محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍نومبر 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم ملک حمید اللہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب کئی بار میرے ہاں قیام کیا کرتے تھے، بہت درویش صفت انسان تھے، ضروریات بہت محدود اور سادہ تھیں، جو کھانا میسر آیا خوشی سے کھالیا، عموماً شلوار قمیص پہنتے جو کثرت استعمال سے بوسیدہ ہوچکے ہوتے لیکن آپ اُن کو رخصت دینے کو تیار نہ ہوتے۔
مالی قربانی کا بہت عمدہ معیار آپ نے قائم کیا۔ خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر لبیک کہنا اپنا فرض اولین سمجھتے۔ ایم۔ٹی۔اے کا اجراء ہوا تو گو سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کو ٹی وی لگانا اور بند کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن بچوں سے ٹی وی لگواکر باقاعدہ دیکھتے۔ ایم۔ٹی۔اے کے لئے قابل ذکر رقم پیش کرنے کی بھی توفیق آپ کو ملی۔ خدمت سلسلہ کی غیرمعمولی توفیق بھی آپ کو عطا ہوئی۔ جماعتی مقدمات کی بلامعاوضہ پیروی کرتے بلکہ بسااوقات کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کرتے۔ 1974ء میں جب جماعتی خدمات کی وجہ سے بعض احمدی وکلاء کا اپنی ذاتی پریکٹس پر توجہ دینا مشکل ہوگیا تو کچھ عرصہ کے لئے وکلاء صاحبان کو گزارہ کے لئے کچھ معاوضہ لفافوں میں بند کرکے پیش کیا گیا۔ لیکن محترم خواجہ صاحب نے وہ لفافہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔
آپ بڑے لائق، دیانتدار، زیرک اور سچے وکیل تھے۔ ملک کا قانون آپ کو ازبر تھا۔ جج صاحبان آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اکثر آپ کی حسب منشاء تاریخ دے دیا کرتے تھے۔ آپ غرباء سے فیس لینے کی بجائے اُن کی مدد کردیا کرتے تھے۔ ایک بار ایک بوڑھی عورت اپنے بیٹے کے مقدمہ قتل کے سلسلہ میں دس ہزار روپیہ لے کر آپ کے پاس آئی اور کہا کہ بیٹا مَیں بہت سے وکیل آزماکر آئی ہوں اور اس مقدمہ میں لُٹ چکی ہوں، یہ آخری دس ہزار بچا ہے۔ میرے بیٹے کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کردو۔ آپ نے مسل ملاحظہ کی اور سات ہزار روپیہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اپیل کے اخراجات کے لئے صرف تین ہزار چاہئیں۔ بہت غریب پرور تھے۔
آپ کے ایک شاگرد وکیل نے بتایا کہ محترم سرفراز صاحب نے مجھے ایک خالی چیک اپنے دستخط کرکے دیا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں جس قدر بھی رقم ہو ، وہ چیک میں درج کرکے نکلوا لاؤں کیونکہ آپ کو ایک ضروری کام سے فوری لاہور جانا تھا۔ مَیں نے بینک میں جاکر دیکھا تو اس مرد درویش کے اکاؤنٹ میں صرف دو سو روپے تھے۔ وہی لے کر آپ کے پاس آیا تو ایک غریب عورت آگئی اور نہایت رقّت آمیز لہجہ میں فریاد کی کہ سردی کا موسم ہے اور اُس کے پاس لحاف نہیں ہے۔ مکرم خواجہ صاحب نے وہی دو سو روپے مجھے دیئے کہ اُس کے ساتھ جاکر اُسے لحاف خرید دوں۔
سچی بات کہہ دینا آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔ پولیس افسران بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ جن پولیس افسران سے سہواً غلطیاں سرزد ہوجاتی تھیں، آپ اپنا کیس ثابت کرنے کے بعد اُنہیں قانون کے شکنجہ میں نہیں کستے تھے لیکن بددیانت پولیس افسروں کے ساتھ آپ کا رویہ بہت درشت ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی پولیس افسر سے سامنا ہوا اور اُس نے تعظیماً کھڑے ہوکر سلام پیش کیا تو آپ نے فوراً کہہ دیا کہ مجھے تم جیسے بددیانت لوگوں کے احترام اور سلام کی کوئی ضرورت نہیں۔ نظام جماعت کے خلاف کسی کی طرف سے کوئی بات بھی آپ کیلئے ناقابل برداشت ہوا کرتی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں