محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8 اپریل 2022ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍اگست 2013ء میں محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 27؍دسمبر 2012ء کو ٹورانٹو (کینیڈا) میں انتقال کرگئیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مرحومہ نے خاوند کے علاوہ چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑیں۔
محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ کے والد محترم چودھری خدابخش صاحب غوث گڑھ (ریاست پٹیالہ) کے رہنے والے تھے اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ خلافت ثانیہ میں بیعت کی تو شدید مخالفت ہوئی۔ برادری نے گاؤں کے کنویں سے پانی لینے پر بھی پابندی لگادی اور گاؤں والوں کو آپ کے کام کرنے سے روک دیا۔ مشکلات کے باوجود آپ نے ایمان میں ثابت قدمی دکھائی اور اپنی بیٹی یعنی ہماری والدہ کی شادی بھی احمدی خاندان میں کی۔
محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ کے رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت رچی بسی تھی۔ عبادت کا خاص ذوق تھا۔ نماز تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتیں۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھنا معمولِ زندگی تھا۔ ہر رمضان میں کم از کم تین مرتبہ قرآن مجید کا دَور مکمل کرتیں۔ تجرید بخاری مترجم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب خصوصاً ’’حقیقۃالوحی‘‘ بہت عقیدت سے پڑھا کرتی تھیں۔ دعاؤں اور درودشریف پر زور دیتیں۔ خلافت کی ہر تحریک پر لبّیک کہتیں۔ خلافتِ رابعہ میں ایک تحریک پر اپنا سارا زیور پیش کردیا۔ چندہ جات بروقت ادا کرتیں۔ ایک مرتبہ جب سال ختم ہونے کو آیا اور چندہ ابھی بقایا تھا تو آپ نے وہ بھوسہ جو جانوروں کے لیے پورے سال کے لیے ذخیرہ کیا ہوا تھا، اُسے فروخت کردیا۔
بھابھڑہ ضلع سرگودھا میں آپ جب تک مقیم رہیں، وہاں آنے والے مربیان اور مرکزی مہمانوں کا خاص خیال رکھتیں۔ اُن کے کھانے، کپڑوں کی دھلائی اور استری وغیرہ کا انتظام خود کرتیں۔ بھابھڑہ میں لجنہ آپ نے قائم کروائی اور سالہاسال تک وہاں کی صدر اور پھر نگران حلقہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ربوہ میں قیام کے دوران بھی اپنے محلّوں میں خدمت کرتی رہیں۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور مضافات میں بھی اکثر جایا کرتی تھیں۔ آپ کی ایک بیٹی جب اپنے حلقے کی صدر لجنہ بنی تو آپ نے دو باتوں کی نصیحت کی۔ اوّل یہ کہ تکبّر نہ کرنا اور دوسرے اگر کوئی ممبر لجنہ ملنا چاہے تو وقت دینا اور اُس کی بات ہمدردی سے سننا۔
اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ غیرمعمولی سلوک تھا۔ ایک بار کسی جماعتی دورے سے واپس آرہی تھیں تو گھر کے پاس پہنچ کر علم ہوا کہ قیمتی چادر کہیں گر گئی ہے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا اور واپس جاکر تلاش کرنا بھی مشکل تھا اس لیے انّاللہ پڑھ کر گھر آگئیں۔ کچھ ہی دیر بعد کوئی آدمی وہ چادر لیے آیا کہ مَیں فلاں راستے سے آرہا تھا تو آپ کی یہ چادر ملی۔
ایک بار کسی معاملے میں بہت پریشانی سے دعا کررہی تھیں تو عالمِ رؤیا میں ایک بزرگ تشریف لائے اور بڑی شفقت سے کہا کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جب بھی پریشانی ہو تو مجھے بتادیں، وہ پریشانی دُور ہوجائے گی۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد جب وہ بزرگ جانے لگے تو آپ نے اُن کا پتا پوچھا تاکہ بعد میں بھی رابطہ کرسکیں۔ انہوں نے کاغذ مانگا اور اُس پر ’’ا‘‘ یعنی الف لکھ کر آپ کو دے دیا۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک آپ کے ساتھ رہا اور اکثر دعائیں شرفِ قبولیت پاتی رہیں۔
خوابوں کی تعبیر بھی کرتیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کی بشارت دی تھی۔ اسی طرح میرے (مضمون نگار کے) ہاں بھی چار بیٹوں کی پیدائش کی خبر آپ نے کئی سال پہلے ایک خواب کی بِنا پر دے دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وفات کے بارے میں بھی پہلے سے بتادیا تھا۔ چنانچہ جب ہسپتال میں داخل تھیں تو والد صاحب کو دل کے مریض ہونے کی وجہ سے ہسپتال نہیں لے جایا جاتا تھا۔ لیکن ایک روز آپ نے اصرار کرکےاُنہیں بُلایا۔ اُن کے آنے پر خلافِ معمول اپنا ہاتھ باہر نکالا اور اُن کے ساتھ مصافحہ کرکے کہا کہ کل مَیں نہیں ہوں گی، مَیں نے آپ کو بخش دیا، آپ مجھے بخش دیں۔ مَیں ایک وصیت کرنا چاہتی ہوں کہ صبر کرنا اور آپ اور بچے رو کر مجھے تکلیف نہ دینا۔ اگلے روز آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ نظامِ وصیت میں شامل تھیں۔ غریب پرور تھیں اور حسب مراتب ہر ایک کا خیال رکھنے والی تھیں۔ بلاتفریق مذہب ضرورت مندوں کی مدد کرتی رہیں۔ اسی حسنِ سلوک کا نتیجہ تھا کہ بہت سے غیرازجماعت آپ کی نماز جنازہ میں بھی شریک ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں