محترم سیّد حضرت اللہ پاشا صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2003ء میں مکرم سیّد حمیداللہ نصرت پاشا صاحب اپنے والد محترم سیّد حضرت اللہ پاشا صاحب کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 1923ء میں بیجاپور کے ایک مذہبی سنی گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید صاحب حسینی تھا۔ پاشاؔ ایک لقب تھا جو اجداد کو ملا لیکن پھر نام کا حصہ بن گیا۔ آپ کے جداعلیٰ ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔
بچپن سے ہی آپ اندھی تقلید کی بجائے منطقی تحقیق کے قائل تھے چنانچہ آپ کے والد کو یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں آپ بے دین نہ ہوجائیں۔ جب آپ نے احمدیت قبول کی تو آپ کے والد نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ دین کے معاملات میں منطقی فکر رکھنے والے یا تو احمدی ہوجاتے ہیں یا دہریہ؟۔ آپ نے جواب دیا کہ جنہیں ایمان نصیب ہوجائے وہ احمدی ہوجاتے ہیں اور جنہیں نصیب نہ ہو وہ دہریہ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ مروجہ عقائد کو خلاف عقل پاتے ہیں۔
آپ نے بچپن سے ہی دعا کو حصول مراد کے علاوہ حصول راہنمائی کے لئے ایک مجرب نسخہ پایا۔ دعا کے نتیجہ میں زندگی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ نے بارہا آپ کی راہنمائی فرمائی۔ احمدیت بھی ایک خواب کے نتیجہ میں قبول کی۔ 1951ء میں حکومت نے اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے آپ کو امریکہ بھجوایا تو وہاں مربی سلسلہ محترم خلیل احمد ناصر صاحب سے رابطہ ہوا۔ امریکہ میں اسلام کا دفاع کرتے ہوئے آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام سے بھرپور استفادہ کیا حالانکہ آپ احمدی نہیں تھے۔ ایک پادری کے ساتھ بھی آپ کا مناظرہ 1953ء میں آسٹنؔ کے YMCA ہال میں منعقد ہوا جس میں فتح کے بعد آپ نے سوچا کہ اسلام کی فتح حضرت مرزا صاحب کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ آپ نے حضورؑ کے ایک اشتہار میں بیان کردہ طریق کے مطابق استخارہ شروع کیا تو چند ہی دن میں شرح صدر ہوگیا اور ستمبر 1953ء میں آپ نے بیعت کرلی اور پھر تبلیغ میں بہت مستعد رہے۔ اپنے والد، بھائی بہنوں اور عزیزوں کو بھی خطوط لکھے۔ سخت ردّعمل ہوا لیکن آپ نے صبر اور حوصلہ سے تمام حالات کا سامنا کیا۔ 1953ء میں ہی نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے۔
اقتصادیات میں M.Scکرکے امریکہ سے پاکستان واپسی سے قبل ہی سرکاری اداروں میں آپ کے قبول احمدیت کی اطلاع ہوچکی تھی۔ چنانچہ پاکستان آکر نو ماہ تک آپ کا نہ تقرر کیا گیا نہ کوئی تنخواہ ملی۔ ایک روز آپ نے نماز کے دوران اپنی تقرری کا خط دیکھا جس پر تاریخ بھی درج تھی۔ اُسی تاریخ کو آپ کو خط جاری ہوا جس کا مضمون آپ کو دکھایا جاچکا تھا۔ 5؍نومبر 1961ء میں آپ کی شادی مکرمہ سیدہ امۃالرفیق صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ سے ہوئی۔ 1967ء سے 1970ء تک آپ دوبارہ امریکہ مقیم رہے اور ایگریکلچر اکنامکس میں M.Sc کی۔ اس دوران بھی کئی چرچوں میں تبلیغی لیکچر دیتے رہے۔
قرآن کریم کا مطالعہ غور سے کرتے اور حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کا بار بار مطالعہ کرتے۔ اکثر رات دو بجے بیدار ہوجاتے اور فجر تک نماز اور مطالعہ میں مصروف رہتے۔ کہتے کہ میرا دمہ بڑا مبارک مرض ہے، یہ مجھے تہجد کے لئے جگا دیتا ہے۔ گھر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرتے اور بہت دلنشیں تلاوت کرتے۔ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بہت حسن سلوک رکھتے۔ ہماری دلچسپیوں میں دلچسپی لیتے اور گھر میں تبادلہ خیالات کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے۔
مختلف اوقات میں قائد ضلع و علاقہ حیدرآباد، قائد ضلع لاہور، سیکرٹری اصلاحی کمیٹی کراچی ، سیکرٹری تعلیم القرآن کراچی، رکن مرکزی صدسالہ جوبلی سٹینڈنگ کمیٹی اور ڈائریکٹر ناصر فاؤنڈیشن کی حیثیت سے خدمت کی لیکن جو پہلو ہر چیز پر حاوی رہا وہ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ حتی کہ مرض الموت میں بھی عیادتمندوں اور ڈاکٹروں کو تبلیغ کرتے رہتے۔
آپ کو ایک رؤیا میں بتایا گیا تھا کہ آپ کی وفات خلافت رابعہ میں ہوگی۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنی اہلیہ سے کہا: ’’جو ہوگا عید سے پہلے ہوگا‘‘۔ چنانچہ 14؍نومبر 2002ء (بمطابق 8؍رمضان المبارک) وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں