محترم مرزا ظفر احمد صاحب شہید

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے مارچ و اپریل 2012ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم شاہد رضوان صاحب نے محترم مرزا ظفر احمد صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ مکرم مرزا صاحب کی ہر خدمت، فعل، قول،سعی ا ور عمل کا انداز اس حد تک دل کی گہرائی اور سوچوں کی باریکی پر مبنی ہوتا تھا کہ عام لوگ اپنی ذاتی زندگی کو سنوارنے میں بھی بہت کم اتنا سوچتے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے اور بہت اچھے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود نہایت سادہ طبع اور قانع شخص تھے۔
جب مکرم مرزا صاحب پہلی بار ٹوکیو مشن ہاؤس میں تشریف لائے تو آپ نے مشن ہاؤس کے لئے ایک خوبصورت تحفہ نکال کر پیش کیا۔ اس لحاظ سے اوّل روز سے ہی آپ کا انداز دوسروں سے جُدا دکھائی دیا جو بعد میں آپ کی خدمات کے ہر انداز میں جھلکتا نظر آیا۔
آپ خاصے خاموش طبع واقع ہوئے تھے اور کسی سے مدد کے لئے کہنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا رہائش اور ملازمت ڈھونڈنے میں کچھ دقتیں تھیں۔ لیکن ابتدا سے ہی اللہ تعالیٰ نے گویا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ جاپانی زبان تو آتی نہ تھی اورنہ ہی اُس وقت کے حالات کی وجہ سے کوئی مناسب یا غیرمناسب رہائش ہی لینے کی پوزیشن تھی، اس کے علاوہ گارنٹی کا مسئلہ اور خصوصاً غیرملکیوں کو آسانی سے مکان نہ ملتے تھے۔ بس پراپرٹی ڈیلرز کا کاروباری نشان دیکھ کر اندر چلا جاتا تھا اور عموماً ناکام واپس آتا تھا۔ ایک روز ایک پراپرٹی ڈیلر نے خاصی غیر معمولی توجہ اور محنت سے تمام شرائط رکھنے والی رہائش نکال ہی چھوڑی اور جلدی سے ضامن کا انتظام کرنے کو کہا۔ تو میں نے نفی میں جواب دیا۔ ڈیلر بولا تم شریف آدمی معلوم ہوتے ہو ،میں خود تمہارا ضامن بن جاتا ہوں۔ اب سامان لانے کا کوئی انتظام کرو۔ میں جواب میں صرف مسکرا دیا تو اُس نے خود اپنی ہی گاڑی پر جیسا تیسا سامان رکھا اور مجھے ’’ میرے گھر‘‘ چھوڑ کر واپس ہوا۔ یہ وہ مرزا صاحب تھے جن کا شمار چند ہی روز بعد پاکستانیوں میں سب سے زیادہ معزز ملازمت اور سب سے زیادہ تنخواہ لینے والوں میں ہوتا تھا۔
چونکہ مرزا صاحب نئے آئے تھے اس لئے اُس وقت Visit Visa پر تھے۔ جو لوگ کچھ پرانے رہنے والے ہوجاتے وہ زیاہ تر سٹوڈنٹ ویزا پر ہوجاتے تھے اور مزید پرانے عموماً بزنس ویزا پر رہتے تھے۔ وزٹ ویزا کی صورت میں ملازمت ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا تھا لیکن مکرم مرزا صاحب کو ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ الٰہی تائید نے پھر پیار کی نظر ڈالی اور زیرزمین ریلوے پر سفر کے دوران کسی بڑی کمپنی کے مالک سے اُن کا تعارف ہوا۔ کمپنی کسی انجینئرنگ کے شعبہ سے ہی تعلق رکھتی تھی۔ ابتدائی گفتگو میں ہی اس کمپنی کے مالک نے نہ صرف ملازمت کی پیشکش کی بلکہ ورک پرمٹ ویزا کا بھی انتظام کردیا جو کہ جاپان جیسے ملک میں خصوصاً ناواقف غیر ملکیوں کے لئے ،کافی حد تک انہونی بات تھی۔ یہی نہیں بلکہ اعلیٰ تنخواہ پر عمدہ دفتری ملازمت تھی اور کمپنی کی نمائندگی میں کئی غیر ملکی دوروں کا بھی موقعہ ملا۔
مکرم مرزا صاحب کی اہلیہ مکرم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب کی بیٹی ہیں جو سیرالیون میں طبّی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پاچکے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے خاوند کی معاونت میں سرگرداں رہتیں بلکہ آنے کے فوراً بعد ہی جماعتی خدمات کے علاوہ لجنہ اماء اللہ میں بھی نمایاں خدمات انجام دیتی رہیں اور دس سال صدر لجنہ کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔
اُن دنوں پاکستانی کھانوں کے مصالحہ جات جاپان میں کافی نایاب تھے اور خصوصاً بغیر فیملی کے رہنے والے نوجوانوں کے پکانے اور کھانے کا کوئی خاص اہتمام نہ ہوتا تھا۔جب کسی فیملی والے کے ہاں جاتے تو اکثر بے تکلفی سے خود کہہ کرکھانا کھا کر ہی جاتے تھے یا اتنی دیر بیٹھتے تھے کہ میزبان کھانا کھلانے میں ہی خیر جانتے تھے۔ لیکن مرزاصاحب کے ہاں اُلٹ حساب تھا۔ یعنی نہ صرف مہمان کو عموماً خود اصرار سے کھانا کھلاتے تھے بلکہ پُر تکلف اہتمام کرتے تھے۔ اس خلوص میں یقینا اُن کی اہلیہ کا بھی نمایاں حصہ تھا۔ جماعتی خدمات میں نمایاں ہونے کی وجہ سے مرزا صاحب یا تو خود مشن ہاؤس میں ہوتے یا پھر مشن ہائوس اُن کے گھر میں ہوتا تھا، ہر دو صورتوں میں بہت مہمانداری رہتی تھی۔ مرزا صاحب اور اُن کی اہلیہ دونوں قسم کے یعنی جماعتی اور زبردستی کے مہمانوں کی خندہ پیشانی سے مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔
جاپانی کلچر کے ماحول میں اگر کہیں اسلامی پردہ یا بُرقعہ لینے میں جھِجک محسوس ہوتی تھی تومرزا صاحب کی اہلیہ کی بُرقعہ کی پابندی سے اس تعداد میں اضافہ ہوا اور باقیوں میں بھی ایک اعتماد پیدا ہوا۔اس خاموش تربیتی نمونہ سے خواتین پردہ کی پوری طرح پابند ہوگئیں۔
اگرچہ مکرم مرزا صاحب کو (جاپان آنے سے قبل) پاکستان میں جماعتی کاموں کا زیادہ اور وسیع تجربہ نہیں تھا تاہم جاپان میں ابتدا سے ہی بڑی اہم ذمہ داریوں کے کام سپرد کئے گئے جو آپ نے احسن رنگ میں نبھائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ سند خوشنودی حاصل کی۔
آپ بہت اعلیٰ درجہ کے منتظم تھے۔ عموماً مجلس عاملہ کی طویل بحثوں کو اصولی، عقلی اور قواعدکی رُو سے حتمی طور پرواضح کر کے چند فقروں میںمکمل کر دیتے تھے۔ ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ انتظامات کو مکمل اور اعلیٰ طرز پر بخوبی ادا کرنے کے باوجود ، خود سکرین پر نظر نہیں آتے تھے بلکہ کام نمایاں ہوتا تھا۔ تربیتی معاملا ت میں آپ کا خوبصورت انداز یہ تھا کہ کسی عمومی نصیحت یاغلطی پرتوجہ دلاتے وقت اپنے الفاظ میں کچھ کہنے کی بجائے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے توجہ دلاتے تاکہ دلآزاری بھی نہ ہو اور زیادہ بہتر طور پر بات دل میں بیٹھ جائے۔
آپ ایک وقت میں نیشنل سیکرٹری مال اور ٹوکیو کے صدر جماعت بھی تھے۔ شعبہ مال کا مرکز ناگو یا میں تھا۔ ٹوکیو اور ناگویا میں ساڑھے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان طویل سفر کرنا آپ کی ضرورت تھی اور آپ یہ خدمت بہت خلوص سے بجالاتے رہے۔ ایک بار آپ کو اپنے دفتری کام سے افریقہ جاناپڑا۔ آپ نے خاکسار کو عارضی چارج دیتے ہوئے تمام حساب اوررقم حوالے کرنے کے بعد اپنی ذاتی جیب سے ایک بڑی رقم مجھے دے کر کہا کہ کوئی ہنگامی خرچ کرنا پڑے تو میرے پیسوں سے کر لینا، جماعتی رقم سے مت لینا۔
ایک بار جماعتی معاملات میں کچھ بہت ہی بڑی رقموں کا اندراج یا رسیدات کا فرق آیا جس کا ریکارڈ نہ مل سکا۔ آڈٹ رپورٹ پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مرزا صاحب کو قواعد کے مطابق ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تمام رقم کو اپنی جیب سے ادا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ یہ رقم اتنی زیادہ تھی کہ مکرم مرزا صاحب کی بہت معقول تنخواہ سے بھی سالوں میں ادا ہوئی۔ کمزور ایمان تو اسے ایک مفت کی عمر بھر کی چٹّی اور خفّت سمجھتا۔ لیکن عزم و استقلال کے اس پہاڑ نے اس کو ایک چیلنج جانتے ہوئے اطاعت سے سر جھکا دیا اور وہ تمام رقم اپنی تنخواہ سے ادا کی۔ اس رقم کی ادائیگی پر خدا تعالیٰ نے خلیفۂ وقت کی زبان سے یہ پیغام بصورتِ سند عطا فرمایا کہ مرزا صاحب کا یہ اخلاص ساری جماعت احمدیہ جاپان کے لئے ایک مثال ہے۔
مکرم مرزا صاحب اکثر بڑے اخراجات اپنے ذمہ لے لیتے تھے۔ ٹوکیو مشن ہائوس کے کرایہ کا ایک حصہ کچھ عرصہ تک اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ چندوں کی تحریکات میں دل کھول کر حصہ لینے کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ 23 مارچ کے حوالہ سے جاپان کے سب سے معروف اخبار ’’جاپان ٹائمز‘‘ میں اشتہار دینے کا عنوان مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں زیرِبحث تھا جس کے لئے پانچ لاکھ ین کی ایک کثیر رقم درکار تھی اور ہم آٹھ ممبران مل کر ایک لاکھ تیس ہزارین کے وعدہ جات کر پائے تھے باقی تین لاکھ ستر ہزار ین کا انتظام کرنے پر غور ہورہا تھا کہ مکرم مرزا صاحب بھی تشریف لے آئے۔ دیر سے آنے پر معذرت کی اور پھر پوچھا کہ کون کونسے موضوع ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا کہ ابھی تک تواشتہار کی مد پربحث ہو رہی ہے کہ سب نے مل کر ایک لاکھ تیرہ ہزار ین کا وعدہ کیا ہے لیکن باقی کی بڑی رقم کا انتظام کرنا ہے۔ آپ نے کمال اطمینان سے کہا کہ باقی کے ’’تین لاکھ ستر ہزار ین‘‘ مَیں ادا کر وں گا۔
یہ تو ایک واقعہ ہے تاہم جس طرح وہ اپنے پاس سے جماعتی و انسانی خدمات میں بے حساب خرچ کیا کرتے تھے اُسے کہا جا سکتا ہے کہ اپنی تنخواہ سے جماعتی اخراجات کے بعد اگر کُچھ بچتا تو اپنے اوپر بھی خرچ کر لیتے تھے۔ اور ایک احسن جماعتی رواج کی طر ح ،تنخواہ سے سب سے پہلے چندہ ادا کرتے تھے۔
آپ کو انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ دوسروں کو بھی اگر انگریزی میں کسی قسم کی راہنمائی درکار ہوتی تو آپ کو فون کرتے تھے۔ کبھی غیرمسلموں کی انگریزی کتب کے حوالہ سے کوئی خاص بات بیان کرتے۔ دینی مطالعہ، معاشرتی، سیاسی اور سائنسی عنوانات سے نئی متعارف ہونے والی تحقیقات و ایجادات سے جماعت کو روشناس کروانا اور دنیا میں پیدا ہونے والے حالات سے ہر خاص و عام کو باخبر رکھنا آپ کی اوّلین کوشش ہوتی ،اور خدام میں بھی یہ شوق پیدا کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
اجتماعات و دیگر پروگراموں کوپوری توجہ اور اہتمام سے ترتیب دیتے۔ اجتماعات پر جاپان میں معروف ایک پُرمُہم کھیل جس میں جنگل یا پہاڑی طرز کے علاقہ میں جا کر نقشہ پر دئیے گئے مقامات ڈھونڈنا، کلائی پکڑنا، رسہ کشی، جھنڈا جنگ اور کبڈی وغیرہ کے مقابلے کرواتے اوربعض دفعہ ایسے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے جو اُن کے ذاتی مزاج سے مختلف ہوتے تھے تاہم اس لئے کہ دوسروں کی جھجک بھی دُور ہو۔ ایک مرتبہ کبڈی کے مقابلہ میں شامل ہوئے جس کا کوئی تجربہ نہ تھا اور اُس میں اُن کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن چہرے کی مسکراہٹ نہ گئی۔
ایک مرتبہ ایک اہم جماعتی عہدیدار کے ساتھ خاکسار کا شدید اختلاف ہوگیا۔ مکرم امیر صاحب نے مکرم مرزا صاحب کو ہمارے لئے بطور ثالث مقرر کیا۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوا تو ہم دونوں نے ازخود گلے مل کر اپنا تصفیہ کرلیا۔ یوں بغیر کسی کارروائی کے ان کا شخصیتی رُعب اور احترام ہی ہماری اصلاح اور تربیت کا باعث بنا۔ غرضیکہ ان کی خاموش اور باوقار صحبت ہی اکثر ہماری تربیت کا باعث ہوتی تھی۔
شاید ہی کوئی اجتماعی تبلیغی دورہ یا پروگرام مکرم مرزا صاحب نے چھوڑا ہو۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جماعتی پروگراموں میں اپنے دفتری اور پرائیویٹ جاپانی دوستوں کو بھی شامل کریں۔ بذریعہ کار متعدد تبلیغی پروگرام بنائے اور عموماً دُور دراز کے علاقوں میں تبلیغی پروگراموں کو ترجیح دیتے تھے۔
مکرم مرزا صاحب اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور استعدادوں کے باوجود اطاعتِ نظام اور اطاعتِ امیر کو ہمیشہ انتہائی اہمیت اور فوقیت دیتے تھے۔
اگرچہ مکرم مرزا صاحب کے ہاں مشیتِ ایزدی کے تحت اولاد نہ تھی تاہم آپ احباب ِ جماعت، خدام واطفال سے گویا اپنے ذاتی بچوں کی طرح محبت کرتے اور اُن کے لئے گہری فکر رکھتے تھے۔ خاموش طبع ہونے کے باوجود ہردلعزیز اتنے کہ گویا دلوں میں بستے تھے۔ تمام خدام سے مخلص اور گہری ہمدردی رکھتے اور عمل سے اظہار کرتے۔ شاید ہی کوئی دوست ہوں جن کے ساتھ اُن کی کوئی مہربانی، احسان، شفقت، مدد اور ہمدردی کا کوئی مُعاملہ نہ ہوا ہو۔ آپ ایک خاموش دعاگو وجود تھے۔ لوگوں کے مسائل اور پریشانیوں کو خود حل کرنے یا ان کوکسی بھی اچھے ذریعے سے اس پریشانی سے نکالنے میں نہ صرف بہت اہم رول ادا کرتے بلکہ یوں شامل ہوتے گویا خود مرزا صاحب کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے۔ وعدہ نبھانے والے، ہر حال میں سچ بولنے والے خواہ اس کے نتیجہ میں کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں