محترم سردار سلطان علی خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍ستمبر2006ء میں مکرم قریشی محمد اسلم صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنے والد محترم سردار سلطان علی خان صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 1900ء میں سردار نجو خان قریشی صدیقی کے ہاں پیدا ہوئے۔ یہ موضع کنوئیاں (پونچھ) کا انتہائی خوشحال گھرانہ تھا۔ محترم سلطان صاحب تعلیم یافتہ نہ تھے البتہ قرآن پاک درست تلفظ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ وہابی مسلک کے ساتھ تعلق تھا۔ 1924ء میں ایک نہایت خوشحال گھرانے میں مکرم دیوان علی کی بیٹی مہر بی سے شادی ہوئی ۔
اپنے احمدی ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے تھے کہ میں نماز روزہ کا بچپن ہی سے پابند تھا۔ احمدیت کی مشہوری تو عرصہ دراز سے ہو چکی تھی اور لوگ اکا دکا احمدی بھی ہو رہے تھے۔1933ء میں میرے سارے خاندان اور قبیلہ کے افراد احمدی ہو گئے تو میں نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ میں بحث مباحثے میں مسئلہ نبوت پر اٹک جاتا۔ جو بچپن سے اس وقت تک عقیدہ میں راسخ ہو چکا تھا اس میں تبدیلی لانا میرے لئے بالکل ناممکن تھا۔ ان ہی دنوں محکمہ ڈاکخانہ میں ملازمت اختیار کر لی تو ڈاکخانہ پونچھ شہر کے پوسٹ ماسٹر تار بابو ، بابوعبدالکریم قادیانی نکلے جن سے مجھے ہر وقت واسطہ پڑتا تھا اور یہ امرمیرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ کھل کر ان کی حکم عدولی کرنا اورمخالفت کرنا میرا وطیرہ بن چکا تھا۔ بابو عبدالکریم صاحب ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیتے۔ ان کی حلیم طبع اور اخلاق فاضلہ کا یہ سلسلہ قریباً ڈیڑھ دو برس تک چلتا رہا۔ کبھی کبھار میری نادانیوں کی شکایت میرے بڑے بھائی نمبردار عباس علی خان سے کر دیا کرتے جو احمدی ہو چکے تھے۔ بھائی عموماً سمجھاتے بھی رہے تھے۔ لیکن ایک سال میں نے احمدیت سے بچنے کیلئے دعاؤں میں تیزی پیدا کردی نیز تدابیر بھی سوچتا رہتا تھا۔
اسی دوران میں نے ایک رات خواب دیکھی کہ ایک بزرگ نورانی چہرے والے آئے ہیں اور ہاتھ کی چھڑی سے مجھے چوب دے کر کہتے ہیں کہ ’’ تمہارا راستہ اس طرف ہے‘‘۔ میں اس طرف دیکھتا ہوں تو سفید اجلی پوشاکوں میں ملبوس بہت سارے پاکیزہ چہروں والے لوگ آگے کی طرف رواں دواں ہیں اور راستہ بھی پرکشش ہے۔ لوگوں میں زیادہ تر میرے احمدی رشتہ دار بھی ہیں اور کچھ اجنبی لوگ بھی۔ میں جاگ گیا اور چند دنوں کے بعد یہ خواب بھول گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے یہی خواب دوبارہ دیکھا۔ پھر باربار یہی خواب دکھائی دینے لگا۔ دو تین ماہ اسی خواب کو دیکھتے گزرے تو ایک رات میں نے عشاء کی نماز پڑھی۔ نماز کے اندر بھی اور بعد بھی بڑی انکساری سے کافی دیر تک درود شریف کا ورد کیا اور دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے۔ اسی رات پھر وہی نورانی چہرے والے بزرگ خواب میں آئے۔ بڑے جلال اورر عب کے ساتھ تحکمانہ لہجے میں جس میں خفگی اور غصے کا عنصر نمایاں طور پر واضح تھا۔ اپنی چھڑی کی نوک میری دائیں پسلی میں چوب کر کہا تمہیں سیدھا راستہ دکھانے آتا ہوں اور تم ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اور شاید یہ بھی کہا کہ کیا یہ سب لوگ غلط ہیں ؟ بہت سارے سفید لباس میں ملبوس لوگ جوق در جوق ایک سمت کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اس خواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا یہ پہلا دن تھا کہ وہ بزرگ واپس جاتے ہوئے نظر آئے اور میں نے خواب میںہی محسوس کر لیا گویا وہ ناراض ہو کر یا غصہ سے واپس جا رہے ہیں۔ اس صبح غسل کر تے ہوئے چھڑی کے چبھنے والی جگہ پر سرخی سی دیکھی اور ہلکا سا درد بھی محسوس ہوا۔
ڈیوٹی پر حاضر ہوا تو ڈاک میں ایک ایسا رسالہ بھی تھا جس کا اوپر والا بائینڈنگ کاغذ پھٹا ہوا تھا۔ رسالہ کے پہلے ہی صفحہ پر ایک انتہائی حسین و جمیل کسی بزرگ کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ مجھے وہ تصویر جانی پہچانی سی لگی۔ یک لخت ایک جھماکا سا ہواکہ یہ تو خواب والے بزرگ کی تصویر ہے۔ تصویر میں وہ چھڑی بھی ہاتھ میں موجود تھی۔ میں نے دھڑکتے دل سے بابو عبدالکریم صاحب سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعود مہدی موعود ہیں۔ میں نے اپنی خواب سنائی اور پھر قادیان جانے کی تیاری کرلی۔ گرمیوں کے دن تھے، سحری کے وقت قادیان جاپہنچا۔ فجر کی نماز مجسم نُور حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھائی۔ پھر درس ہوا اور اس کے بعد بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ فرداً فرداً لوگ بیعت کررہے تھے۔ میں نے بھی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ جسم پر عجب سی کپکپی طاری تھی۔ یہ 1937ء کا موسم گرما تھا۔ چند روز مزید قادیان میں رہا۔
جب واپس گھر پہنچا تو ایک بکرا صدقہ دیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے سچے دل کے ساتھ احمدیت قبول کر لی ہے اس لئے تم اگر الگ ہونا چاہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اولاد کے ساتھ ساتھ تم جو شے بھی اس گھر سے لے جانا چاہتی ہو لے جا سکتی ہو۔میری طرف سے کھلی اجازت ہے۔ اُس نیک خاتون نے جواب دیا کہ جس احمدیت کو آپ کل قبول کر کے آئے ہیں وہ تو میں ڈیڑھ دو برس قبل قبول کرچکی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ میری ہی دعاؤں کا ثمر ہے کہ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے۔
میرے والد کی وفات 1972ء میں ہوئی۔ میں نے اپنے والدین کو نماز کا بہت پابند اور چندہ میں باقاعدہ پایا۔ مخلص اور دعوت الی اللہ میں ہر جگہ فعال رہے۔ اور کبھی بھی احمدیت نہیں چھپائی۔ اس وجہ سے مخالفت بھی کافی ہوتی رہی۔ نماز تہجد کا بڑے اہتمام سے بندوبست کرتے تھے۔ بے حد غریب نواز اور دوسروں کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بڑے صلح جو ، تحمل اور بردباری سے دوسروں کی بات سنتے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔ آپ کی اولاد میںدو بیٹوں اور ایک بیٹی نے لمبی عمر پائی اور صاحب اولاد ہیں۔
1947ء میں ہجرت کی اور مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ ایک پناہ گزین کیمپ میں رہنے کے بعد 1952ء میں موضع کسراں ضلع اٹک میں آباد ہوئے۔ یہیں آپ 4مئی1972ء بروز جمعۃ المبارک فوت ہوئے اور یہیں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں