھا کہ میں سڑک پر چلتے چلتے تھک کرکنارے پر بنی ہوئی چھوٹی دیوار پر بیٹھ گئی ہوں اتنے میں ایک کار آکر رکی ہے اس میں سے حضرت مصلح موعود اترے ہیں اور مجھے کہتے ہیں باچھی تھک گئی ہو؟ آؤ میرے ساتھ کار میں چلو۔
ان کی وفات پر سارے پاکستان سے لوگ سخت گرمی کے باوجود ربوہ پہنچے۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین کی اکثریت ایسی تھی جو اپنا ذاتی دکھ محسوس کرتے ہوئے مسلسل رو رہی تھیں ۔ سخت گرمی اور پیاس کے باوجود لمبی لائنوں میں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ انتہائی صبر سے صرف آخری دیدار کے لئے کھڑی رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں