محترم مرزا غلام قادر شہید کا اپنے ماتحتو ں سے حسن سلوک

ایک مقولہ ہے کہ کسی انسان کی عظمت کا اندازہ لگانا ہو تواس کا اپنے ماتحتوں سے سلوک دیکھو۔
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2009ء میں مکرم چوہدری لطیف احمدصاحب نے ایک مضمون میں جو کتاب ’’مرزا غلام قادر صاحب‘‘ سے ماخوذ ہے، محترم مرزا غلام قادر شہید کے اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک پر اختصار سے روشنی ڈالی ہے۔

محترم مرزا غلام قادر صاحب 15 اپریل 1999ء کو شہید ہوئے۔ اس عظیم انسان کی پاکیزہ زندگی کے کئی پہلوؤں میں سے ایک ملازمین پر شفقت تھا۔ اُنہیں اپنے جیسا انسان سمجھتے ان سے حسن سلوک کرتے اور اُن کی عزت نفس کا خیال رکھتے۔
رشید احمد صاحب ابن مکرم شیر علی صاحب ٹریکٹر ڈرائیور بتاتے ہیں کہ شروع میں ہم نے بابو ٹائپ بندے کو دیکھا تو یہ خیال کیا کہ یہ کیا سمجھے گا زمینوں کو … مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا یہ بڑے حساب کتاب والے بندے ہیں ۔ فٹا فٹ حساب لگا لیتے ہیں کہ کتنے ایکڑ زمین میں ہل چلاتے وقت کتنا ڈیزل استعمال ہوا ہے یا کس فصل کو فی ایکڑ کتنا پانی چاہیے۔ خود بھی بہت اچھا ٹریکٹر چلا لیتے۔ چنانچہ خسارے میں جانے والی زمین سے منافع آنے لگا۔ محنت کے عادی تھے۔ گندم یا چاولوں کی بوریاں ٹرالی میں لادنی ہوتی تو مزدوروں کے ساتھ مل کر کام بھی کر لیتے۔ چھوٹے سے چھوٹے ملازم کے ساتھ بھی بڑی شفقت اور محبت سے پیش آتے اور ہر خوشی غمی کے موقع پر ان کا پورا خیال رکھتے اگر کسی کے کام سے خوش ہوتے تو انعام بھی دیتے مزارعوں کے بچوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے مزار عین آپ کے گرویدہ تھے۔
تین غیرازجماعت ملازمین (مکرم امیر علی ملاح، مہر لال اور کمیر علی جوئیہ) نے بتایا کہ میاں صاحب لین دین کے معاملات میں بڑے کھرے تھے۔ نوکروں سے مائی باپ جیسا سلوک کرتے خواہ کچھ بھی ہو جائے کسی کے جائز پیسے یا تنخواہ نہیں روکتے تھے۔ آپ بہت حیا دار انسان تھے ڈیرے پر ہماری بہو بیٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں آپ جب بھی زمینوں پر آتے تو ڈیرے کے اس جانب سے گزرتے جہاں ہماری کوئی عورت موجود نہ ہو۔اور پھر ڈیرے کے پاس سے گزرتے ہوئے نظر ہمیشہ نیچی رکھتے حالانکہ یہ ڈیرہ بھی آپ کا تھا اور یہ زمین بھی آپ کی۔ یہ سچ ہے کہ آپ ہماری عزتوں کے رکھوالے تھے۔
جب کسی فصل کے بیج ڈالنے کی باری ہوتی تو بڑی احتیاط کرواتے خود سامنے کھڑے ہوجاتے اور ہمیں کہتے کہ ایک سمت میں بیج ڈالو۔ باقاعدہ نگرانی کرتے، غصے میں کبھی نہ آتے تھے۔ اگر کسی سے پانی وغیرہ یا کوئی اور نقصان ہو جاتاتو در گزر کر دیتے پر اتنا ضرور دیکھتے کہ نقصان جان بوجھ کے کیا گیا ہے یا بشری کمزوری کے تحت ہوگیا ہے۔ ہم یا ہمارے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو ہر ممکن مدد کرتے اور ہسپتال سے بھی مدد دلواتے۔ مشکل وقت میں کسی کی بھی جو مالی مدد وغیرہ فرماتے تو بعد میں کبھی اس سے وصول نہ کرتے اور اگر کوئی شخص واپس لوٹانے کی کوشش کرتا تو کہتے تمہارے بچے بھی تو میرے بچوں کی طرح ہیں۔
آپ سب سے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگوکرتے اور کبھی اپنی علمیت کا رعب نہیں جھاڑتے تھے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے موقعہ پر ہر ملازم کو رقم دیتے۔ کئی دفعہ اکٹھا نیا کپڑا خرید کر لاتے اور ملازمین کو تحفتہً سوٹ وغیرہ بنوانے کے لئے دیتے تھے۔ اگر کسی بیلدار کے ہاں دوران سال اناج ختم ہوجاتا تو اسے ضرورت کے مطابق اناج مہیا کرتے اور بعد میں تقاضا نہ کرتے۔
آپ کا ملازمین کو سمجھانے کا انداز بڑا دلنشین تھا۔ ایک بار آپ نے کسی کھیت میں پنیری ڈالنے سے متعلق ہدایت دی کہ زمین مزید ہموار کرکے بیج ڈالنا۔ ملازمین نے محنت سے بچنے کے لئے اس ہدایت پر صحیح طور پر عمل نہ کیا۔ جب آپ کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے سرزنش کی اور کہا کہ اس بار تمہاری تنخواہ میں سے پچیس، پچیس روپے کاٹ لئے جائیں گے کیونکہ تم نے جانتے بوجھتے میری بات کو نظر انداز کیا ہے۔ گو کہ اس واقعہ کے چند روز بعد آپ نے کسی بہانے سے انعام کے طور پر پچاس پچاس روپے دیدئے اور انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر میں کسی پھلدار درخت کوبھی کاٹنے کے لئے کہوں تو تم نے اطاعت کرنی ہے ،اور اس کو کاٹ دینا ہے۔
ایسی تربیت کے ساتھ آپ کی شفقت نے محبت کے وہ دیپ روشن کئے کہ وہ کام جو عام طور پر بیگار سمجھ کر کیا جاتا ہے ایمانداری سے ہونے لگا اور زمین کی فی ایکڑآمد پہلے سے بہت بڑھ گئی۔
بیلدار کمیر علی جو ئیہ نے سنایا کہ میرے بچہ نے ایک دفعہ چھوٹی سائیکل کی فرمائش کی تو آپ نے مذاق سے کہا سامنے والے پلاٹ کی گھاس درست کردو تو نئی سائیکل لے دوں گا۔ بچہ خوشی سے کھل اُٹھا اور گھاس صاف کرنے لگا۔ آپ کو بچہ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آپ نے اس کو بڑی سائیکل د لادی تاکہ سکول جانے کے کام بھی آئے۔
امیر علی ملاح صاحب نے بتایا کہ زمینوں پر کام کرتے ہوئے ہم نے ایک بڑا سانپ دیکھا تو میاں صاحب نے کہا کہ مَیں سانپ کو روکے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تم ڈیرے سے ڈنڈا لے آؤ۔ مَیں نے سمجھایا کہ سانپ خطرناک ہے اور آپ نے فل بوٹ بھی نہیں پہنے ہوئے بہتر ہے کہ اسے جانے دیا جائے۔ مگر آپ نے فرمایا تم دن رات یہاں کام کرتے ہو تمہارے بچے بھی یہاں آتے ہیں یہ تمہیں تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ڈیرہ سے ڈنڈا لانے میں جس قدر وقت لگا آپ نے سانپ کو روکے رکھا پھر اسے مار دیا گیا۔
آپ کے دفتر کے کارکنوں نے بتایا کہ دس سال کے عرصہ میں انہوں نے میاں صاحب کو صرف ایک بار غصہ میں دیکھا جب ایک کارکن کسی بیماری کے باعث دفتر میں بیہوش ہو گئے۔ میاں صاحب نے فوراً ایمبولینس کے لئے فضل عمر ہسپتال فون کیا اور اس دوران انتہائی بیقراری سے اپنے کارکن کے ہاتھ اور سر وغیرہ سہلاتے رہے۔ ایمبولنس نے آنے میں ذرا دیر لگائی تو آپ بار بار ایک کرب کی حالت میں غصہ سے ہسپتال فون کرتے رہے۔ آپ کے اس رویہ میں کوئی تصنّع یابناوٹ نہ تھی بلکہ واقعتا یہ اس سچی محبت کا اثر تھا جو آپ کو اپنے کارکنان سے تھی۔
حضرت میاں صا حب کے ایک مزارع مہر لال صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے بہت بندے دیکھے ہیں مگر ان جیسا نہیں دیکھا۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف مہر لال صاحب نے ہی نہیں چشم فلک نے ایسا بندہ کم دیکھا ہو گا جس نے محبت، اپنائیت اور شفقت سے سب کے دل جیت لئے ہوں۔ انہی زمینوں پر کام کرتے ہوئے آپ سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ ان خدمت گزاروں نے اپنے محسن کو اجنبیوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دیکھا اور پھر کبھی نہ دیکھا۔

دست عزرائیل میں مخفی ہے سب راز حیات
موت کے پیالوں میں بٹتی ہے شراب زندگی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں