محترم حکیم محمد یار صاحب آف جِل بھٹیاں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍مئی 2008ء میں مکرم حوالدار عبدالخالق صاحب کے قلم سے اپنے چچا محترم حکیم محمد یار صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپ کا مختصر ذکرخیر 9؍ستمبر 2009ء کے اخبار میں اسی کالم میں بھی کیا جاچکا ہے۔
محترم حکیم محمد یار صاحب 1937ء میں ضلع جھنگ کے ایک دور دراز علاقے جل بھٹیاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مڈل تک حاصل کرنے کے بعد مستند حکماء سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نہایت ہی خوبصورت، خوب سیرت اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ ملنے والا متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ بچپن سے ہی نمازی اور تہجد گزاراور دعاگو تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شفاء بھی ہاتھ میں خوب رکھی تھی۔
عملی حکمت کا آغاز آپ نے سندھ کے علاقہ ٹنڈوباگو سے کیا۔ ایک مرتبہ ایک وڈیرا سخت بخار کی حالت میں لایا گیا جسے آپ نے بخار کا ٹیکہ لگادیا تو وہ گرکر بے ہوش ہوگیا۔ آپ کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ آپ نے اسے خالی پیٹ ٹیکہ لگا دیا ہے۔ تب آپ نے دل میں دعا شروع کی کہ جو غلطی سرزد ہوئی ہے تو ہی اس پر پردہ ڈال۔ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ چند منٹ میں وہ وڈیرہ پسینے میں شرابور اٹھ بیٹھا۔ اُس نے ہوش میں آتے ہی آپ کو اپنا خاندانی حکیم بنالیا اور ایک سو روپے نقد دینے کے علاوہ ایک بھینس اور آٹا، گھی، چاول وغیرہ آپ کے گھر بھجوادیئے۔ جلد ہی حکیم صاحب علاقہ میں مقبول ہوگئے۔ اور لوگ نہ صرف حکمت میں بلکہ دیگر معاملات میں بھی آپ سے مدد کی درخواست کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک غریب سندھی نے کہا کہ فلاں آدمی نے میرے دو بیل چوری کروا لیے ہیں۔ اُس غریب کی درخواست پر آپ اٹھ کر ساتھ چلے گئے اور وہ بیل اس کو واپس دلا دئے۔
آپ کافی عرصہ سندھ میں رہے پھر اپنے گائوں والوں کے اصرار پر جل بھٹیاں واپس آ گئے کیونکہ پورے علاقہ میں کوئی حکیم نہیں تھا اور شہر بہت دُور ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بڑی تکلیف کا سامنا تھا۔
آپ نے فرض کو ہمیشہ ذات سے افضل سمجھا اور اپنے آرام کی کبھی پرواہ نہ کی۔ کبھی کسی جانور، طوفان یا اندھیری رات کے خوف سے آنے والے کو مایوس واپس نہ جانے دیا بلکہ ساتھ چل دئیے۔ ایک دفعہ گائوں میں ایک مریضہ کی حالت بے حد تشویشناک ہوگئی۔ حکیم صاحب نے تمام دوائیں مرض کے مطابق استعمال کرائیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آخر آپ نے مریضہ کے ورثاء کو بتایا کہ اسے ہسپتال لے جائیں۔ ہسپتال 14میل کی مسافت پر تھا اور اس وقت مریضہ کو چارپائی پر لے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ رات دو بجے مریضہ کا خاوند پریشانی کی حالت میں آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کوئی نہ کوئی دوا ضرور دیں۔ آپ نے چولہے سے دو پڑیاں راکھ کی بنائیں اور اُس کو دے دیں اور پھر وضو کرکے نماز میں گریہ و زاری کرنے لگے کہ راکھ میں ہی مریضہ کے لئے شفا رکھ دے۔ صبح تک مریضہ ہوش میں آگئی تو پھر آپ نے پہلے والی دوائیں ہی استعمال کروائیں اور وہ صحت یاب ہوگئی۔
حکیم صاحب نے کبھی لالچ میں کسی کا علاج نہیں کیا۔ بے شمار غرباء کو مفت دوا دے کر دعائیں سمیٹا کرتے۔ آپ چونکہ مخلص احمدی تھے اس لئے ہرمحفل میں بلاخوف و بے جھجک احمدیت کا ذکر کرتے۔ آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ چنانچہ آپ کی شخصیت کبھی متنازعہ نہ ہوئی حتیٰ کہ غیر از جماعت بھی آپ کو ایک پیر کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔
آپ کا ایک غیرازجماعت بھانجہ حکیم صاحب کی غریب پرور اور شفیق طبیعت سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخراجات کے لئے لمبا عرصہ مالی مدد لیتا رہا لیکن بعد میں اپنے مالی حالات کو بہتر کرنے اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے احمدیوں کی شدید مخالفت شروع کردی۔ چونکہ حکیم صاحب جانتے تھے کہ اب یہ اس کی روزی کا ذریعہ ہے اس لئے آپ نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں