محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کے لئے والدہ کے جذبات (2)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍اگست 1999ء میں محترم صاحبزادہ غلام قادر شہید کی والدہ محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ تحریر فرماتی ہیں کہ کسی وقت اُس کی یاد محو نہیں ہوتی۔ مَیں رات کو کروٹ کروٹ اُس کو یاد کرتی ہوں تو مجھے اُس کی بیوی کا خیال آتا ہے۔ اُس کا غم مجھ سے بھی زیادہ ہے حالانکہ میرے اپنے غم کا کوئی کنارہ نہیں۔

14؍اپریل کو یہ کہہ کر گیا کہ ساڑھے دس بجے تک آ جاؤں گا۔ نو بجے چنیوٹ ہسپتال سے فون آگیا کہ آپ کا بیٹا شدید زخمی ہے اور حالت نازک ہے۔ پتہ نہیں کیسے کار منگوائی اور چنیوٹ روانہ ہوئے۔ لگتا تھا چنیوٹ ہزاروں میل دور ہے۔… صوفی غلام محمد صاحب نے اس کے شادی کے استخاروں میں ایک استخارہ لکھا تھا کہ مَیں نے آخری سپارہ کی کچھ آیات پڑھی ہیں۔ خواب میں تعبیراً اُس کا مطلب ہے کہ عمر طویل ہوگی، ہر دلعزیز ہوگا، اونچی شان ہوگی اور شہرت پائے گا۔ مجھے اُن کی خواب یاد آتی تھی اور تسلی ہوتی تھی مگر کیا پتہ تھا کہ یہ طویل عمری اُس کی قربانی ہے۔ اس سے طویل کس کی عمر ہوگی؟۔ خوابوں کی تعبیریں بھی خواب پوری ہونے کے بعد پتہ لگتی ہیں۔
چنیوٹ ہسپتال پہنچے تو چند منٹ بعد (ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا) مبشر (احمد صاحب) نے کہا کہ آپ لوگ واپس جائیں، ہم بعد میں آتے ہیں۔ مَیں سمجھ گئی مگر مبشر کے منہ سے یہ الفاظ سننے کی ہمت نہیں تھی، نہ مبشر کو کہنے کی ہمت تھی۔ دل ماننے کو تیار نہیں تھا مگر حقیقت حقیقت ہی تھی۔ مَیں نے کہا: خدا! جب تک اُس میں جان تھی، مَیں مچھلی کی طرح تڑپی ہوں۔ اب تیرا حکم نازل ہوچکا ہے۔ اب مَیں صبر کروں گی۔ مَیں روئی دھوئی نہیں، کار میں آکر بیٹھ گئی، خشک آنکھوں سے گھر میں داخل ہوئی اور نوکروں کو منع کیا کہ کوئی آواز نہ نکالے۔
حضرت صاحب کا فون آیا۔ مَیں نے کہا میرا ہیرا بیٹا چلا گیا۔ آپ نے فرمایا: وہ تمہارا ہی نہیں، میرا بھی ہیرا بیٹا تھا۔
بعض فطرتی چیزیں بچپن میں ہی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ قادر چار سال کا تھا۔ از حد تتلا تھا۔ اس کی بہن سال بھر بڑی تھی۔ اُس نے کوئی چیز قادر کو دے کر واپس لے لی۔قادر میرے پاس آیا، چہرے پر صدمہ اور حیرت بھی تھی۔ کہا: ’’امی! شیمیں تو تتریباً تمینی ہے‘‘۔ (امی! سیمیں تو تقریباً کمینی ہے)۔ اتنے چھوٹے بچے کو یہ بات بری لگی تھی کہ کچھ دے کر واپس لیا جائے۔ مَیں اب اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو یاد کرتی ہوں، وہ واقعی بچپن سے ہی ایک خداپرست تھا۔ اُسے کسی بہن بھائی سے مقابلہ نہیں ہوا۔ کس سے زیادہ محبت کی جاتی ہے، کس کو زیادہ دیا لیا جاتا ہے۔
قادر کا بڑا بیٹا سات سال کا ہے۔ کہتا دادی! یہ کیسے ہوتا ہے کہ جوان شہید ہو جاتے ہیں، بڑے نہیں ہوتے؟۔ مَیں نے کہا: مَیں سمجھی نہیں تمہارا کیا مطلب ہے؟۔ کہتا’’جس طرح بابا شہید ہوگئے، آپ نہیں ہوئیں‘‘۔ مَیں نے کہا: بیٹے اگر خدا چوائس دیتا تو مَیں ایک دفعہ نہیں، بابا کے بدلے سو دفعہ شہید ہوجاتی۔ مگر خدا کی یہ مرضی تھی کہ بابا کو یہ رتبہ ملے۔
قادر نے اتنی شاندار کامیابیاں حاصل کیں لیکن کبھی سبز باغ نہیں دکھائے۔ اُسے ہمیشہ سب کچھ خاموشی سے کرنے کی عادت تھی۔ 1983ء میں جب اُس کا پہلا رشتہ اپنی خالہ کی بیٹی سے کیا تو ایک دن آکر کہا کہ مَیں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے، کسی سے ذکر نہ کریں کہ لڑکی کو میرے مستقبل کا پتہ ہونا چاہئے کہ مَیں نے زندگی وقف کرنی ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ یہ وقف کرے گا۔ مَیں تو اسی وقت اٹھی اور سجدے میں گرگئی۔ مجھے لگا آج میری دعاؤں کا ثمر مجھے مل گیا ہے۔… اس رشتہ سے انکار ہوگیا تو مجھے سخت صدمہ ہوا۔ اس پر قادر نے مجھے جو خط لکھا اُسے دیکھ کر مجھے لگا کہ کسی بزرگ نے خط لکھا ہے۔ اُس نے لکھا: ’’آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آخر آپ کو میری بہتری کی ہی فکر ہے نا۔ جو کچھ ہوگیا اور جو کچھ ہونا ہے، اُس میں بھی تو میری بہتری ہی ہوسکتی ہے۔ اور پھر جو چیز جتنی بڑی ہو، اُس کے لئے قربانی بھی اتنی بڑی ہی دینی پڑتی ہے۔… پھر ہمارے وقف کی خواہش تو آپ کو ہماری پیدائش سے بھی پہلے کی ہے جبکہ رشتہ کی خواہش تو چند سال پرانی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دیرینہ اور زیادہ اہم خواہش پوری کردی تو میرا خیال ہے ، اُس کا بھی یہ حق ہے کہ دوسری خواہش کو بھول جایا جائے۔ کیا آپ اس بات پر زیادہ خوش ہوتیں کہ مَیں وقف نہ کرتا مگر میرا رشتہ ہو جاتا۔ اگر نہیں تو پھر میرے خیال میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے۔ …جہاں تک دوسرے رشتہ کا تعلق ہے تو مَیں آپ کی مرضی کے خلاف نہیں کروں گا۔ آپ کہیں گی تو اپنے خیالات بدل بھی لوں گا۔ یہ نہ سمجھیں کہ اگر پہلی دفعہ ایک حد تک مَیں نے آپ کی خواہش کا احترام کیا تو دوسری دفعہ آپ کو اپنی خواہش کے احترام کے لئے مجبور کروں گا۔ ہمارے میں کوئی برابری کا تعلق تھوڑا ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ وقف کے لئے زیادہ، رشتہ کے لئے کم…‘‘۔
اسی طرح ایک اَور خط لکھا ’’لاہور آنے سے پہلے مَیں بڑی امی (حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ) سے ملنے گیا تھا۔ کہہ رہی تھیں میری اَور بھی بیٹیاں ہیں۔ مَیں چپ کرکے بیٹھا رہا۔ ہمیشہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ بڑی امی اپنی کسی خواہش کا اظہار نہ کردیں۔ میرے لئے تو اُن کی حیثیت حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی کی ہے۔ اُن کی خواہش کو ردّ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ مَیں ساری عمر یہ احساس لئے نہیں گزار سکتا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی نے اپنی آخری عمر میں مجھ سے کوئی خواہش کی اور مَیں اُسے پورا نہیں کرسکا‘‘۔ یہ خط اکیس بائیس سال کی عمر میں لکھا۔ اتنی کم عمری میں بھی اُس کے خیالات ٹھوس حقیقتوں پر مبنی تھے۔
مَیں کلمۂ خیر کی بے حد قائل ہوں۔ اگر کوئی برا کلمہ مذاق سے بھی منہ سے نکالے تو مجھے غصہ آجاتا ہے۔ زندگی میں کئی ذاتی تجربے بھی ہیں کہ سنجیدگی سے دعا نہیں کی مگر منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہوگئی۔ سوچتی ہوں کہ قادر نے میری کئی دعاؤں کو جذب کیا ہے جیسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرلیتا ہے۔ قادر کا بڑا بیٹا پانچ سال کا ہوگیا تھا۔ ایک دن ہم سب بیٹھے تھے کہ قادر نے کہا: امی! نچھو کے بچہ ہونے والا ہے۔ مَیں بے حد خوش ہوئی اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا: یا اللہ! دو ہو جائیں۔ خدا نے منہ کی بات پوری کردی۔ آج وہ جڑواں بھاگے دوڑے پھرتے ہیں۔
اسی طرح ہم انجمن کے مکان میں رہتے تھے۔ مَیں چلتے پھرتے یہ پڑھتی تھی

مرا بیٹا جواں ہوگا
خدا کا اک نشاں ہوگا
بڑھے پھولے گا گلشن میں
وہ اس کا پاسباں ہوگا

کسی خاص بیٹے کے لئے نہیں، بس بیٹوں کے لئے دعا کرتی رہتی تھی۔ مگر یہ دعا بھی قادر نے جذب کی۔ جوان ہوا، خدا کا نشان بھی ہوا اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہام کا مصداق ٹھہرا۔ گلشن میں بڑھا پھولا اور گلشن کی پاسبانی کرتے ہوئے جان دی کہ یہی حقِ پاسبانی تھا۔
جب ایف، ایس، سی میں ٹاپ کیا تو اُس سے پہلے مَیں نے اُسے لکھا کہ مَیں دعا کرتی ہوں کہ تم اپنے بہن بھائی دونوں کو beat کرو (کیونکہ انہوں نے بھی پوزیشنیں لی تھیں)۔ وہ دعا بھی اس نے جذب کی اور بورڈ میں ٹاپ کیا۔
بعض دفعہ مَیں سوچتی تھی اور ندامت محسوس کرتی تھی کہ مجھے قادر کے وقف پر اتنا فخر کیوں ہے؟ اتنے واقف زندگی خدا کے فضل سے ہیں۔ دراصل دعائیں کی تھیں۔ شدید خواہش تھی۔ ابھی بیٹے پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ دعائیں شروع کردی تھیں۔ دعا کی قبولیت کا احساس تھا۔ لگتا تھا ایک نعمت مجھے مل گئی ہے۔ مجھے بہت اہمیت تھی۔
وہ میرے گھر کا چودھویں کا چاند تھا جو چودہ شہادت کو شہید ہوگیا۔ نظر دوڑاؤں تو کوئی کمی نہ تھی۔ خدا پورے عروج پر اپنے پاس بلانا چاہتا تھا۔ سو بلالیا۔ راضی ہیں ہم اسی میں …
جب تنہائی میں بیقراری میں آنسو بہتے ہیں اور خود پر اختیار نہیں رہتا تو لگتا ہے قادر پاس کھڑا اپنی تتلی زبان میں کہہ رہا ہے: ’’امی تو تتریباً تمینی ہیں‘‘۔ خود دعائیں کی، پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا کو دے دیا۔ خدا سے سرفروشی، جان نثاری مانگی، اب رورہی ہیں۔ ۔۔بچے! مَیں ’’تمینی‘‘ نہیں۔ قدسیہ تو اسی طرح چٹان کی طرح کھڑی ہے اور شکر کر رہی ہے کہ خدا نے ہمیں یہ سعادت بخشی۔ مگر بچے یہ مامتا بہت بری بلا ہے، یہ آنسو ضبط نہیں کرسکتی۔
قادر کے وقف کی اتنی خوشی تھی۔ قادر کے بعد مجھے لگا میری جھولی اس نعمت سے خالی ہوگئی ہے۔ مگر نہیں۔ میری جھولی میں خدا کے فضل سے پانچ آگئے ہیں اور مجھے کامل امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے وارث پیدا ہوتے رہیں گے۔
کچھ عرصہ ہوا قادر نے حضرت مسیح موعودؑ کو خواب میں دکھا۔ آپؑ نے قادر سے پوچھا: تم کس کے بیٹے ہو؟۔ اِس نے بتایا کہ مَیں قدسیہ کا بیٹا ہوں۔ مَیں نے خواب سنی تو قادر سے کہا کہ تم نے میرا نام اس لئے لیا ہے کہ مَیں نے تمہارے وقف اور خادم دین ہونے کے لئے بے حد دعائیں کی ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے لئے تو خادم دین کی اہمیت ہے۔ آپؑ نے اپنی نسل کے لئے دعائیں بھی خادم دین ہونے کی مانگی ہیں۔
مَیں تو اُس دن سے تمام شہداء کے بچوں کے لئے قادر کے بچوں کے ساتھ دعا مانگتی ہوں۔ ہمارا یہ غم بچے بھولنے نہیں دیتے۔ جڑواں میں سے ایک بچہ تو باپ کو اتنا یاد کرتا ہے کہ ہم خود ضبط نہیں کرسکتے۔ تصویریں لان میں لے جاتا ہے کہ بابا کو سیر کروا رہا ہوں، تصویریں لے کر ٹہلتا ہے۔
مَیں نے اپنے بیٹے کو جزاک اللہ، جزاک اللہ کہہ کر رخصت کیا۔ مَیں نے سوچا کہ مجھے اپنے باپ (حضرت نواب عبداللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ) کو بھی جزاک اللہ کہنا چاہیے جنہوں نے مجھے نیک نسل چلانے کا احساس دلایا۔ جب بھی مجھے تہجد پڑھنے کی توفیق ملی، اباجان کی دردناک آوازیں کانوں میں گونجتی ہیں۔ ربّنا ھَبْ لَنَا …۔ آج پچاس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر یہ آوازیں روز اول کی طرح کانوں میں آتی ہیں۔ گرمیوں میں صحن میں چارپائیاں ہوتی تھیں۔ بڑا سا چوکا صحن میں نمازوں اور کھانے کیلئے بچھا ہوتا تھا جہاں اباجان نماز تہجد پڑھتے تھے اور میری آنکھ دعاؤں کی آواز سے کھلتی تھی اور خاموشی میں عجیب اثر ان دعاؤں کا ہوتا تھا۔ اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد سے بے حد محبت تھی اور خواہش تھی کہ بیٹیوں کی شادیاں پوتوں سے ہوں تاکہ دوہرا خون اگلی نسل میں شامل ہو۔ اُن کو حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں پر کامل یقین تھا، خود بھی دعائیں کرتے اور اولاد کو بھی تلقین کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگوں کی دعاؤں کا وارث بنائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں