محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 4 ستمبر 2020ء)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے-
مکرم اظہر احمد بزمی صاحب رقمطراز ہیں کہ دسمبر 2000ء میں خاکسار کی تقرری سکردو میں ہوئی۔ خاکسار اور اہلیہ نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کا پروگرام طے کرلیا اور دفتر رشتہ ناطہ سے بھی تعاون چاہا مگر حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔ ایک روز محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے دفتر ایک کام سے گیا تو یہ پہلا تعارف اور چند منٹ کا کام آپ کی شفقت کی وجہ سے ایک گھنٹے کی مجلس میں بدل گیا۔ آپ میرے گھریلو حالات اور دوسری شادی کی ضرورت سے بھی آگاہ ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مجھے آپ کا پیغام ملا کہ دوسری شادی کا ارادہ ہے تو ہماری بیٹی سے کیوں نہیں کرلیتے۔ چنانچہ چند ماہ میں بات فائنل ہوگئی اور مئی 2002ء میں رخصتی ہوگئی۔ خاکسار اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت سمجھتا ہے کہ شاہ صاحب جیسے خدارسیدہ بزرگ سے ایک تعلق بن گیا۔
اس شادی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔ میری اہلیہ گو شاہ صاحب کی منہ بولی بیٹی ہیں لیکن آپ نے اور آپ کی اہلیہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ حقیقی بیٹی اور داماد کا سا سلوک کیا۔ مجھ کو بہت عزت دی اور بار بار ایک ہی بات کہتے کہ خدیجہ صرف آپ کی بیوی نہیں یتیم بچی بھی ہے اس کا بہت خیال رکھنا۔
آپ کے عزم و ہمّت اور اطاعتِ امام کا یہ واقعہ غیرمعمولی ہے کہ جب آپ جامعہ میں آخری سال کے طالب علم تھے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں سب لڑکے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صرف آپ اور ایک بنگلہ دیشی طالب علم ہوسٹل میں رہ گئے۔حضرت مصلح موعودؓ کو علم ہوا تو دونوں کو بلاکر فرمایا کہ دونوں کرایہ لیں اور سکردو چلے جائیں۔ چنانچہ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ ہم روانہ ہوگئے۔ پنڈی پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلے شمالی علاقہ جات کے پولیٹیکل ایجنٹ سے NOC لینا پڑے گا۔ ہم نے کوشش شروع کی، ایک عزیز سے مدد بھی لی، ایک ماہ گزر گیا لیکن دفتر والے ٹال مٹول کرتے رہے۔ ہمارے کرایہ کے پیسے بھی خرچ ہوگئے تو ہم دونوں نے مشورہ کیا اور ایک جیپ پر سوار ہوکر مظفرآباد پہنچے اور وہاں سے دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سکردو کے لیے پیدل سفر شروع کیا۔ ایک تھیلے میں چند کپڑے، دو موٹی سوتی چادریں اور بھنے ہوئے چنے ہمارے پاس تھے۔ جہاں رات آتی وہاں رُک جاتے اور صبح پھر روانہ ہوجاتے۔مظفرآباد سے ہمیں راستے میں برفانی ریچھ اور جنگلی جانوروں سے ڈرایا گیا تھا مگر ہم دونوں ہر چیز سے بے نیاز محو سفر رہے اور پانچویں دن دوپہر کو قریباً سات سو کلومیٹر کا مشکل سفر طے کرکے سکردو پہنچ گئے۔
سکردو میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور دنیاو مافیہا سے بے خبر سادہ لوگ تھے جن میں سے اکثریت نے پنڈی کا صرف نام سنا تھا اور عملاً کبھی سکردو کی وادی سے باہر نہیں نکلے تھے۔ ہم نے ایک بندے سے بات کی جو تھوڑی بہت اردو جانتا تھا۔ اُس نے دس روپے پر ایک چھوٹا سا کمرہ کرایہ پر دے دیا۔ ایک دیگچی اور چند برتن بھی دیے۔ ہم نے دکانوں سے کچھ چیزیں جمع کرلیں۔ سارا دن گھومتے اور رات کو کمرے میں آکر سو جاتے۔
ایک صبح پولیس کے دو سپاہی آئے اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے بلایا ہے۔ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر نے پوچھا کہ آپ کے پاس NOC ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دیا۔ اُنہوں نے پوچھا پھر سکردو کیسے آئے؟ ہم نے بتایا کہ ہم طالب علم ہیں اور سیر کرتے کرتے پیدل آئے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوئے۔ پھر اُن کے پوچھنے پر بتایا کہ ہم احمدی ہیں۔ انہوں نے پولیس والوں سے کہا کہ دونوں کو سامان سمیت ایئرپورٹ لے جاؤ اور جیسے ہی جہاز آئے ان کو پنڈی بھیج دو۔ اور ہمیں کہا کہ جہاز کی ٹکٹ کے پیسے دو۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ ایک سپاہی نے کہا کہ یوسف دیوانی صاحب احمدی ہیں جو سکردو میں کاروبار کرتے ہیں، ان سے ٹکٹ کے پیسے لیے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ دیوانی صاحب کو بلواکر ہماری ٹکٹ کے پیسے لیے گئے اور ہمیں خچروں پر بٹھاکر ایئرپورٹ پہنچاکر ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیا گیا اور ایک سپاہی ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ وہ دروازہ کھولتا تو ہم قضائے حاجت اور وضو کے لیے باہر نکلتے۔ دو دن بعد ڈیکوٹر جہاز آیا تو اُس پر سوار کرکے پنڈی بھیج دیا گیا۔ پنڈی پہنچ کر ہم نے رپورٹ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھیجی تو حضورؓ نے ہمیں طلب فرمایا اور دونوں کو گلے لگاکر فرمایا کہ مجھے ایسے ہی باہمت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس محبت سے آپ کے محاسن بیان فرمائے مجھے عرب کے مشہور شاعر متنبّی کا یہ شعر یاد آگیا جو اُس نے کسی قبیلے کے سردار کی وفات پر کہا تھا:

مَا کُنْتُ اَحْسِبُ قَبْلَ دَفْنِکَ فِی الثَّریٰ
اِنَّ الْکَوَاکِبَ فِی التُّرَابِ تَغُورُ

کہ اے معزّز شخص! تیرے وفات پاکر مٹی میں دفن ہونے سے پہلے مَیں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی ستارے بھی زمین میں چھپ سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں