محترم ماسٹر محمد یاسین صاحب

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ جون 2006ء میں مکرمہ ماہم سلیم صاحبہ اپنے دادا محترم ماسٹر محمد یاسین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ 1911ء میں ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے کچھ عرصہ بعد آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔ آپ کی والدہ بہت نیک تھیں اور بے شمار بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی توفیق انہوں نے پائی۔ محترم ماسٹر صاحب نے اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی والدہ کی مخالفت کے باوجود احمدیت قبول کرلی۔ منشی فاضل کرنے کے بعد آپ نے سکول ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ تقسیم ہند کے وقت آپ نے چھ ماہ قادیان میں حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دی۔
1934ء میں محترم ماسٹر صاحب نوشکی (بلوچستان) میں مقیم تھے جب آپ کے ایک ساتھی استاد نے (جو آپ کے زیرتبلیغ بھی تھے) آپ کو بتایا کہ اُس کا چھ سالہ بیٹا اچانک دیکھنے سے قاصر ہوگیا ہے۔ آپ نے اُسے حضرت مصلح موعودؓ سے دعا کروانے کا مشورہ دیا۔ اور پھر اُس کی درخواست پر حضورؓ کی خدمت میں خط بھی تحریر کردیا۔ حضورؓ نے جواباً تحریر فرمایا کہ مَیں نے دعا کی ہے اور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ اُس کو نظر واپس عطا فرمادے گا۔
چند روز بعد ہی آپ کا وہ ساتھی خوشی سے آیا اور اپنے بیٹے کی شفایابی کی خبر سنائی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد آپ کو علم ہوا کہ اُس شخص نے اپنے غیراحمدی دوستوں میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں بے ادبی کے کلمات کہے ہیں۔ آپ نے اُس سے پوچھا تو اُس نے افسوس کا اظہار کیا لیکن آپ نے کہا کہ اتنا عظیم نشان دیکھنے کے بعد بھی اگر تمہاری یہ حالت ہے تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اگلے ہی دن وہ شخص پھر آپ کے پاس روتا ہوا آیا اور بتایا کہ اُس کے بیٹے کی نظر دوبارہ چلی گئی ہے۔ آپ نے اُسے کہا کہ اب اُسے خود حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ کر دعا کی درخواست کرنی چاہئے۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؓ کا جواب آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بچے کی نظر دوبارہ لَوٹادی۔ تب محترم ماسٹر صاحب نے اُس شخص کو مشورہ دیا کہ ایسے معجزے دیکھنے کے بعد اب اُسے احمدیت قبول کرلینی چاہئے۔ تاہم قادیان جاکر حضورؓ کی زیارت کرنے کے باوجود اُسے ہدایت نصیب نہ ہوسکی۔
گرمیوں کی ایک دوپہر کو جب محترم ماسٹر صاحب سکول سے گھر واپس آرہے تھے تو راستہ میں ایک کنوئیں پر رُک گئے جہاں سے تین چار گاؤں کے لوگ پانی لیا کرتے تھے۔ آپ نے پینے کے لئے وہاں کھڑے ہوئے لوگوں سے پانی مانگا تو انہوں نے آپ کے احمدی ہونے کی بناء پر پانی دینے سے انکار کردیا۔ اس پر آپ گھر کی طرف روانہ ہوگئے جو وہاں سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر تھا۔ ابھی آپ تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ پیچھے ایک شور سنائی دیا۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ کنوئیں کے گرد جمع تھے۔ بہرحال آپ گھر پہنچ گئے۔ اگلی صبح آپ کے دروازہ پر ساٹھ ستر لوگ جمع تھے جنہوں نے بتایا کہ وہ اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آپ کو پانی نہ دینے کی پاداش میں چند ہی منٹ بعد کنواں اندر گرگیا اور پانی کا ذریعہ بند ہوگیا۔ اور یہ کہ اگر آپ دعا کرکے کنواں دوبارہ کھڑا کردیں تو وہ سب لوگ احمدیت قبول کرلیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا ہونا اب عملاً ممکن نہیں ہے۔ تاہم وہ دعا کریں گے اور اگر لوگ کنواں کھودیں تو دوبارہ اُن کو پانی مل جائے گا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ آپ دعا کرکے کنوئیں کو پہلے کی طرح کردیںتو وہ احمدیت قبول کرلیں گے۔ آپ نے اُن کو کہا کہ اگر گزشتہ روز کے واقعہ سے بھی اُنہیں احمدیت کی سچائی کا یقین نہیں آیا اور وہ ایک اَور نشان دیکھنے پر مصر ہیں تو پھر ایسے احمدیوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔
نوشکی میں دو دیگر احمدی گھرانے بھی تھے۔ اُن کی تبلیغ کے جواب میں دیہاتیوں نے کہا کہ وہ تو اَن پڑھ ہیں لیکن اگر قریبی گاؤں کے مولوی محمد عالم صاحب احمدیت قبول کرلیں تو پھر سب لوگ بھی اُن کی پیروی کریں گے۔ چنانچہ مولوی صاحب سے جب تبلیغی بات چیت کی گئی تو کچھ وضاحتوں کے بعد انہوں نے احمدیت قبول کرلی۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ مولوی صاحب تو بوڑھے ہیں اور اُن کو پوری سمجھ بھی نہیں آتی اس لئے وہ احمدی ہوگئے ہیں لیکن ہم بے وقوف نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ بعد مولوی صاحب شدید بیمار ہوگئے اور معلوم ہوتا تھا کہ اُن کی وفات کا وقت قریب ہے۔ لوگ اُن کے پاس گئے اور کہا کہ اگر وہ احمدیت سے توبہ نہیں کریں گے تو کوئی اُن کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کرے گا۔اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ بے شک اُنہیں کہیں بھی پھینک دیا جائے جہاں کتے اور گدھ اُن کا گوشت کھالیں لیکن وہ ایمان نہیں چھوڑیں گے۔ پھر انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا اور جان دیدی۔ لوگوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے آج تک کسی کو اس طرح اطمینان سے مرتے نہیں دیکھا۔ پھر مولوی صاحب کی فیملی نے اُن کا جنازہ تیار کیا اور قبرستان لے گئے۔ اُس گاؤں میں چونکہ کوئی احمدی گھرانہ نہیں تھا اس لئے کوئی بھی جنازہ پڑھنے کے لئے موجود نہیں تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے وہاں تین گھوڑ سوار پہنچے جنہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ دیہاتیوں نے بتایا کہ یہ ایک قادیانی کی میت ہے جس کا جنازہ پڑھنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ الحمدللہ ہم احمدی ہیں اور ہم ان کا جنازہ پڑھیں گے۔ چنانچہ اُن سواروں نے جنازہ پڑھا۔ بعد میں اُن دیہات میں یہی مشہور ہوگیا کہ مولوی صاحب کا جنازہ پڑھنے کے لئے تین فرشتے آئے تھے۔
ایک بار محترم ماسٹر صاحب کی بکری گُم ہوگئی۔ اگلی صبح آپ کی ایک ہمسائی نے آپ کو گلی میں دیکھ کر کہا کہ آپ کیوں اپنے مرزا سے بکری واپس لانے کا معجزہ نہیں مانگتے۔ آپ کو یہ بات سن کر اتنا صدمہ ہوا کہ کچھ کہے بنا وہاں سے چلے آئے۔ اُسی رات اُس ہمسائی کی گائے گُم ہوگئی۔ اُس نے دوبارہ آپ کو بلاکر کہا کہ اپنے مرزا سے کہو کہ تمہیں تمہاری بکری واپس دلادے۔ اس پر اُس عورت کے خاوند نے گھر کے اندر سے اپنی بیوی کو کہا کہ کیا اُس نے ابھی تک کوئی معجزہ نہیں دیکھا جو وہ ایک اَور معجزہ دیکھنے کی تمنا کر رہی ہے۔
یہ اُس علاقے کے لوگوں کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے کئی معجزے دیکھے لیکن احمدیت قبول نہ کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد محترم ماسٹر صاحب کراچی منتقل ہوگئے۔ وہاں ایک صاحب آپ کے زیرتبلیغ تھے۔ انہوں نے ایک بار اس پریشانی کا اظہار کیا کہ اُن کی بیٹی جو امریکہ میں مقیم ہے، اُسے کینسر ہوگیا ہے۔ انہوں نے آپ سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ دل سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے دعا شروع کردی۔ کچھ دن بعد وہ نہایت خوش خوش آپ کے پاس آئے اور بتایا کہ ڈاکٹروں کے ٹیسٹ میں کینسر کی کوئی علامات نہیں تھیں۔ کچھ عرصہ بعد اُن کی بیٹی پاکستان آئیں تو وہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اُن کی بیٹی اُس شخص سے ملنا چاہتی ہے جس کی دعا سے اُسے شفا ہوئی ہے۔ لیکن اُس شخص نے درخواست کی کہ جب وہ اپنی بیٹی اور بیوی کو آپ سے ملوانے لے کر آئے تو آپ احمدیت کا ذکر نہ کریں۔ اس پر آپ بہت افسردہ ہوئے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ وہ شخص احمدیت کی سچائی کا نشان چھپانے پر کیوں بضد ہے۔ تاہم وہ لڑکی آپ سے ملی اور جب وہ واپس امریکہ گئی تو جلد ہی اُسے دوبارہ کینسر ہوگیا۔ اور پھر جلد ہی وہ شخص بھی اس دنیا سے چل بسا۔
محترم ماسٹر صاحب 25؍دسمبر 2002ء کو 91 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں