محترم ماسٹر عبدالقدوس شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ مئی 2012ء میں مکرم امجد باجوہ صاحب نے محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مکرم ماسٹر عبدالقدوس شہید

مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب 2؍اپریل 1968ء کو لویری والہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ 21؍مارچ 1997ء کو آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کے پڑدادا حضرت میاں احمد یار صاحبؓ اور پڑدادی حضرت مہتاب بی بی صاحبہؓ تھے۔
مکرم ماسٹر صاحب باقاعدہ تہجدگزار تھے اور بچوں کو بھی نماز فجر کے لیے مسجد ساتھ لے کر جاتے۔ دورانِ اسیری بھی اپنے بیٹے سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ نماز پڑھے بغیر واپس چلا گیا تھا۔ شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر اور خلافت سے وابستگی کی تلقین کی اور اہلیہ کو اپنی والدہ اور بچوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کی۔آپ نہایت ملنسار، شاکر، ہمدرد اور دعاگو انسان تھے۔ مزاج دھیما تھا اور کبھی سخت مزاجی سے پیش نہیں آتے تھے۔ اگر کوئی سخت بات کردیتا تو آرام سے اُسے سمجھاتے۔ کوئی خادم کسی کی شکایت کرتا تو بڑے آرام سے سنتے اور حکمت کے ساتھ معاملہ رفع دفع کرتے۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ شکار کا شوق تھا اور شکار کے گوشت میں دوستوں کو بھی شامل کرتے۔
مکرم ماسٹر صاحب بچپن سے ہی خدمت دین میں پیش پیش رہے۔ قریباً دس سال خدام الاحمدیہ حلقہ کے زعیم رہے۔ بوقت وفات محلہ نصرت آباد کے صدر جماعت تھے اور قریباً دس سال سے حفاظتِ مرکز کے تحت سیکٹر انچارج بھی تھے۔ عطیہ خون کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے۔ایک بار جب آپ کی ٹیم کشتی رانی کے فائنل میں پہنچ چکی تھی تو مقابلے سے کچھ دیر قبل کسی کو خون کی ضرورت پڑی اور وہ آپ کو ڈھونڈتا ہوا دریائے چناب کے کنارے پہنچ گیا۔ آپ نے انتظامیہ سے اجازت لی، جاکر خون کا عطیہ دیا اور واپس آکر مقابلہ میں حصہ لیا اور جیت بھی گئے۔ اس کے بعد انتظامیہ کو بتایا کہ آپ خون دینے گئے تھے۔ اس پر بعض لوگ ناراض بھی ہوئے کہ اس حالت میں مقابلے میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔
مکرم ماسٹر صاحب کشتی رانی کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے اور نئے آنے والوں کی تربیت بھی کرتے تھے۔پنجاب روئینگ ایسوسی ایشن کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری تھے۔ آپ کی محنت اور تربیت سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پنجاب کی پوری ٹیم ربوہ کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جس نے پاکستان اولمپک گیمز میں پنجاب کی نمائندگی کی۔ اس ٹیم کے مینیجر اور کوچ بھی مکرم ماسٹر صاحب مرحوم ہی تھے۔ آپ نے ایک ایسی ٹیم تیار کی ہوئی تھی جو مقابلہ جات کے علاوہ خدمت خلق کو بھی اوّلین فرض سمجھتی تھی۔ اگر کوئی ڈوب جاتا تو فوراً اپنی ٹیم کے ہمراہ چلے جاتے اور نعش ملنے تک گھر نہ لَوٹتے۔ ساتھ ساتھ لواحقین کا بھی خیال رکھتے۔ لاش ملنے پر اس کی تجہیزوتکفین کے انتظامات بھی اپنے اخراجات پر کروا دیتے۔ سیلاب آتا تو بھی آپ ہر کام پس پشت ڈال کر متأثرین کی خدمت میں لگ جاتے۔ اپنے ساتھی خدام کا بھی بہت خیال رکھتے۔
آپ پیشے کے لحاظ سے ایک فرض شناس استاد تھے۔ بچوں کو کبھی سخت سزا نہ دیتے۔ پرانے شاگرد آپ کا بہت احترام کرتے اور آپ کے ساتھی بھی بھرپور عزت دیتے۔
جب آپ کو ایک مقدمے میں جھوٹے طور پر ملوّث کرکے 10؍فروری 2012ء کو گرفتار کیا گیا تو دورانِ اسیری اپنے ملنے والوں سے کہتے کہ مَیں تو یہاں اعتکاف بیٹھا ہوں، دعاؤں کا بہت موقع مل جاتا ہے۔ 17؍مارچ کو آپ کو نامعلوم مقام پر منتقل کرکے شدید اذیّتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور یہی اندرونی زخم شہادت کا باعث بنے۔ جب ہسپتال میں آپ کو خون کی بوتلیں لگائی گئیں تو آپ کہنے لگے کہ مَیں نے اہلِ ربوہ کو بہت خون دیا ہے اور آج ربوہ مجھے میرا خون واپس کر رہا ہے۔ آخر 30 مارچ کو بعدنماز جمعہ آپ کی شہادت ہوگئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں