محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ کی یادوں کا سلسلہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍جون 2002ء میں (حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی صاحبزادی) محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے اپنے بزرگوں کے حوالہ سے بہت قیمتی یادیں بیان کی ہیں۔
حضرت اماں جانؓ کے بارہ میں لکھتی ہیں کہ آپؓ کے پیار کا طریق عجیب تھا۔ بچوں سے نفسیاتی نقطہ نظر سے سلوک کرتی تھیں۔ ہم ایک شادی پر حضرت ماموں جان (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ) کے گھر گئے ہوئے تھے۔ چوکے پر دسترخوان بچھا تھا۔ تقریباً سارا خاندان موجود تھا۔ مجھے چند دن پہلے ملیریا بخار ہوکر ہٹا تھا۔ کسی نے مجھ سے قورمہ کا ڈش مانگا۔ بھرا ہوا ڈش مجھ سے گر گیا۔ حضرت میر صاحبؓ کے گھر ہمارا بہت ہی کم آنا جانا تھا، بے تکلّفی نہ تھی۔ مَیں سخت شرمندہ تھی کہ امّاں جانؓ اُس سے ناراض ہونے لگیں جس نے ڈش مانگا تھا اور کہا کہ تمہیں پتہ نہیں وہ بخار سے اٹھی ہے، کمزور ہے، اتنا بوجھل ڈش کیسے اٹھاسکتی ہے؟ غرض میری شرمندگی کو دُور کرنے کی کوشش کی اور مجھے حوصلہ بھی دیا۔
جب کبھی بیمار ہوتے تو اباجان (حضرت نواب عبداللہ خانصاحبؓ) حضرت ماموں جان (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ) کو دکھانے لے جاتے۔ ماموں جان بڑی توجہ سے دیکھتے، نسخہ لکھتے اور کہتے کہ دو چار دن دوائی کھلاکر مجھے بتانا۔ لیکن دوسرے ہی دن چلے آتے کہ کیا حال ہے۔ حالانکہ کوئی سیریس بیماری بھی نہ ہوتی۔ یہ ہمارے بڑوں میں ایک بہت بڑائی ہوتی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتی ہیں کہ میرا بیٹا مودیؔ تین ماہ کی عمر سے ایگزیما سے بیمار تھا۔ ایک روز جب حضرت مصلح موعودؓ ہمارے ہاں لاہور آئے تو میری بہن نے اُسے حضورؓ کو دکھایا۔ اُس کی حالت دیکھ کر آپؓ کا دل بہت خراب ہوا اور حضورؓ کی حالت دیکھ کر ہمیں سخت پریشانی ہوئی کہ ناحق مودیؔ کو حضورؓ کے سامنے لائے۔ پھر حضورؓ ربوہ تشریف لے آئے لیکن روزانہ بچہ کا حال پتہ کرواتے رہے اور ہومیوپیتھک دوا بھجواتے رہے۔ کئی روز یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک بار مجھے وہم ہوگیا کہ حضورؓ مجھ سے ناراض ہیں۔ مَیں سامنے جانے سے کترانے لگی۔ حضورؓ کی فراست سے یہ بات چھپی نہ رہی۔ ایک دن اماں جانؓ کے گھر کی شاہ نشین پر ہم پانچ چھ لڑکیاں کھڑی تھیں۔ حضورؓ بڑی ممانی جان کے گھر سے نکلے۔ شاہ نشین پر ابھی دو تین سیڑھیاں ہی اُترے تھے کہ ایک نظر ہم پر ڈالی اور واپس تشریف لے گئے۔ چند منٹ بعد واپس آئے تو ہاتھ میں اپنا بنایا ہوا عطر تھا جو صرف مجھے دیا۔ یہ پیار جتانے کا ایک انداز تھا کہ مَیں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ اگر سب کو دیتے تو وہ بات نہ بنتی۔
بڑے ماموں جان (حضرت مصلح موعودؓ) کی وفات ہوئی تو خلافت ثالثہ کے انتخاب کے بعد حضرت بھائی جان (خلیفۃالمسیح الثالثؒ) اوپر آئے تو خالہ مریم (حضرت چھوٹی آپاؒ) نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے کہا تھا کہ میرے بعد جو خلیفہ ہو، یہ انگوٹھی اُسے پہنادی جائے۔ حضرت بھائی جان نے وہ انگوٹھی انگلی میں پہننے کی کوشش کی مگر چونکہ بڑے ماموں جان بیماری میں بہت کمزور ہوچکے تھے اس لئے انگوٹھی کے اردگرد نرم سی ململ لپیٹی ہوئی تھی تاکہ گرے نہیں۔ بھائی جان نے وہ ململ اوپر سے اتاری جو مَیں نے مانگ لی۔
حضرت خلیفہ ثالثؒ کی وفات پر خلافت رابعہ کا انتخاب ہوا۔ حضرت صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) سب سے پہلے امّی کے پاس آئے۔ عجیب تصرف الٰہی ہوتا ہے۔ چند منٹ میں امّی کے بے تکلّف طاریؔ، حضرت صاحب اور میاں طاہر بن گئے۔ امّی نے سر پر دوپٹہ لے لیا تھا، نظروں میں بے حد احترام تھا۔ امّی نے گلے لگایا اور بیعت شروع ہوئی۔ امّی نے حضرت صاحب کو انگوٹھی پہنائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں