محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 15 فروری 2019ء)

انگریزی ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ امریکہ جولائی 2012ء میں مکرمہ سیّدہ عزیزہ خان صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب 5؍ستمبر 1928ء کو ضلع جہلم کے گاؤں پنڈوری میں مکرم سیّد رسول شاہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک سکول ٹیچر تھے۔ آپ کو ابتدائی تعلیم کے بعد قادیان بھجوادیا گیا جہاں آپ چند سال تک مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے زیر تعلیم رہے۔ تاہم ڈگری حاصل کرنے سے کچھ دیر پہلے اپنی دلچسپی کی بنیاد پر رسول انجینئرنگ کالج میں داخل ہوگئے اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں کچھ عرصہ ناظم آباد کالونی کراچی کی آبادکاری میں ملازم رہے۔ اسی دوران نظام جماعت کے تحت ربوہ کے شہر کو بسانے میں اعزازی خدمت کی توفیق پائی۔ نیز پاکستان کے دوسرے بڑے ڈیم منگلا کو بنانے والی انجینئرنگ ٹیم کا بھی حصہ رہے۔
1955ء میں امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں سول انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کو داخلہ مل گیا۔ ڈگری حاصل کرلینے کے بعد آپ نے ورجینیا کے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے سول انجینئرنگ میں ماسٹرز بھی کیا اور پھر امریکہ میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ پھر آپ نے اپنے بڑے بھائی کو بھی امریکہ بلالیا اور انہوں نے بھی انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
محترم شاہ صاحب دیانتدارانہ رہنمائی اور مدد کا ایسا ذریعہ تھے کہ بے شمار لوگ اپنی متفرق مشکلات کے دوران آپ سے مشورہ اور دعا لینے آیا کرتے۔ چنانچہ کبھی ٹوٹتے ہوئے گھرانے بخوشی بسنے لگتے اور کبھی کوئی صدق دل سے اقرار کرتا کہ آپ کی دعا اور مشورہ سے اُس کی جمود میں مبتلا زندگی کے سفر میں نئی راہیں جنم لے رہی ہیں۔ تاہم آپ کی گفتگو کا اختتام ہمیشہ اسلام احمدیت کی دعوت پر ختم ہوتا۔ حتیٰ کہ جب آپ دل کے حملہ اور گردوں کے فیل ہونے کے امراض میں مبتلا ہونے پر ہسپتال میں داخل تھے اور بہت کمزوری محسوس کررہے تھے تو بھی ہسپتال کے عملہ کے ایک فرد کو کافی دیر تبلیغ کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی وفات کے بعد اُس نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے خود آپ کی فیملی سے رابطہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ خود اسلام احمدیت کی تعلیم پر صدق دل سے عمل کرنے والے اور ایک چلتے پھرتے مبلغ تھے۔ دینی علم آپ کو قادیان میں زیرتعلیم رہنے سے حاصل ہوا تھا اور عملی طور پر آپ کا نمونہ بطور مسلمان بہت عمدہ تھا۔
خدمت خلق کے میدان میں بھی آپ کو کئی غیرمعمولی خدمات کی توفیق ملی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی نقل مکانی کے دوران آپ کو گاؤں کا ایک خوفزدہ سکھ بچہ ملا جس کے والدین بھارت جاچکے تھے اور وہ اُن سے بچھڑ گیا تھا۔ آپ اُسے اپنے گھر لائے۔ تسلّی دی۔ پھر حفاظت کے خیال سے اُس کی پگڑی اُتار کر اُسے اپنی بہن کے کپڑے پہنادئے اور لڑکی کے حلیہ میں اُسے اپنی سائیکل پر بٹھاکر لمبا سفر طے کرکے بارڈر تک چھوڑ کر آئے۔ اسی طرح امریکہ میں ایک رات ڈرائیونگ کے دوران اچانک آپ کی نظر ایک اُلٹ جانے والی کار پر پڑی جس میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ آپ نے اپنی پروا کئے بغیر کار میں پھنسی ہوئی خاتون کو کھینچ کر باہر نکالاہی تھا کہ اُس کار میں آگ بھڑک اُٹھی۔
محترم شاہ صاحب کے سسرال پاکستان میں گاؤں منڈیر سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ اپنے علاقہ میں اکیلا احمدی گھرانہ تھا اور دُور دُور تک کوئی احمدی نہ تھا جن سے رابطہ ہوسکتا۔ آپ نے اُن کی مدد کرتے ہوئے اُنہیں امریکہ میں بلالیا اور آپ کی وجہ سے ہی وہ جہاں معاشی طور پر مستحکم ہوئے وہاں احمدیت اور خلافت کے ساتھ بھی اُن کا ایک مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ اسی طرح اپنے بھائی کے مشورہ سے آپ نے اپنی خاندانی زرعی زمین اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردی۔ بعد میں اس زمین کو سیراب کرنے کے لئے وہاں ایک ٹیوب ویل بھی نصب کروادیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعوت پر محترم شاہ صاحب مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے۔ آپ نے اپنے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بہت خیال رکھا اور اسلام کو ہمیشہ عملی طور پر ایک آسان مذہب کے طور پر متعارف کروایا۔ گھر میں فجر، مغرب و عشاء کی نمازوں کا باجماعت اہتمام کرتے۔ چونکہ دُور دُور تک کوئی باقاعدہ جماعت قائم نہیں تھی اس لئے دین سکھانے سے لے کر اردو سکھانے تک ساری تعلیم و تربیت گھر پر ہوتی۔
جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے امریکہ کا دورہ فرمایا تو ملاقات کے دوران محترم شاہ صاحب کو شمالی کیلیفورنیا جانے اور جماعت تشکیل دینے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ نے وہاں فوری طور پر ملازمت تلاش کی اور جلد ہی فیملی سمیت منتقل ہوگئے۔ آپ نے دُوردُور بسے ہوئے احمدیوں کی تلاش میں بہت محنت کی اور ہزاروں میل کا سفر اپنی کار کے ذریعہ طے کرکے دو سال میں قریباً ستّر احمدیوں کو نظام سے منسلک کیا۔ اسی تلاش کے دوران معلوم ہوا کہ بہت سے احمدی کہلانے والے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رابطہ بڑھا تو اُن میں سے بعض مستقل طور پر خلافت کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور اس طرح ایک مضبوط جماعت وجود میں آگئی۔ جمعہ کی ادائیگی آپ کے گھر پر ہونے لگی اور آپ کی اہلیہ محترمہ وہاں کی پہلی صدر لجنہ مقرر ہوئیں۔ ماہوار اجلاسات اور دیگر مواقع پر آپ اپنی جیب سے کھانا تیار کرواتے جو آپ کی اہلیہ بخوشی تیار کرتیں۔ یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا تاآنکہ محترم شاہ صاحب اپنے بچوں کے پاس دیگر مقامات پر منتقل ہوگئے۔
محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب نے 31؍جنوری 2012ء کو امریکہ میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں