محترم عبدالعزیز بھامبڑی صاحب

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ستمبر و اکتوبر 2003ء میں مکرم راضیہ سرفراز خان صاحبہ اپنے والد محترم عبدالعزیز بھامبڑی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ 1918ء میں ضلع گورداسپور کے گاؤں بھامبڑ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ساری برادری میں آپ کے والد محترم چودھری عبدالکریم صاحب ہی احمدی تھے۔
محترم بھامبڑی صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں مکمل کی اور مولوی فاضل کے بعد 1937ء میں رضاکارانہ طور پر جماعتی خدمات میں مشغول ہوگئے۔ 1939ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو نظارت امور عامہ میں انچارج کار خاص مقرر فرمادیا۔ اس کے بعد آپ کے دفتر آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ آپ دن رات اپنے کام میں مصروف رہتے۔ اپنے ذاتی معاملات کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ ایک بار آپ کی ایک بیٹی سخت بیمار تھی کہ بچنے کی امید نہ تھی۔ حضورؓ کے ارشاد پر آپ کو کسی کام کے سلسلہ میں فوری طور پر باہر جانا پڑا۔ آپ اپنے ایک دیرینہ ڈاکٹر دوست کو حقیقت حال بتاکر سفر پر روانہ ہوگئے۔ جب واپس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر اپنی مصروفیات کے باعث بچی کو دیکھنے نہیں آسکے لیکن اللہ تعالیٰ نے بغیر دوائی کے بچی کو شفا دیدی۔
خلافت سے آپ کو ایک عشق تھا اور خلفاء کرام نے بھی آپ کو بہت محبت سے نوازا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار کسی سے فرمایا: ’’عبدالعزیز کبھی سلسلہ سے غداری نہیں کرے گا‘‘۔
1979ء میں آپ ریٹائرڈ ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: واپس اُسی کرسی پر چلے جاؤ۔ چنانچہ پھر قریباً ساری بقیہ زندگی آپ اسی جگہ خدمت دین میں مصروف رہے۔ 1993ء میں کینیڈا آگئے تو یہاں بھی خدمت خلق جاری رکھی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب 1998ء میں کینیڈا تشریف لائے تو آپ بھی اُس وقت کینیڈا میں میرے ہاں مقیم تھے۔ کسی وجہ سے آپ باقاعدہ ملاقات کیلئے حضورؒ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے۔ حضورؒ کو علم ہوا تو حضورؒ نے ازراہ شفقت ہمارے گھر تشریف لاکر آپ کو ملاقات کا شرف بخشا۔
آپ بہت ایثار اور وفا کے ساتھ قربانی کرنے والے تھے۔ آپ کو تین مرتبہ 1947ء، 1974ء اور 1984ء میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں جنہیں آپ نے صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی بیٹی فیضیہ مہدی صاحبہ کی جوان سال موت کا صدمہ بھی اٹھایا۔
آپ صابر ہونے کے ساتھ ساتھ شاکر بھی بہت تھے۔ بعض اوقات پانی کا ایک گلاس پینے کے دوران بھی رُک رُک کر بے شمار دفعہ الحمدللہ کہتے اور اپنے بچوں کو بھی شکرگزار بننے کی تلقین کرتے۔ بہت قناعت پسند تھے، کبھی جماعت سے اپنی ذات کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ کی شخصیت نہایت رعب دار تھی لیکن دل نرم اور صاف تھا۔ بہت دعاگو تھے اور صاحب رؤیا تھے۔ اکثر دعا کے بعد آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات ویسے ہی پوری ہوجاتی۔ ہمیشہ صحیح مشورہ دیتے خواہ وہ کسی کو پسند آئے یا ناپسند ہو۔ رات کو بھی کسی بچہ کی رونے کی آواز آتی تو جاکر پوچھتے اور تسلّی دیتے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے اگر کوئی پڑھائی یا علاج کی غرض سے ربوہ آتا تو اُس کی بہت بشاشت سے خدمت کرتے۔ خدمت کرنے کے بعد اُس کی تشہیر ناپسند تھی۔
خوش الحان تھے۔ صبح ہماری آنکھ آپ کی تلاوت قرآن کی آواز کے ساتھ کھلتی۔ ادبی ذوق بھی تھا۔ گھنٹوں مطالعہ میں صرف کرتے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حافظہ بھی خوب دیا تھا۔
21 و 22؍اپریل 2000ء کی درمیانی شب آپ نے کینیڈا میں وفات پائی۔ تدفین ربوہ میں ہوئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے از راہ شفقت نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں