محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 11 ستمبر 2020ء)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔
مکرم خواجہ منظور صادق صاحب لکھتے ہیں کہ مرکز احمدیت جاکر پڑھنے کا جذبہ مجھے 1959ء میں ربوہ لے گیا۔ وہاں جاکر نویں جماعت میں داخل ہوا۔ گھر سے جدائی اور اُس زمانے کا ربوہ، ہر وقت مغموم رہنے لگا۔ اس غریب الوطنی میں کشمیری ہونے کے ناطے محترم شاہ صاحب سے شناسائی ہوئی۔ آپ نے بہت ڈھارس بندھائی۔ مَیں اکثر آپ کے پاس جانے لگا۔ آپ مجھے بہت تسلیاں دیتے اور اپنے بارے میں بتاتے کہ کس طرح اکیلے آئے اور کوئی عزیز یہاں نہیں ہے۔ اس لیے گھبراؤ نہیں جب چاہو میرے پاس آجایا کرو۔ الغرض آپ کے ساتھ جو تعلق اُس وقت قائم ہوا وہ زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ 1966ء میں آپ نے ایم اے اور خاکسار نے بی اے کیا۔
آپ سے آخری ملاقات آپ کی وفات سے ہفتہ عشرہ قبل آپ کے دفتر میں ہوئی۔ پاؤں متورم تھے، کرسی کے پاس عصا رکھا تھا، چہرے سے کمزوری کے آثار نمایاں تھے۔ باتیں وہ ہمیشہ آہستہ ہی کرتے تھے مگر اب تو کان لگاکر اور نزدیک ہوکر اُن کی بات سننا پڑتی تھی۔ رفیقہ حیات کی وفات کے صدمے نے اندر سے نڈھال کردیا تھا۔ مگر یہ مرد مجاہد اس حال میں بھی اپنے جماعتی فرائض سے عہدہ برآ ہورہا تھا۔
کشمیری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا تو آپ نے اس نوٹ کے ساتھ ایک نسخہ مجھے دیا کہ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو مطلع کریں۔ چنانچہ خاکسار نے بعض اغلاط کی نشاندہی کی تو آپ نے پوری بشاشت اور خوشدلی سے نہ صرف ان غلطیوں کو تسلیم کیا بلکہ میرا حوصلہ بڑھایا اور شاباش دی۔ آپ نے اپنے جوابی خط میں لکھا: ’’… مَیں 1949ء میں کشمیر سے آگیا تھا اور اس سے پہلے 1941ء تا 1947ء بھی قادیان میں گزرے تھے اس لیے مجھے صرف بول چال کی سماعی زبان ہی آتی تھی۔ جب غلام نبی صاحب ناظر نے قرآن کریم کا کشمیری ترجمہ کیا اور ان کے ترجمہ کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مجھے بھجوایا … تو مجھے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے گویا ازسرِنَوکشمیری زبان کو مستحضر کرنا پڑا۔‘‘
خاکسار کو راولپنڈی کی تاریخ احمدیت اور خلافت جوبلی سووینئر کی تدوین کے سلسلے میں کچھ خدمت کرنے کی توفیق ملی ہے۔ خاکسار کو جب بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی آپ نے فوراً مدد کی۔ سووینئر کا مسودہ نظارت اشاعت میں منظوری کے لیے بھجوایا تو آپ نے انتہائی مصروف ہونے کے باوجود اوّلین فرصت میں اس مسودہ کو نہ صرف شروع سے آخر تک پڑھا بلکہ غلطیوں کی نشاندہی بھی کی۔ آپ کے جوابی خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس قدر توجہ سے لفظاً لفظاً سووینئر پڑھا تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا: ’’سوائے دو مقامات کے باقی مضامین قابل اشاعت ہیں۔ …مناسب ہوتا کہ کوئی ایسے مضامین بھی آتے جن میں خلفائے احمدیت کے راولپنڈی میں ورود اور قیام کی کچھ یادیں شامل ہوتیں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں