محترم غلام قادر صاحب درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم غلام قادر صاحب درویش کے خودنوشت حالات شامل اشاعت ہیں ۔
محترم غلام قادر صاحب کی پیدائش مکرم عبدالغفار ڈار صاحب (ولد مکرم امام الدین صاحب) کے ہاں 1925ء میں شادی والا ضلع گجرات میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم اور دادا جان نے 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں اکٹھے حاضر ہوکر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔
محترم غلام قادر صاحب نے پرائمری سکول کی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی۔ 15سال کی عمرمیں برطانوی فوج میں ملازم ہوگئے اور ساڑھے چارسال کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر نوکری چھوڑ کر یکم اپریل1947ء کو حفاظتِ مرکز کے لئے قادیان آگئے اور ابتدائی درویشان میں شامل ہوگئے۔ حضور ؓ نے ان کے سپرد قادیان کے مضافات میں ایک علاقہ کی نگرانی کی ذمہ داری لگائی۔ اسی دوران حضورؓ نے لاہور کے دو اہم سفر بھی کئے اور آپ کو حضورؓ کے حفاظتی دستہ میں شامل ہونے کی سعادت بھی ملی۔ حضورؓ کو دبانے کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔
تقسیم ہند کے بعد آپ کو قریبی دیہات میں بھجوایا گیا اور آپ مسلمان عورتوں کو بٹالہ کیمپ میں چھوڑ کر آتے رہے۔ بے شمار مسلمانوں کو بحفاظت قادیان پہنچایا۔ بعدازاں قادیان میں حفاظتی ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ جب آپ حضرت اماں جانؓ کی کوٹھی میں متعیّن تھے تو سامنے والی کوٹھی میں ملٹری رہتی تھی۔ صوبیدار نے احمدی جوانوں سے کہا کہ اپنی کوٹھی خالی کردو۔ اِنہوں نے جواب دیا جب تک پیچھے سے ہمیں حکم نہیں آئے گا ہم کوٹھی خالی نہیں کریں گے۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا۔ پھر ایک دن صوبیدار خود آیا اور اپنا مطالبہ دہرایا۔ آپ نے بھی پہلے والا جواب دیا۔ کہنے لگا دیوار کے ساتھ کھڑ ے ہو جاؤ۔ پھر کہنے لگا: اب تمہارا کیا خیال ہے؟ میرے ایک اشارہ پر فوجی گولی چلا دیں گے!۔ خدّام نے وہی جواب دیا۔ اس پر وہ مسکرا دیا۔ پھر جو چیز ان کے ہاتھ لگی وہ اُٹھاکر نکل گئے۔ بعدازاں حضرت اماں جانؓ کی کوٹھی سے اُن کا کچھ سامان (پلنگ اور الماری وغیرہ) محفوظ جگہ پہنچادیا گیا۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے موقعہ پر قادیان میں ڈیڑھ دو لاکھ کے قریب احمدی اور غیر احمدی ہجرت کرکے آگئے تو لوگوں کی کثرت کی وجہ سے گلیوں میں گندگی بھر گئی۔ اس وقت ہم درویشوں کو یہ توفیق ملی کہ اس پاخانے کو بیلچوں سے اُٹھاکر کنووں میں ڈالا کرتے تھے۔ اس موقع پر ہجرت کرنے والوں کو خصوصاً احمدیوں کو حضور انور ؓ نے حکم دیا تھا کہ کوئی پیدل نہیں جائے گا میں انتظام کروں گا۔ الحمدللہ کہ تمام احمدی بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔ جبکہ پیدل جانے والے مسلمانوں کو نہایت نامساعد حالات سے گزرنا پڑا حتیٰ کہ ان میں سے اکثر کو اپنی جانیں تک گنوانی پڑیں ۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ الہام کہ ’’یہ نان تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے‘‘ اس رنگ میں بھی پورا ہوا کہ ہم دو سال تک صرف گندم ہی ابال اُبال کر کھاتے رہے۔ 1950ء میں میری ڈیوٹی گندم پسوانے پر لگائی گئی۔ بعدازاں مَیں نے لنگرخانہ، دفتر جائیداد، امورعامہ اور بیت المال آمد وغیرہ میں خدمت کی توفیق پائی۔
محترم غلام قادر صاحب کی شادی 1952ء میں مکرمہ رشیدہ خاتون صاحبہ بنت مکرم عابد حسین صاحب آف بھاگلپور سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا فرمائیں ۔ دونوں بیٹے خدمتِ سلسلہ میں مصروف ہیں ۔ آپ کو تبلیغ کا انتہائی شوق ہے۔ آپ کو خصوصیت سے سکھوں میں تبلیغ کا موقع ملا۔ اس سلسلہ میں آپ نے نادر و نایاب کتب اور حوالہ جات جمع کئے ۔ آپ اس وقت بھی باوجود کمزوری اور پیرانہ سالی کے پنجوقتہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں ۔
(نوٹ: آپ کی وفات 12؍نومبر 2014ء کو ہوئی اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں