محترم صاحبزادہ مرزاوسیم احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20اکتوبر 2010ء میں محترمہ سیدہ امۃ القدوس بیگم صاحبہ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے خاوند محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے اخلاق حسنہ پر روشنی ڈالی ہے۔ قبل ازیں محترم صاحبزادہ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 9؍مئی 2008ء اور 28 جون 2013ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
محترمہ امۃ القدوس بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ محترم صاحبزادہ صاحب کی شادی 16؍ اکتوبر 1952ء کو خاکسار سے ہوئی۔ ابا جان (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ) کی وفات سے چند ماہ قبل حضرت اماں جانؓ حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے رشتہ لے کر آئیں تو اباجان نے کہا کہ میری بیٹیاں حضرت خلیفۃالمسیح کے سپرد ہیں جو اُن کا منشاء ہو مَیں اس پر راضی ہوں۔ اس طرح یہ رشتہ طے ہو گیا۔ اکتوبر 1952ء میں محترم میاں صاحب پندرہ دن کے لئے قادیان سے ربوہ آئے، شادی ہوئی جس کے بعد میرے کچھ کاغذات حاصل کرنے کے لئے ہم شیخوپورہ گئے تو واپسی پر نصف رستہ میں حضورؓ کی دوسری گاڑی ملی جس میں آپ کی والدہ اور بھائی بیٹھے تھے۔ انہوں نے حضورؓ کا ایک خط آپ کو دیا کہ جہاں تمہیں یہ خط ملے واپس لاہور چلے جانا کیونکہ یہ اطلاع ملی ہے کہ تمہیں یہاں روک لیا جائے گا اس لئے فوراً لاہور پہنچ کر جہاز کی سیٹ کراؤ۔ اگر سیٹ نہ ملے تو چارٹر جہازکرا کربھی جانا پڑے تو چلے جانا کیونکہ اگرتم یہاں رہ گئے تو مجھے ڈر ہے کہ قادیان خالی نہ ہو جائے۔
حضورؓ کی چٹھی پڑھتے ہی آپ نے فوراً گاڑی مُڑ والی اور لاہور روانہ ہوگئے۔ ایک ہی غم تھا کہ جاتے ہوئے حضورؓ سے نہ مل سکوں گا۔ اگلی صبح ابھی دس نہیں بجے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت چھوٹی آپا بھی لاہور پہنچ گئے۔ حضورؓ نے میاں مظفر احمد صاحب کو بلایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ صرف افواہ ہے اور تسلی دلائی کہ پانچ دن کے بعد اپنے پروگرام کے مطابق یہ قادیان جائیں۔ چنانچہ پھر ایسے ہی کیا گیا۔ حضورؓ خود ایئرپورٹ پر آئے اور جب تک جہاز نظر آ تا رہا دیکھتے رہے۔ خاکسار پاسپورٹ سسٹم جاری ہونے کے بعد مارچ 1953ء میں قادیان پہنچی۔ اس وقت قادیان میں تھوڑی سی عورتیں تھیں۔ آپ نے مجھے پہلی نصیحت یہی کی کہ تم سب کو چھوڑ کر آئی ہو۔ اب یہاں کے لوگ تمہارے بہن بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ محبت سے رہنا اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں شامل ہونا۔
آپ کی طبیعت نہایت سادہ تھی اور یہی سادگی اور خاکساری آپ مجھ سے بھی چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے۔ اس کی عبادت میں شروع سے میںنے ان کو بہت باقاعدہ پایا۔ نماز باجماعت میں بہت باقاعدہ تھے۔ رمضان المبارک میں نمازوں کا الگ ہی رنگ ہوتا تھا۔ ہر وقت باوضو رہنے کی عادت تھی۔ ابتداء میں کئی بار مشکلات کے دن آئے لیکن آپ نے مستقل مزاجی سے کام لیا۔ ایک موقع پر جب حکومت کا خیال تھا کہ درویشوں کو کالج کے ہوسٹل میں منتقل کر دیاجائے تو پہلے باہر مردوں اور عورتوں کو نصیحت کی پھر گھر آکر مجھے کہنے لگے کہ دیکھو ہو سکتا ہے یہ مجھ پر ہاتھ ڈالیں لیکن تم نے ثابت قدم رہنا ہے۔ دعائیں کرنی ہیں رونا دھونا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ آپ کی اور درویشوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی مشکلات کے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے نظارے میںنے دیکھے۔
نمازباجماعت کے بعد ہمیشہ سنتیں اور وتر گھر آکر پڑھتے۔ سوائے وفات سے چند سال پہلے کے تلاوت قرآن کریم اور نماز میں قراء ت بڑی پیاری آواز سے کرتے۔ آخری بیماری میں بھی نماز باجماعت نہیں چھوڑی۔ بعض اوقات مسجد سے آتے تو اتنا تھکے ہوتے کہ نڈھال ہو کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور کہتے کہ اب تم کھانا کھلاؤ، مجھ میں طاقت نہیں۔ سفر میں ہمیشہ مَیں ساتھ رہی۔ مجھے ساتھ بٹھا کر نماز باجماعت پڑھتے۔ جس دن ہسپتال لے کر گئے تو مغرب عشاء کی نماز لیٹے لیٹے ادا کی۔ آپ کا طریق تھا کبھی زیادہ بیمار ہوں اور لیٹے لیٹے نماز پڑھنی ہو تو مجھے پاس بٹھا لیتے کہ تم تھوڑی تھوڑی دیر بعد اللہ اکبرکہتی رہنا کہیں مَیں سو نہ جاؤں۔
شادی کے بعد میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ پانچ سال کے بعد مجھے نیشنیلٹی ملی تو سارے ہندوستان کی سیر کرائی۔ تینوں بچیوںکو بھی اُن کی شادی سے قبل سارے ملک کی سیر کرائی۔ کہتے تھے اِن کو یاد رہے کہ ہم کس ملک میں پیدا ہوئے اور کہاں رہے۔ اپنے سب بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور تینوں بیٹیاں شادی ہو کر دوسرے ملک چلی گئیں۔ جب آتیں تو ان کا پیار دیکھنے والا ہوتا۔ پھر بیٹا بھی پڑھنے باہر چلاگیا۔ آخری عمر میں مجھے بار بار کہتے کہ دعا کرو جب میرا آخری وقت آئے تو میرے چاروں بچے میرے پاس ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی۔ بچوں کو الگ الگ نصیحت کی کہ میرے بعد امی کو کوئی تکلیف نہ ہو وغیرہ۔ مجھے یہی نصیحت کی کہ قادیان نہیں چھوڑنا، عہد کر لو یہیں رہنا ہے جیسے میرے ساتھ رہی ہو۔
خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ بے ہوش ہونے سے تھوڑی دیر پہلے حضور کا فون آیا۔ خود بات کی حضو ر نے دوائیاں بتائیں وہ لکھوائیں۔ اس پر بیحد خوش تھے۔
تقسیم ملک کے بعد کے حالات بہت مشکل تھے۔ ایسے میں جون 1954ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھارت کی لجنات کا کام خاکسار کے سپرد کیا تو مَیں بہت گھبرائی۔ لیکن آپ نے مجھے ہمت دلائی پھر کام کے طریقے آہستہ آہستہ سکھائے۔ یہ احساس نہ ہونے دیا کہ مجھے دفتری کام نہیں آتا۔ قدم قدم پر مجھے سمجھا کر میری مدد کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور ان کے حوصلہ دلانے سے مجھے 44سال یہ خدمت کرنے کی توفیق ملی۔
مہمان نوازی کا جذبہ بہت تھا۔ مجھے پہلے دن سے ہی تاکید کی جب کوئی مہمان ملنے آئے خواہ مرد ہو یا عورت جو چیز گھر میں ہو بھجوا دیا کرو۔ گرمیوں میں خاص طور پر شربت بنواتے۔ خود شوگر کی وجہ سے نہیں پیتے تھے۔ شادی کے بعد ابتداء میں پاکستان کا تو رستہ بند تھا غیر ملک سے جو بھی آتا دعوت پر بلاتے اور کہتے کہ کھانا تم نے پکانا ہے۔ جلسہ سالانہ پر بھی غیر ملکی احباب کو کھانے پر مدعو کرتے۔
سالہاسال قیامگاہ دارالمسیح کا کام کرنے کی خاکسار کو توفیق ملی۔ جلسہ سے قبل نیچے کا بند حصہ کھول کر صبح سے رات تک صفائی کرتی۔ مہمانوں کے لئے بستر رکھتی تو کہتے کہ جلسہ آتا ہے تو تمہیں اتنا کام کرتے دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اکثر کہتے میرا کھانا میز پر رکھ دو میں دفتر سے آکر کھالوں گا تم جلسہ کا کام کرو۔
چندہ جات میں بہت باقاعدہ تھے۔ خصوصیت سے وصیت کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ تھی۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی تحریک ہوتی تو فوراً چندہ ادا کرکے کہتے دعا کرو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول کرے۔ صدقات کثرت سے دیتے۔ تین چار سال سے روزہ نہ رکھ سکتے تھے لیکن رمضان شروع ہوتے ہی اپنا اور میرا فدیہ ادا کردیتے۔ مَیں کہتی میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزے رکھ رہی ہوں تو کہتے کہ فدیہ دینے سے بھی اللہ تعالیٰ روزوں کی توفیق دیتا ہے۔
سفرپر جب بھی ہم جانے لگتے ان کا طریق تھا کہ گھر میں جو بھی ہوتا سب کو بلا کر دعا کراتے۔ صدقہ دے کر گھر سے نکلتے پھر کار میں بیٹھ کر دعا کراتے۔ اپنے دفتری کام کی ذمہ داری کو سب سے اہم سمجھتے۔ وقت پر دفتر جاتے۔ اگر کام ختم نہ ہو تو بعض اوقات تین چار بجے گھر آتے۔ ہاتھ میں فائلیں پکڑی ہوتیں اور رات کو بیٹھ کر کام مکمل کرتے۔
لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھ جاتے تو مجھے کہتے میں بھی گواہ ہوں تم بھی گواہ رہنا یہ فلاں کی یہ امانت ہے۔ اپنے خاندان والوں کی بے شمار امانتیں رقم کی صورت میں آپ کے پاس تھیں۔ جو کوئی کچھ منگا تا اس کے لفافے میں حساب لکھ کر رکھ دیتے۔ وفات کے بعد ساری واپس کی گئیں۔ حساب میں بہت پختہ تھے۔ ایک ایک پائی کا حساب لکھ کر رکھتے۔ بیوگان اور یتیموں کا بہت خیال رکھتے۔ عید پر ان کے گھروں میں ملنے جاتے۔ ہرایک کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔
شکار کا شوق تھا۔ مجھے بھی لے کر جاتے۔ بندوق بھی چلواتے۔ جب بچیاں ذرا بڑی ہوئیں تو ان کو بھی ساتھ لے جاتے۔ بچوں کو سائیکل چلانا، تیرنا، کار چلانی سب کچھ سکھایا۔ خود والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے۔ آخری عمر میں جب خود نہیں کھیلتے تھے تو نماز عصر کے بعد سیر کو نکل جاتے اور گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھیل دیکھتے۔
جلسہ سالانہ 2006ء کے بعد مجھے ٹھنڈ لگ جانے سے نمونیہ ہو گیا تو جالندھر ہسپتال میں داخل کروایا۔ میرے پاس عزیزہ کوکب رہی ۔ لیکن روزانہ دفتر کے بعد مجھے ملنے آجاتے اور شام کو واپس قادیان جاتے تھے۔ اس دوران خود بھی بہت سخت بیمار ہوگئے اورصحت بہت کمزور ہو گئی۔ لیکن باوجود اس کے 2008ء کے کاموں کا آپ کو بہت احساس رہتا تھا۔
وفات سے آٹھ دن قبل تیز بخار چڑھا۔ امرتسر ہسپتال میں ٹیسٹ ہوئے جو سب ٹھیک نکلے۔ ایک ٹیسٹ باقی اگلے روز ہونا تھا۔ لیکن رات سے قبل شدید گھبراہٹ شروع ہو گئی ۔ اسی حالت میں مَیں نے کھانا کھلانے کی کوشش کی تو دو لقمے بہت مشکل سے کھائے۔ پھر یکدم دل کا شدید حملہ ہوا اور کومہ میں چلے گئے۔ اس کے بعد ہوش نہیں آئی اور 29؍ اپریل 2007ء کی شام ساڑھے آٹھ بجے اپنے حقیقی مولیٰ سے جا ملے۔ بے اختیار میرے منہ سے حضرت امان جان کے سنے ہوئے الفاظ نکلے کہ میرے مولیٰ یہ تو مجھے چھوڑ کر چلے گئے لیکن تُو نہ چھوڑیو۔
صبح ہی میرے پیارے آقا ایدہ اللہ کا بہت پیارا تسلی دینے والا فیکس ملا۔ جس سے دل کو بہت سکون ملا۔ حضور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں بھی آپ کے اوصاف کا ذکر کرنے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ: ’’وہ میرے دست راست تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں میرا سلطان نصیر بنایا ہوا تھا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں