محترم عبدالرحیم ساقی صاحب

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبرودسمبر2022ء)

(فرخ سلطان محمود)

ساری زندگی بھرپور خدمت دین کی توفیق پانے والے ایک شریف النفس بزرگ مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب 31؍مارچ 2020ء کو بعدازدوپہر بقضائے الٰہی انتقال کرگئے تھے۔ آپ 31؍دسمبر 1934ء کو موضع رائے پور ریاست نابھہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم رحمت علی صاحب تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد مرحوم کے تایا حضرت چودھری کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ نمبردار آف رائے پور کے ذریعہ سے آئی۔

مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب

قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات کے دوران سکھوں نے مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب کے بھائی عبدالکریم صاحب کو شہید کردیا تھا۔اسی طرح آپ کی والدہ اور ایک چھوٹی بہن کو بھی سکھوں کی طرف سے کیے گئے حملوں کے دوران اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے دوسری مسلم عورتوں کے ساتھ ہی ایک گہرے پانی کے کنوئیں میں کود کر اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا تھا۔ان واقعات کی وجہ سے آپ کو چھوٹی عمر میں ہی سخت صدمات سے دوچار ہونا پڑاتھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں آکر آباد ہوگئے جہاں آپ کے والد صاحب کو ہندوستان میں چھوڑی ہوئی اراضی کے بدلہ میں کچھ رقبہ الاٹ ہوا تھا۔ آپ کے والد محترم نے یہاں پر اپنے کاروبار کا بھی نئے سرے سے آغاز کیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے تخت ہزارہ میں صرف مکرم شیخ محمدرفیق صاحب مرحوم کا اکیلا گھرانہ احمدی تھا۔ لیکن ہجرت کے نتیجے میں محمودپور ضلع کرنال پور (بھارت) سے قریباً 80احمدی گھرانے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوگئے جس کے نتیجہ میں ایک بڑی جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے باقاعدہ امیر مکرم شیخ محمد رفیق صاحب مرحوم اور پہلے سیکرٹری مال ساقی صاحب مرحوم کے والد محترم مقررہوئے۔
1954ء میں محترم ساقی صاحب مرحوم مڈل کا امتحان پاس کرکے اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شامل ہوگئے۔ شروع سے ہی خدمتِ دین کا شوق تھا۔ آپ کو 1958 ء سے 1968ء تک جماعت میں بطورسیکرٹری مال اور بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ تخت ہزارہ خدمت کی توفیق ملی۔ 1968ء میں آپ جماعت احمدیہ تخت ہزارہ کے امیر مقرر کئے گئے۔ آپ نے مسجد سے ملحقہ مہمان خانہ تعمیر کروایا اورمرکزی نمائندگان اور دیگر مہمانان کی پُرخلوص مہمان نوازی کی توفیق احسن طور پر پاتے رہے ۔ 13؍جولائی 1974ء کو تخت ہزارہ کے شرپسندوں نے قریبی علاقوں سے غنڈوں کے مسلح جتھے منگواکر احمدیوں کے خلاف شدید فسادات برپا کرنے کاسلسلہ شروع کردیا۔ اس دوران مسجد کے ایک حصہ کو آگ لگا کر اس پر قبضہ کرلیا اور مہمان خانے کو بھی مکمل طور پر جلادیا گیا۔محترم ساقی صاحب کے کریانہ سٹور کو لُوٹ کر آگ لگادی گئی۔ آپ کی کپڑے کی دکان پر بھی غنڈوں نے قبضہ کرلیا۔ کئی احمدی گھروں کو نذرآتش کردیا گیا۔ اس ہنگامے کے دوران دھوئیں کے زہریلے اثرات کی وجہ سے آپ بے ہوش ہوکر گرگئے۔ شرپسند انھیں بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر اپنی مسجد میں لے گئے اور ان کی طرف سے خود ہی جھوٹے طورپر احمدیت سے انحراف کا اعلان کردیا تاکہ یہ اعلان سن کر دوسرے احمدی بھی احمدیت سے منحرف ہوجائیں۔ جب آپ کو ہوش آیا تو آپ کو مسلح جتھے نے شدید تشدّد کا نشانہ بنایا۔ اُن کے ظلم اور بربریت کی وجہ سے آپ ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے۔ چنانچہ آپ کو گلبرگ لاہور میں آپ کے بھتیجوں کے پاس بھجوادیا گیا جہاں علاج کے بعد آپ کی حالت بہتر ہوئی تووہیں آپ نے اپنا کاروبار بھی شروع کردیا۔
کینال پارک گلبرگ لاہور میں قیام کے دوران آپ نے وہاں کے احمدی احباب کی دینی اور تربیتی ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔ اپنے ایک عزیزکے مکان سے ملحقہ حصہ میں نمازسینٹر کا قیام عمل میں لائے جہاں پنجوقتہ نماز باجماعت کا اہتمام کروایا، کلاسیں لگاکر سادہ و باترجمہ نماز اور ناظرہ و باترجمہ قرآن کریم سکھاتے اور دو صد سے زائد احمدیوں کی تربیت کرکے انہیں ایک فعال احمدی بنانے کی توفیق پائی۔ گلبرگ لاہور میں قیام کے دوران آپ سیکرٹری مال بھی رہے اور اس خدمت کو 2000ء تک احسن رنگ میں نبھایا۔ گھر گھر جاکر لوگوں کو مالی قربانی کی تحریک کرتے رہے اور اسی طرح چندہ کی وصولی اور یاددہانی کی ذمہ داری بھی فردا ًفرداً مل کر ادا کرتے رہے۔ رمضان المبارک کے دوران نمازتراویح بھی پڑھایا کرتے۔ دعوت الی اللہ کا فریضہ بڑی لگن اور دردکے ساتھ سرانجام دیا کرتے۔ کینال پارک میں تبلیغی پروگرامز کاباقاعدگی کے ساتھ اہتمام کرتے جن میں ڈیڑھ صد سے زائد مہمانوں کو مدعو کرکے مرکزی مربیان کے ساتھ مجلس سوال وجواب کا اہتمام کروایا کرتے تھے۔ نیز اپنے لاہور میں قیام کے دوران محترم ساقی صاحب مسجد دارالذکر کے لیے حفاظتی ڈیوٹیاں بھی باقاعدگی سے سرانجام دیتے رہے۔
نومبر2000ء میں آپ ہجرت کرکے لندن آگئے اور یہاں مارچ 2020ء تک نیشنل جنرل سیکرٹری یوکے کے دفتر میں رضاکارانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ علی الصبح دفتر پہنچنے کی فکر ہوتی کہ کب اپنے دفتر پہنچیں گے۔ کئی مرتبہ ناشتہ کیے بغیر ہی دفتر پہنچ جایا کرتے تھے تاکہ صبح سویرے آنے والے مہمانوں کو انتظار نہ کرنا پڑے۔ آپ کو قرآن کریم کے ساتھ بہت محبت تھی ۔روزانہ تین سیپاروں کی تلاوت کیا کرتے تھے اور رمضان کے مہینہ میں روزانہ10سیپاروں کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ لندن میں بڑی عمر کے بعض دوستوں کو بھی قرآن کریم پڑھانے کی سعادت پائی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نظام وصیت میں بھی شامل تھے ۔
محترم ساقی صاحب خلافت کے ساتھ بڑی عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور بچوں اوربڑوں کو ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے ،خلیفہ وقت کا ادب اور ان کی کامل وفا کے ساتھ اطاعت کرنے کی طرف بڑے دردِ دل کے ساتھ نصائح کیا کرتے تھے۔ جمعہ کے دن سب کو وقت سے پہلے بیت الفتوح مسجد میں پہنچنے کی تلقین کرتے تھے ۔ واقفین اور خاص طورپر مربیان کادلی احترام اور ان کے ساتھ محبت کرنے والے وجود تھے۔بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ ہر ملنے والا آپ کے اخلاق کا دلدادہ ہوجاتا تھا۔ دفتر جنرل سیکرٹری میں آنے والوں کو انتہائی محبت اور خندہ پیشانی کے ساتھ کھڑے ہوکر اور آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا کرتے تھے۔ چھوٹا ہو یابڑا ،امیر ہویا غریب ہر ایک کو اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی مہمان نوازی کے وصف کا تذکرہ انگلستان اور دیارِ غیر سے آنے والے سینکڑوں احباب جماعت نے ان کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی پیغامات میں کیا ہے کہ مسجد بیت الفتوح میں آنے والوں کی شائستگی کے ساتھ راہنمائی کیا کرتے تھے بلکہ خود ساتھ جاکر ان کی مدد کیا کرتے تھے۔دفتری کام بڑی ہی تسلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ سرانجام دیاکرتے تھے۔کبھی بھی چہرے پر کسی قسم کی تھکاوٹ یا کام کے بوجھ کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس عمر میں بھی نوجوانوں کی طرح مستعد اور چست ہوکر خدمات بجالاتے رہے ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہونے تک اپنا ہر کام، چاہے عبادت ہویا گھر کے کام کاج، پوری مستعدی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کو 60سال سے زائد عرصہ تک رضاکارانہ طور پر خدمات دینیہ بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی۔

خالد محمود عامر صاحب

آپ کے ایک بیٹے مکرم خالدمحمود عامر صاحب (سابق صدر جماعت احمدیہ کولیئرزوُڈ) بھی سالہاسال سے مختلف جماعتی خدمات کی توفیق پارہے ہیں اور اس وقت دفتر جلسہ سالانہ یوکے اور مجلس انصاراللہ کے دفاتر میں رضاکارانہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ اسی طرح محترم ساقی صاحب مرحوم کی نسل میں کئی افراد خدمت دین میں پیش پیش ہیں۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ 2بیٹے، 5بیٹیاں، متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں نیز اُن کی اولادیں چھوڑی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں