محترم سردار افتخار الغنی صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10؍ستمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 9؍مئی 2013ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ شاہدہ شکورصا حبہ نے اپنے بیٹے محترم سردار افتخارالغنی شہید کی یادوں کو قلم بند کیا ہے جو 28مئی2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید ہوگئے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ عزیزم سردار افتخار الغنی مرحوم کے جدامجدچڑداداسردارروپ سنگھ 17سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے تو ان کا مسلم نام سردار عبدالغنی رکھا گیا۔ اُن کے بیٹے اور مرحوم کے پڑدادا ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ نے حضرت ڈاکٹررحمت علی صاحبؓ کے ذریعہ 1898ء میں افریقہ سے حضرت مسیح موعودؑکی تحریر ی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اور 1901ء میں ہندوستان واپس آئے تو اپنی والدہ بی بی جان صاحبہ، ہمشیرہ مراد خاتون صاحبہ اور دو چھوٹے بھائیوں اقبال غنی اور منظو ر علی شاکر کے ہمراہ قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مراد خاتون صاحبہؓ کا رشتہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب سے تجویز کیا اور حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کو حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحبؓ کے گھر رشتہ لینے کے لیے بھیجا۔ اس طرح حضرت مراد خاتون صاحبہؓ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کے عقد میں آئیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی خوشدامن اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی نانی ٹھہریں۔ افتخار الغنی کے دادا ڈاکٹر احسان علی صاحب بھی قادیان کی بااثر شخصیت تھے اور جماعتی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ اسی طرح شہید مرحوم کے والد محترم سردار عبدالشکور صاحب بھی اپنے حلقہ احباب میں ہردلعزیز تھے اور خلافت سے دل و جان کا تعلق رکھتے تھے۔
افتخار الغنی کے نانا یعنی میرے اباجان (مضمون نگار کے والد)محترم سردار عبدالرحمان کوسردار کا لقب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے دیا تھا کہ تم جد امجد سے سردار ہو، اپنے ساتھ سردار لگاؤ۔ تب سے سب بھائیوں کے نام کے ساتھ سردار لکھا جانا شروع ہوا۔ اباجان کو بھی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ بہت پیار اور لگاؤ تھا۔ انہوں نے ہمیشہ حضورؓ کی زمینوں، کنری کی جیننگ فیکٹری اور دیگر جماعتی کاموں میں اپنے آپ کو وقف رکھا۔ حضورؓ جب بھی سندھ تشریف لاتے تو اباجان اُن کے ساتھ ہی رہتے۔
افتخارالغنی شہید کی شادی میرے سب سے چھوٹے چچا سردار عبدالرشید صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ شہید مرحوم نے اپنے پسماندگان میں بیوہ طیبہ افتخارکے علاوہ دو بیٹے اور دوبیٹیاں چھوڑے ہیں۔

شہید مرحوم بہت حلیم، پیار کرنے والا اورخلافت سے دلی لگاؤ رکھنے والا تھا۔ مختلف جماعتی و تنظیمی خدمات اس کے سپرد رہیں۔ منتظم عمومی، ناظم عمومی، سیکرٹری وصایا حلقہ ماڈل ٹاؤن، محصل اور نائب سیکرٹری امورعامہ کے طور پر خدمت سرانجام دی۔ جماعتی کاموں کو بہت شوق،لگن اور خندہ پیشانی سے کرتا تھا۔ مسجد اور مربیان سے بہت مضبوط تعلق تھا۔ ہر وقت ہنستا مسکراتا چہرہ لیے ہر ایک کی خدمت کے لیے تیار رہتا، کبھی کسی کو انکار نہیں۔ بچپن ہی سے بڑا دینی جوش تھا۔ ہر وقت جان فدا کرنے کو تیار رہتا۔ 1974ء میں فسادات کے دوران ہمارے گھر کی دیوار پر مخالفین ‘‘مرزائی واجب القتل’’ لکھ گئے۔ بہت زیادہ حالات خراب تھے۔ ہم گھر کے دروازے بند کیے بیٹھے تھے کہ نہ جانے کیسے آنکھ بچا کر سات سالہ افتخار دروازہ کھول کر باہر گلی میں نکل گیا اور ہاتھ اوپر اُٹھائے ساری گلی میں شور مچاتا ہوا بھاگتا پھرتا اور کہتا: ’لوگو! سنو ہم احمدی ہیں۔ لوگو! سنو ہم احمدی ہیں ‘۔ بڑی مشکل سے پکڑ کر اندر لائے۔ مگر یہ مچلتا ہی رہا کہ میں نے سب کو بتانا ہے کہ ہم احمدی ہیں۔
شروع سے ہی بہت حساس طبیعت کا مالک اور خدمت گزار تھا۔ اوائل عمر میں ہی جب اس کے ابو کی طبیعت بہت خراب تھی اس نے پہلی بار خون کا عطیہ دیا اور پھر کبھی کسی کو انکار نہ کیا۔ ہمیشہ خون دینے کے لیے تیار رہتا اور یہ سلسلہ ایسا نکلا کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا۔
فرمانبرداری اور اطاعت گزاری شہید کا طرّہ امتیاز تھا۔ انکار کا لفظ تو اس کے پاس تھا ہی نہیں۔ اس کے بڑے بھائی فیض الغنی کی وفات کے بعد اس کی جوان بیوی اور بچے کی سب کو فکر ہوئی تو بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ فیض الغنی کے چھوٹے بھائی افتخارالغنی جس کی عمر اس وقت انیس برس تھی سے بیوہ بھاوج کا نکاح کردیا جائے۔ ایسے فیصلے دیکھنے اور سننے سنانے میں بڑے آسان اورسادہ لگتے ہیں مگر ہوتے بڑے بھاری اور مشکل ہیں۔ میرے فرمانبردار بیٹے نے تب بھی خاموشی سے قربانی دی اور چپ چاپ بڑوں کے فیصلے کے آگے اپنا سر جھکادیا۔ یہ فیصلہ میری بہو اور بیٹے دونوں کے لیے بہت سخت اور بھاری تھا مگر آفرین ہے ان دونوں پر کہ انہوں نے اس بندھن کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا اور بچوں کو ایک جان ہو کر پیار دیا۔ ان میں کسی قسم کی تفریق کبھی پیدا نہ ہونے دی۔
افتخارالغنی سکول کے زمانہ کے دوستوں میں بھی بڑا مقبول تھا۔ اس کے دوست اب بھی آتے ہیں اور آنسوؤں بھری آنکھوں سے یادیں سناتے ہیں کہ افتخار بے لوث، نیک نفس، بے ضرر، ملنسار، مہمان نواز اور ہر وقت خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والا تھا۔ اس کی کسی سے لڑائی نہ تھی نہ کبھی تلخی ہوتی، نہ کبھی برا مناتا، بڑا ہی صلح جُو تھا اور اس کے ساتھ ساتھ بڑا اچھا تیراک بھی تھا۔ سکول میں متعدد انعام لیے۔ اپنی بیوہ بہن اور بچوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ ان کا ہر مسئلہ اپنا مسئلہ سمجھتا۔ میرا ایساخیال رکھتا جیسے میں ایک چھوٹی بچی ہوں، جب کہیں جانا ہوتا تو ہاتھ پکڑ کر لے کر جاتا، سیڑھیوں سے اترتے اور چڑھتے وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا، بازار بھی میرے ساتھ جاتا تو پرس تک اُٹھانے نہیں دیتا تھا۔ مَیں کہتی کہ لوگ ہنسیں گے لیڈیز پرس اُٹھائے پھرتے ہو۔ مگر اُسے پروا ہی نہیں ہوتی تھی۔ باہر سے سیدھا میرے کمرے میں آکر سلام کرکے حال پوچھ کر جاتا تھا۔ میری تمام چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑی اہمیت دیتا تھا۔ میری دوائی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ہر وقت دلجوئی کرنے والا اور پیار لٹانے والا بیٹا تھا۔ ؎

میرے آنگن سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول
جو خدا کو ہوئے پیارے، میرے پیارے ہیں وہی

اپنی بیوی طیبہ سے بڑا پیار بھرا سلوک تھا۔ اس کا ہرطرح سے خیال رکھتا ، اس کے ہر کام میں ہاتھ بٹاتا ، گھر کے کسی کام سے نہیں گھبراتا تھا۔ خوش رکھنے کے بہانے ڈھونڈتا، برتن تک ساتھ دھلاتا تھا۔ بچوں سے ایسا پیار اور دوستی جیسے ان ہی کا ہم عمر ہو۔ خاندان کے سارے بچوں کا ہر دلعزیز چچا تھا۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ گھنٹوں کھیلتا۔
اس کی شہادت سے پہلے بہت سے لوگوں نے خوابیں دیکھیں۔ مرحوم نے تقریباً 20دن پہلے خود خواب میں دیکھا کہ ایک قبر تیار ہوری ہے اور مجھے احساس ہے کہ یہ قبر میری ہے اور دیکھا کہ سارے گھر میں بڑے بڑے کریک آگئے ہیں۔ بہنوںنے دیکھا کہ گھر کی چھتیں گر گئی ہیں۔ دادی نے دیکھا کہ گلی میں دریاں بچھی ہوئی ہیں اور بہت سی عورتیں دریوں پر بیٹھی رو رہی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ہمارے گھر آگئے ہیں اور آتے ہی جارہے ہیں۔ جن میں ہمارے سارے فوت شدہ بزرگ بھی ہیں اور میں کھانے اور بستروں وغیرہ کا انتظام کررہی ہوں۔ ایسی خواب ایک بار نہیں کئی بار دیکھی۔ ایک ہمسائی نے دیکھا کہ لوگ ایک میت کو نہلائے بغیر ہی تابوت میں ڈال رہے ہیں۔ اُس نے کہا کہ میت کو پہلے نہلایا جاتاہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ انہیں نہلانے کی ضرورت نہیں ایسے ہی میت تابوت میں رکھی جائے گی۔
افتخار الغنی 28مئی2010ءکو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے دارالذکر گیا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ سیڑھیوں میں بیٹھاکچھ سوچ رہا تھا جبکہ سب احباب اِدھر اُدھر پناہ حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کچھ کرنے کی ترکیب سوچ رہا ہو۔ ایک اَور عینی شاہد کہتے ہیں کہ وہ بڑی آسانی سے اپنی جان بچا سکتا تھا ،ہم نے کافی اشارے بھی کیے مگر وہ بےبس نظر آرہا تھا جیسے سمجھ نہ آرہی ہو کہ حملہ آوروں پر کیسے قابو پایا جائے۔

میں صدقے اس خدا کے جس نے میرے بیٹے کو اتنی ہمت طاقت دی کہ ایک بہادر فوجی کی طرح ایک دہشت گرد کی طرف لپکا اوراسی کشمکش میں دہشت گرد کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ اس طرح اپنے خون کا آخری قطرہ بھی اللہ کے حضور پیش کر دیا اور بہادری اور شجاعت سے بہت سی جانوں کو بچاتے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہوگیا۔
پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ11جون2010ء میں اس کا ذکرخیر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: دو سال قبل اپنی کہی ہوئی بات کو مرحوم نے سچ کردکھایا۔ واقعہ یوں ہے کہ قادیان جلسہ پر جانے اور آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لیے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں ڈیوٹی تھی۔ کسی مہمان نے پوچھا کہ اگر مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ ہوجائے تو تم لوگ کیا کرو گے؟ فوراً پلٹ کر بڑے جوش سے جواب دیا کہ ہم انشاء اللہ ثابت قدمی سے مقابلہ کریں گے۔ اپنے بہن بھائیوں کو بچاتے ہوئے خدا کی طرف راہ لیں گے۔ یقیناً اس بات کو مرحوم نے سچ کر دکھایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں