محترم محمد لطیف جنجوعہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اگست 2007ء میں مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب اپنے بھائی محترم محمد لطیف صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ کو بڑے بھائی ماسٹر محمد نذیر صاحب نے قادیان بھیجا تاکہ کتابت بھی سیکھیں اور احمدیت کو بھی قریب سے دیکھ لیں۔ لیکن بھائی لطیف کتابت سیکھ آئے مگر احمدی نہ ہوئے۔ اس پر بھائی نذیر صاحب اور والدہ صاحبہ کو بہت صدمہ ہوا اور وہ دعا میں لگ گئے۔ کچھ ہی دن میں محمد لطیف صاحب نے ایک خواب دیکھنے کے بعد احمدیت قبول کرلی۔ پھر گاؤں میں پنساری اور کریانہ کا کام شروع کردیا۔ شادی بھی احمدی خاندان میں ہوگئی۔ پھر محکمہ تعلیم کے ایک ماہوار رسالہ کی کتابت آپ کو مل گئی نیز محکمہ آب پاشی میں ملازمت کا بندوبست بھی ہوگیا۔ دکان بھی چلنے لگی۔ آپ کی اہلیہ نے گاؤں کے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانا شروع کیا تو گھر میں رونق شروع ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد جو لوگ آپ کے گاؤں میں آکر رہنے لگے، آپ اور آپ کی اہلیہ نے اُن کی بھرپور مدد کی۔ چنانچہ جب 1953ء میں اور پھر 1974ء میں احمدیت کو بنیاد بناکر مقامی آبادی نے آپ کی مخالفت کی تو مہاجرین نے آپ کا ساتھ دیا۔ اگرچہ آپ گاؤں میں اکیلے ہی احمدی تھے۔ 1959ء میں آپ کے ایک ہمسائے محترم منیر احمد صاحب نے احمدیت قبول کرلی تو اُس کی شدید مخالفت ہوئی اور معاشی طور پر مفلوج کردیا گیا۔ ایسے میں آپ نے اُس کی بہت ہمت بندھائی اور ساتھ دیا۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ میں سارے حالات پُرامن ہوگئے۔ پھر منیر صاحب گاؤں سے ہجرت کرکے شیخوپورہ چلے گئے۔
محترم محمد لطیف جنجوعہ صاحب بعد میں جرمنی چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ تدفین ربوہ میں ہوئی۔آپ نے درجنوں پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں چھوڑے ہیں۔ محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری لندن بھی آپ ہی کے پوتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں