محترم عبدالسمیع نون صاحب کا ذکرخیر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍مارچ 2011ء میں مکرم ماسٹر احمد علی صاحب کے قلم سے بھی محترم عبدالسمیع نون صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ برادرم میاں عبدالسمیع نون کے گاؤں ہلالپور اور ہمارے گاؤں ادرحماں میں صرف دو اڑھائی میل کا فاصلہ ہے۔ آپ کے والد حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے اور خاکسار کے چچا سراج دین صاحب سے گہرا دوستانہ اور برادرانہ تعلق تھا۔ جمعہ پڑھنے ادرحماں میں آتے تو گھوڑی ہماری حویلی میں باندھتے۔
میرے ایک چچا محمد الدین عادل نے بطور سرکاری مدرس ہلال پور میں سکول کی ابتدا کی تھی۔ وہاں اس وقت سکول کی کوئی عمارت نہ تھی اور نہ ہی کوئی جگہ مخصوص تھی۔ گاؤں کے ساتھ ہی نون خاندان کے ایک خالی پلاٹ میں بیٹھ کر کام شروع کیا اور کرسی بھی عبدالعزیز نون صاحب کے گھر سے منگوائی۔ اس سکول کے پہلے طالب علم میاں عبدالسمیع نون ہی تھے۔ یہ بات انہوں نے خود مجھے بتائی۔
دونوںخاندانوں کے قریبی تعلقات اتنے تھے کہ کسی خطرہ وغیرہ کی صورت میں عبدالعزیز نون صاحب کوئی آدمی بھیج کر ہمارے خاندان کو مدد کے لئے بلوالیتے تھے۔ 1951-1952ء میں جب میاں عبدالسمیع نون نے سرگودھا میں بطور ایڈووکیٹ پریکٹس شروع کی۔ اس سے قبل آپ کا ارادہ تھا کہ بھلوال میں پریکٹس کریں اور وہاں کی ایک معروف احمدی شخصیت ملک صاحب خان نون کی رہائشگاہ میں عارضی رہائش کی نیّت سے ان کی کوٹھی پر گئے۔ وہاں ملک صاحب خان مرحوم کے ایک رشتہ دار بیٹھے ملے۔ آپ نے اپنا تعارف کرایا کہ میں ہلال پور سے آیا ہوں۔ اُن صاحب نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ آپ نے نام بتایا تو اُس نے پوچھا اتنے دور دراز چھوٹے سے گاؤں میں ایسا عمدہ نام کس نے رکھا ہے؟ آپ نے کہا میرے والد صاحب کے مُرشد نے۔ اس نے پوچھا وہ مُرشد کہاں رہتا ہے؟ آپ نے جواب دیا قادیان میں۔ تو وہ آدمی بولا تم بھی گم گشتہ راہ ہو؟
میاں صاحب مرحوم کہتے تھے مجھے اس شخص کے جملہ سے سخت تکلیف ہوئی اور اسے جواباً کہا کہ مَیں اس جگہ رہائش رکھ کر وکالت کرنے پر لعنت بھیجتا ہوں۔ پھر آپ نے واپس آکر اپنے والد صاحب کو یہ واقعہ بتایا اور پھر سرگودھا کی ضلعی عدالتوں میں کام شروع کیا۔ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میری غیرت ایمانی کی قدر فرمائی۔ سرگودھا میں میری ایسی مدد اور نصرت فرمائی کہ ہر نیا دن پہلے دن سے بہتر ہوا اور ہر مہینہ گزشتہ مہینہ سے بھی حوصلہ افزا ہوتا رہا۔ میں سوچتا تھا کہ اگر تحصیل بھلوال میں کام شروع کیا ہوتا تو آج تک وہیں کا وہیں ہوتا۔ دشمن شر پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں ہماری خیر رکھ دیتا ہے۔
سرگودھا میں میاں عبدالسمیع نون صاحب کو جماعتی خدمات کے بھی وافر مواقع میسر رہے۔ آپ بنیادی طور پر اپنے گاؤں کے نمبردار کے اکلوتے بیٹے تھے اور تین مربع زرعی اراضی کے مالک تھے۔ فراخ دل اور خوش مزاج، اپنے علاقے کی جانی پہچانی شخصیت تھے۔ وکالت کے کام میں بھی خاصے ماہر تھے۔ علاقہ کے رؤسا اپنے عدالتی امور اور مقدمات میں مشورہ اور مدد کے لئے کثیر تعداد میں آپ کے پاس بیٹھا کرتے۔ سب سے دوستانہ اور برادرانہ سلوک تھا۔ ابتدائی ایام میں سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں کرایہ کا گھر لے کر اس میں رہائش رکھی تھی۔ جلد بعد میں وہاں ایک شاندار کوٹھی تعمیر کروائی تھی۔
آپ نے میٹرک کے بعد گریجوایشن تک قادیان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ صحابہؓ اور علماء کی صحبت خاص طور حضرت مولوی شیر علی صاحب سے قربت نصیب رہی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے قرآن مجید کے درسوں میں شمولیت کی بنا پر دینی علم میں بھی خاص وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ قادیان کی تربیت کی وجہ سے ان کی فطری ذہانت و فطانت میں خوب ترقی ہوئی۔ تقریر اور تحریر بہت عمدہ اور دلچسپ اور معلومات افزا اور مؤثر ہوتی تھی۔ آپ کے اخلاص اور وفا کا اندازہ اس ایک جملہ ہی سے لگایا جاسکتا ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے بارے فرمایا تھا۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ جب جماعت میں ایک فتنہ بپا ہوا اور سرگودھا کے قریب رہنے والے تین چار شرپسند آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیرینہ شناسائی اور تعلق وغیرہ کے اظہار کے بعد کہا ’’ہم آپ کو اپنی حقیقت پسند‘‘ پارٹی کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ تو موصوف نے نہایت جرأت اور تحدّی سے انہیں جواب دیا ’’میں ایسی صدارت کو جوتی کی نوک سے ٹھکراتا ہوں‘‘۔ خبردار آئندہ میرے سامنے بھی نہ آنا۔
حضرت مصلح موعودؓ گرمیاں گزارنے کے لئے جابہ تشریف لے جایا کرتے تو آتے یا جاتے ہوئے عبدالسمیع نون صاحب کو میزبانی کا شرف عطا فرمایا کرتے تھے۔
ضلعی اعلیٰ افسران سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے۔ آپ بہت دلیر اور جرأتمند تھے۔ جب 1984ء کے آرڈیننس کے بعد ہلال پور کی مشترکہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے جرم میں دو احمدیوں کو گرفتار کرکے جرمانہ کی سزا ہوئی تو آپ نے برلب سڑک، اپنی ذاتی زمین میں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرائی اور ساتھ تمام سہولیات سے آراستہ گیسٹ ہاؤس بھی تعمیر کرایا۔ گیسٹ ہاؤس کے کشادہ صحن میں ایک بارہ دری بنوا کر اس میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات اور چیدہ چیدہ اشعار لکھوائے۔ مسجد اور گیسٹ ہاؤس کا افتتاح مرکز سے آنے والے بعض بزرگان کے ہاتھوں کرایا اور اس موقعہ پر ایک پُرتکلّف دعوت کا اہتمام کیا اور شیرینی تقسیم کی۔ آپ اکثر جمعہ کی نماز ہلال پور کی اپنی مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔ اس طرح وہاں کے غریب اور کمزور احمدیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو جاتی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں