محترم مرزاعبدالرحیم بیگ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مئی 2007ء میں مکرمہ ا۔ منیر صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ آپ کے بارہ میں ایک مضمون قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 17؍جنوری 2003ء کے اسی کالم کی زینت بن چکا ہے۔
تقسیم ہند کے وقت حفاظتِ مرکز کی تحریک پر محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نے بھی اپنا نام پیش کیا تو قادیان بھجوائے جانے والے پہلے قافلہ کے امیر مقرر ہوئے۔ دراصل آپ ساری زندگی ہی دین پر اپنی دنیا قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ چنانچہ ایک بار جب آپ کی اہلیہ انتہائی بیمار تھیں تو آپ کے دستخط کروانے کے لئے بڑی مشکل سے آپ کو ایک جماعتی اجلاس میں ڈھونڈا گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہاکہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی بیوی کی کیاحالت ہے؟ کہنے لگے آپ میرا انتظار نہ کیا کریں، میں زیادہ اہم کام میں مصروف ہوں، جو کرنا ہو کرلیں، اللہ تعالیٰ خودفضل فرمائے گا۔
آپ کی دیانتدارانہ وکالت کا اکثر جج بھی احترام کرتے۔ ایک میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد بچے کی حضانت کے مقدمہ میں پہلی عدالت نے با پ کے حق میں فیصلہ کر دیا تو ماں نے سیشن کورٹ میں اپیل کی اور آپ کی خدمات حاصل کیں۔ سیشن جج آپ کامداح تھا۔ اُس نے آپ کی بحث سے پہلے ہی ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہی چاہتے تھے، آپ ایک Honest آدمی ہیں۔
ایک احمدی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی نوبت آگئی تو مرد نے اُس کی شرائط نہ مانے جانے کی صورت میں احمدیت ترک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس پر آپ نے غیرت سے کہا کہ اگرتم احمدی نہ رہے تو سونے اور ہیرے کے بھی بن کرآجاؤ تو میری نظرمیں تمہاری حیثیت دوکوڑی کی بھی نہیں۔ اس بات کا اس آدمی پراتنااثرہواکہ وہ کچھ ہی عرصہ میں جماعت کے اَورزیادہ قریب ہوگیا اور بیوی کو بھی گھر لے گیا۔
1984ء کے جلسہ سالانہ لندن سے واپسی پر آپ جلسہ کی وڈیو کیسٹ ساتھ لائے تھے۔ اُس وقت کراچی ائیر پورٹ پر جماعت کا لٹریچر اور کیسٹس ضبط کرکے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ آپ کے بھتیجے نے مشورہ دیا کہ آپ کسٹم آفیسرسے پہلے ہی بات کرلیں۔ آپ نے کہا ہمارا افسر اوپر ہے۔ ساتھ ہی انگلی سے اوپرکی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ آپ اس حالت میں Clear ہوکر باہر آئے کہ کیسٹ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔
ایک غیراحمدی پڑوسی سے ہمارے گھرانے کے قریبی تعلقات تھے۔ اُن کے ایک بیٹے کی شادی ہوئی تو بیوی بہت بااخلاق اورخوش مزاج ملی لیکن احمدیت کی سخت مخالف۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی سسرال والوں نے لڑکی پرکافی سختی شروع کردی۔ ساس نے بہو سے کہا ہوا تھا کہ میرابیٹا بہت شکی ہے، بیگ صاحب ہیں تو قادیانی لیکن بہت نیک اور اچھے ہیں، تم صرف ان کے گھر جاسکتی ہو۔ چنانچہ وہ ہمارے گھر آکر روتی۔ ایک دودفعہ آپ نے اُس کی ساس کو بھی بلاکر سمجھایا۔ کئی دفعہ اُس لڑکی کی مالی مدد بھی کی۔ کئی سال بعد سسرال والے لڑکی کو دو بچوں کے ساتھ وہیں چھوڑ کر خود دوسرے علاقہ میں منتقل ہوگئے۔ اس کے بعد اُس لڑکی کے بہت سے کام اور اُس کے بچوں کی تعلیم و تربیت بیگ صاحب نے ہی کی۔
دل کے آپریشن کے سلسلہ میں آپ 26 دن ہسپتال میں داخل رہے۔ آپ کارویہ اتنا شفقت آمیز تھا کہ سارا سٹاف آپ کا گرویدہ تھا۔ ڈاکٹروں کو مذہب، سیاست، تاریخ وغیرہ کے واقعات اور لطائف سناتے۔ کئی لوگ اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد کچھ وقت آپ کے پاس ضرور گزارتے۔ نرسیں اپنے مسائل بیان کرتیں اورمشورہ لیتیں۔ ہر آنے والے کو علم کی قدر بتانے کے لئے پین کا تحفہ دیتے۔ کئی غرباء کی مالی مدد بھی کردیتے۔
آپ کی ایک بیٹی اُس وقت بیوہ ہوگئیں جب اُن کے چار چھوٹے بچے تھے۔ چند ہفتوں بعد اُس نے آپ سے کہا کہ اب توبچوں کی سب ذمہ داری مجھ پر ہے اور مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ آپ نے کہاکہ جس اللہ نے پیدا کیا ہے، وہی پالنے والاہے تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔ اگلی دوپہر آپ عدالت سے لَوٹے تو بیٹی کو پانچ ہزار روپے دیتے ہوئے کہا کہ صبح عدالت جاتے ہوئے میں نے دعا کی کہ آج جو نیا کیس داخل کرناہے اس کی ساری رقم بچوں کی ہوگی۔ اس لئے یہ بچوں کی قسمت ہے۔
وہ مزید بیان کرتی ہیں کہ میں جب بھی پریشان ہوتی تو دوسرے دن اباجان میرے پاس پہنچ جاتے۔ میں کہتی میں نے آپ کوفون بھی نہیں کیا پھر آپ کوکیسے معلوم ہوگیا۔ توکہتے اللہ مجھے بتادیتا ہے۔
آپ بچوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ فارغ ہو تو حضرت مسیح موعودؑ اورخلفاء کی کتب پڑھا کرو، اس سے علم میں اضافہ ہوتاہے اورانسان شیطانی خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔ ہمیشہ کہتے کہ جس جگہ کام کرو اپنی ایمانداری اورمحنت سے وہاں کی ضرورت بن جاؤ۔
آپ کو دینی ودنیاوی علوم سے عشق کی حدتک رغبت تھی۔ کامیابی پر بچوں کوقلم اورکتب کاتحفہ دیا کرتے۔ سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کرنے جاتے تو ہمیشہ قرآن مجید کا نسخہ بطور تحفہ لے جاتے، کبھی تفسیرصغیر، کبھی انگریزی ترجمہ اورکبھی سندھی ترجمہ۔ اس طرح تبلیغ بھی ہوجاتی۔ آپ ہر مجلس میں بیٹھ کر اُس کا رنگ بدل دیتے۔ اتنی مختلف النوع ذمہ داریوں کے باوجود کبھی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا۔
آپ انتہائی منکسرالمزاج انسان تھے۔ اپنے آرام اور کھانے کی پروا کئے بغیر ہمیشہ خدمت خلق اورخدمت دین کیلئے کوشا ں رہتے۔ دل کے آپریشن سے ایک دن پہلے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے تو ایک احمدی خاتون نے اپنے کیس کے بارہ میں فون کردیا۔ آپ کے بیٹے نے اُسے آپ کے آپریشن کا بتایا تو آپ نے فوراً ریسیور پکڑلیا اور خاتون کو کہا کہ میں آپ سے تھوڑی دیربعد بات کرتا ہوں۔ آپ کے بیٹے نے کہا کہ پرسوں آپ کا آپریشن ہے، اس وقت ساری پریشانیاں چھوڑ دیں۔ اس پر آپ کہنے لگے کہ اُس کیفیت کا اندازہ کروجب انسان امید اور ناامیدی کے بیچ ہوتا ہے۔ یہ سب پریشان ہیں کہ میں ہسپتال چلاجاؤں گاتوہمارے کیس کا کیا ہوگا، کہیں یکطرفہ فیصلہ نہ ہوجائے۔ اس کے بعد آپ نے ایک دوست وکیل کو فون کرکے کیسز کے بارہ میں ہدایات دیں اور پھر دوبارہ خاتون کو فون کرکے تسلی دی۔ یہی خاتون آپ کی وفات پر بار بار کہتی تھیں کہ آج میں یتیم ہوگئی ہوں۔
آپ ہر ایک کا اکرام کرتے تھے۔ کسی کی کمزوری کسی دوسرے کے سامنے بیان نہ کرتے تھے بلکہ اکیلے میں اس قدرمؤثر انداز سے سمجھاتے کہ دوسرا فوراً اپنی اصلاح کرلیتا۔ کہتے اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو خوبیوں اور خامیوں کامجموعہ بنایاہے، اس کی خوبیوں کو یاد رکھو اور خامیوں کو نظرانداز کردو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں