محترم عبدالرشید خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جولائی 2011ء میں مکرم راناعبدالرزاق خان صاحب نے محترم عبدالرشید خان صاحب آف خوشاب کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔

قبل ازیں 6جون 2014ء کے شمارہ کے اسی کالم میں آپ کا ذکرخیر ہوچکا ہے۔ ذیل میں چند اضافی امور پیش ہیں۔
محترم عبدالرشید خان صاحب ابن مولوی عبدالکریم خان صاحب 1933ء کو شہر خوشاب میں پیدا ہوئے۔ محترم عبدالکریم صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں احمدیت قبول کی۔ آغاز میں مقامی طور پر احمدی اور غیراحمدی ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے لیکن 1934ء میں جب احرار کے فتنے نے زور پکڑا تو غیروں نے احمدیوں کو عین جمعہ کے وقت مسجد سے نکال دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ساری صورتحال لکھ دی گئی اور عدالت میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تو حضورؓ نے ایسا کرنے سے جماعت خوشاب کو منع فرما دیا۔ اور فرمایا کہ اس جھگڑے میں نہ پڑیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اور جگہ دیدے گا۔ حضورؓ کا خط آنے کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب نے اسی مسجد کے ساتھ ملحق زمین پیش کردی۔ جس پر آج تک احمدیہ مسجد اور ان کے بھائی عبدالرحیم خان صاحب کے گھر میں مربی ہاؤس قائم ہے۔
محترم مولوی عبدالکریم خانصاحب کے سات لڑکے تھے۔ جن میں سے ایک لڑکا بچپن میں ہی وفات پاگیاتھا۔ باقی چھ نے لمبی عمر پائی۔ ایک کے علاوہ باقی سب صاحب اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبھی خلافت سے وابستہ ہیں۔ محترم عبدالرشید خان صاحب نے پٹواری سے تحصیلدار تک ترقی کی اور ہمیشہ نہایت دیانتداری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں۔ اس لئے غیرمتعصب افسران انہیں بہت پسند کرتے تھے۔
محترم عبدالرشید خان صاحب کے بچپن کے ساتھی اور ہم عمر،ہم جماعت،سکول فیلو،محلہ دار، مکرم رانا عطاء اللہ صاحب پٹواری بیان کرتے ہیں کہ عبدالرشید خان صاحب اور مَیں ایک ہی دن سکول میں داخل ہوئے اور اکٹھے 1949ء میں میٹرک کیا۔ خان صاحب نے فرسٹ ڈویژن لی۔ اُن کے ایک چچا مکرم عبدالرحیم خان صاحب محکمہ مال میں اعلیٰ افسر (یعنی صدر قانون گو) تھے۔ ہمارا میٹرک کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی انہوں نے ہم دونوں کو پٹوارسکول شاہ پور صدر میں داخل کروا دیا۔ پانچ ماہ کی ٹریننگ کے بعد محکمہ نے مجھے پٹواری اور عبدالرشید خان صاحب کو تحصیلدار کا ریڈر رکھ لیا۔
ہماری پہلی تعیناتی میانوالی شہر ہوئی۔ عبدالرشید خان صاحب کے والدین کی اُن کو یہ تاکید تھی کہ جہاں بھی جاؤ وہاں پہلے مقامی جماعت سے رابطہ کرو۔ چنانچہ ہم دونوں نے اسی قاعدہ پر عمل کیا۔ اپنی ملازمتوں کے دوران اگر ہم دونوں کہیں بھی اکٹھے ہوجاتے تو نماز باجماعت ادا کرتے۔ وہ امامت کرواتے۔ خلیفۂ وقت کو خط لکھنے کی عادت مجھے اُنہوں نے ہی ڈالی۔ بہت ہی محنتی اور باخلاق انسان تھے۔ انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہت خیال رکھا۔ خلافت سے عشق تو بچپن سے ہی تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں