محترمہ علم بی بی صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 7جنوری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍مارچ 2013ء میں مکرم چودھری عطاء الرحمٰن محمود صاحب کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ علم بی بی صاحبہ کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

چودھری عطاءالرحمٰن محمود صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ اپنے گاؤں میں ہمارا گھرانہ اکیلا احمدی تھا لہٰذا نماز باجماعت کا اہتمام گھر پر ہی ہوتا۔ امّی نے مجھے سفید شلوار قمیص کا ایک جوڑا صرف اس غرض سے بنواکر دیا تھا کہ نماز کے وقت یہ صاف کپڑے پہننے ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد آپ اپنی نگرانی میں مجھے اور ہمشیرہ کو قرآن کریم پڑھاتیں۔بچوں کو خلیفہ وقت کی خدمت میں خط لکھنے کی طرف مائل کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ اُن کو کہتیں کہ میری طرف سے حضور کی خدمت میں دعا کا خط لکھ دو اور اپنی طرف سے بھی دعا کی درخواست کرو۔
آپ مجسّم دعا تھیں۔ زبان پر ہر وقت ذکرالٰہی اور درودشریف کا ورد جاری رہتا۔ نماز تہجد کی دعاؤں میں خشوع و خضوع اور تضرّع غالب ہوتا۔ ہمارے والد محترم چودھری محمد طفیل صاحب (وفات 1992ء) کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ روزانہ کئی مہمان آتے جن کی مہمان نوازی والدہ مرحومہ بڑی بشاشت سے کرتیں۔ والد صاحب کے پاس ایک ایک وقت میں دس سے بارہ تک شاگرد بھی رہے جو مستقل کئی کئی ماہ قیام کرتے اور اُن کا کھانا پینا بھی بلامعاوضہ ہمارے ذمہ ہوتا۔

چودھری محمد طفیل صاحب

والدہ محترمہ علم بی بی صاحبہ مختلف دیسی ادویات تیار کرواکے مریضوں میں مفت تقسیم کیا کرتی تھیں۔قریبی دیہات کے لوگ بھی آپ سے دوائیں لینے آتے۔ کسی مریض کو افاقہ ہوتا تو آپ خداتعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتیں۔ غرباء کی نقد مدد بھی کرتیں۔ اپنے گھر کے حصے کرکے خاندان کے دیگر افراد کو مستقل طور پر دے دیے۔ غرض اپنی حیثیت سے بڑھ کر خوش دلی کے ساتھ دوسروں کی مدد کرتیں۔ ہماری ایک خالہ 1982ء میں وفات پاگئیں۔ اُن کی شادی ہمارے چچا کے ساتھ ہوئی تھی۔ امّی نے اُن کے بچوں کو بھی ہمارے ساتھ ہماری طرح ہی پالا اور اُن کی شادیاں کروائیں۔ اگرچہ آپ پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن بہت زیرک اور معاملہ فہم تھیں۔معاملہ سمجھ کر بہترین حل پیش کرتی تھیں۔1974ء کے فسادات کے دوران ہمارے ڈیرے پر قریبی گاؤں سے مسلّح حملہ ہوا۔ ہم سب تو محفوظ رہے لیکن دو حملہ آور زخمی ہوگئے۔ اس پر میرے والد صاحب سمیت چند عزیزوں کو دو تین ہفتے اسیر راہ مولیٰ بننا پڑا۔ میری امّی نے ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
آپ خلافت سے بہت عقیدت رکھتیں اور خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر خوشی سے لبّیک کہتیں۔ جمعہ والے دن خطبے سے بہت پہلے ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ جاتیں۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔ مرحومہ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں