محترم حکیم احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 جنوری 2011ء مکرم پروفیسر محمد خالد گورایہ صاحب کے قلم سے محترم حکیم احمد صاحب معلّم اصلاح و ارشاد کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
محترم حکیم احمد صاحب کا زیادہ عرصہ ضلع شیخوپورہ میں گزرا۔ ہمارا تعلق جماعت اہل حدیث سے تھا اور آپ کے ساتھ ہمارا بحث و مباحثہ اکثر ہوا کرتا تھا۔ آپ ایک فدائی اور درویش صفت انسان تھے اور تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اگر کسی نے گاؤں میں ایک انڈہ بھی تحفہ میں دیا تو آپ اس کی قیمت لگواکر دسواں حصہ وصیت میں ادا کردیتے۔ اپنے محدود اور قلیل الاؤنس میں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صلحائے امّت، حضرت مسیح موعودؑ اور صحابہ کرام کی طرف سے چندے ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کو ہمیشہ دعوت الی اللہ اور عبادت میں مصروف دیکھا۔ آپ انتہائی دعاگو اور صاحبِ کشف و رؤیا انسان تھے اگرچہ اس کا اظہار تو نہیں کرتے تھے لیکن باتوں سے ہمیں علم ہوجاتا۔ بتایا کرتے تھے کہ اکثر مجھے وقت بتادیا جاتا ہے کہ اٹھو تین بج گئے ہیں تہجّد پڑھ لو۔ اٹھ کر دیکھتے تو ہمیشہ وہی وقت ہوتا جو بتایا جاتا۔ ہمارے گھرانہ سمیت سینکڑوں سعید روحوں نے آپ کی دعا اور کوشش سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔
آپ کی دعوت الی اللہ کا طریق یہ تھا کہ جس کتاب سے اعتراض کوئی کرتا اُسی اعتراض کے سیاق و سباق کو آپ اُسے پڑھنے کے لئے مہیا کردیتے۔ پھر جب تک دوسرے کی تسلّی نہ ہوتی اُس سے مسلسل رابطہ رکھتے۔ اور یہ بھی کہ اُسے دعا کی بھی تلقین کرتے کہ خدا تعالیٰ خود اُس کی راہنمائی کردے۔ چنانچہ اُن کا طریق کار آخرکار کامیاب رہتا۔ دعوت الی اللہ پر جانے کے لئے آپ کی سائیکل، پگڑی، چھتری، لٹریچر کا تھیلا ہمیشہ تیار رہتا۔ تبلیغ کے لئے ٹرین پر بھی سفر کرتے۔ جب مَیں نے احمدیت قبول کی تو مَیں اپنے والدین کے لئے پریشان تھا۔ جب میرے والد محترم نے بیعت کی تو اُن کی عمر 54 سال تھی۔ عقیدہ کی تبدیلی کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ حکیم صاحب کی حکمت ہی تھی کہ 1966ء کے اجتماع انصاراللہ پر انہیں ربوہ لانے کے لئے چند دن ہمارے گاؤں میں ہی قیام کرلیا۔ چنانچہ اجتماع کے موقع پر ہی میرے والد صاحب نے بیعت کرلی۔
آپ کی اہلیہ بھی آپ کے کارخیر میں برابر کی شریک تھیں۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کرنے والی، نہایت دعاگو، قرآن کی تعلیم دینے والی بزرگ ہستی تھیں۔ ان کی اکلوتی اولاد ایک بیٹا (نعیم احمد صاحب آف جرمنی) ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں