محترم خلیل احمد سولنگی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اکتوبر 2011ء میں مکرم محمود احمد ملک صاحب کے قلم سے محترم خلیل احمد سولنگی صاحب (شہید لاہور) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

خلیل احمد سولنگی ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ جن کی کسی محفل میں موجودگی خوشگوار ماحول پیدا کردیتی تھی۔ آپ عمر میں مجھ سے پندرہ سال چھوٹا ہونے کے باوجود زندگی کے ہر موڑ پرمیرے مشیر اور مددگار رہے۔ وہ ہر تقریب میں اس طرح شامل ہوتے کہ دیکھنے والا مہمان اور میزبان کا فرق نہ کر سکتا۔ انہوں نے مشکل حالات میں دامے، درمے، قدمے، سخنے میرا ساتھ دیا اور مَیں نے زندگی میں جب بھی ان کی ضرورت محسوس کی ان کو ہمیشہ اپنے قریب پایا۔
ہمہ صفت موصوف تھے ۔خلافت سے عشق کا تذکرہ ہو، مرکز ِسلسلہ سے تعلق کا پیمانہ ہو۔غریبوں سے ہمدردی اور ان کی عملی مدد کا پہلو ہو، دوست احباب سے غم خواری کا بیان ہو۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کا معاملہ ہو۔شہداء کے ورثا کا خیال اور ان کی خبر گیری ہو یا کسی بھی مقامی یا مرکزی تحریک میں شمولیت ہو، خلیل سولنگی ہمیشہ صف اوّل میں نظر آتے تھے ۔ آپ چند احباب کے پاس بھی خاصی رقم جمع رکھتے تھے کہ وہ جب بھی کوئی ضرورتمندپائیں اس کی مدد کر دیں اور یہ کہ ان کا نام کسی طور پر ظاہر نہ ہو ۔
آپ ایک Self Madeانسان تھے۔ عملی زندگی کا آغاز واپڈا کی ملازمت سے کیا ۔اس کے بعد ایک معمولی درجہ کی کاروباری زندگی شروع کی۔اپنی محنت، ہمت، جانفشانی اور دیانت دارانہ روش سے کاروبار میں دن بدن ترقی کرتے گئے ۔ اس دوران جماعت اور خدام الاحمدیہ کے لئے عملی طور پر ہمیشہ وقف رہے۔
کاروبار کے سلسلہ میں پہلے گوجرانوالہ سے لاہور اور پھر پاکستان سے امریکہ شفٹ ہو گئے۔ اور جماعت سے اپنے تعلق کو ہمیشہ پختہ سے پختہ تر کرتے رہے اور ہر جگہ جماعت کی خدمت کا کوئی نہ کوئی موقعہ ڈھونڈ لیتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جس قدر رزق میں فراخی عطا کرتا گیا، صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ میں ان کے اندر اتنی ہی تیزی آتی رہی ۔ اس قدر صائب الرائے تھے کہ ہر شخص ان سے مشورہ کر کے مطمئن ہو جاتا تھا کہ اس سے بہتر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ حل اخلاص، کامل مشاہدہ، معاملہ فہمی ،تجربہ کاری ،دُور اندیشی اور دیانت داری پر مبنی ہوتے تھے۔ جبکہ امراء جماعت کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی خاکساری، عاجزی اور اخلاص پر مبنی ہوتے تھے اور ہر امیر جماعت کے نزدیک وہ جماعت کا اہم اثاثہ تھے۔ جماعتی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور نظام جماعت کی خلاف ورزی ان کے نزدیک سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم تھا۔ جلسہ سالانہ UK کے موقع پر وہ دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوتے اپنی مصروفیات چھوڑ کر فیملی سمیت لندن کا رُخ کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں