محترم مولاناظہورحسین صاحب (مبلغ روس)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 جنوری 2011ء میں مکرم فضل الرحمٰن ناصر صاحب نے اپنے استاد محترم مولانا ظہور حسین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

(فضل الرحمٰن ناصر)

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہم نے قرآن کریم محترم مولانا ظہور حسین صاحب سے پڑھا۔ وہ ایک عجیب روحانی وجودتھے۔ ان کی نمازوں کی کیفیت آج بھی یاد ہے کہ جب چلنا ان کے لئے قریباً ناممکن تھا۔ بہت معمر اور معذور ہونے کی وجہ سے چارپائی پربیٹھ کرنہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز اداکرتے اورعصراورمغرب کی نمازکے لئے اُن کی خواہش ہوتی کہ کوئی اُن کوسہارادے کر مسجدلے کر آئے۔ اور جب ان کو کندھوں پر سہارا دے کر مسجد لایا جاتا تو ان کے پاؤں زمین پر قریباً گھسٹ رہے ہوتے۔ یہ نظارہ دیکھنے والے اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
آپ کا چہرہ مطمئن اور مسکراتا ہوا تھا۔ آپ نے احمدیت کی خاطر روس کے یخ بستہ علاقوں میں جس طرح مصائب برداشت کئے کہ کئی کئی دن تک شدید موسموں میں رسیوں میں جکڑ کر رکھے جاتے، ان تکالیف کے نقش آخر عمر تک ان کے جسم پردیکھے جاسکتے تھے۔ لیٹے اور بیٹھے مسلسل دعاؤں میں مصرو ف رہتے اور اس کے ساتھ کبھی کبھار خاص لَے سے درثمین کے اشعار اردو اور فارسی کے ترنم سے پڑھتے جس میں ایک عجیب درد محسوس ہوتا۔
ایک بار سبق دیتے ہوئے کسی غلطی پر آپ نے مجھے ڈانٹا تو میرے آنسو نکل آئے۔ اس پر آپ کا غصّہ فوراً ختم ہوگیا اور اپنے تکیہ کے نیچے سے بادام کی چند گریاں نکال کر مجھے دیں۔ مجھے ہاتھ آگے بڑھانے میں انقباض تھا اس پر آپ بڑی شفقت سے بہت دیر تک ایمان افروز واقعات سناتے رہے جو زیادہ تر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے وہ واقعات تھے جب آپ حضورؓ کے درس میں شامل ہوتے رہے تھے۔ بظاہر ناراضگی کے اس واقعہ کے بعد پھر مہربانیوں کا مستقل سلسلہ شروع ہوگیا۔
آپ کے گھرکا ماحول بہت صاف ستھرا تھا۔ معذوری کے باوجود آپ کا بستر، چادر، کمرہ، لباس باوجود سادگی کے نہایت صاف ستھراہوتا۔ اس میں آپ کی اہلیہ اور بچوں کی خدمت کابہت بڑا دخل تھا لیکن یہ آپ کی طبیعت کی نفاست کا بے تکلف اظہار بھی تھا۔ بڑھاپے اور شدید بیماری میں بھی آپ کے کمرہ سے ایک خاص قسم کی خوشبوآیاکرتی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو جو خراج تحسین روس سے واپس آنے پر پیش فرمایاوہ ایمان کوتازہ کرتاہے۔ فرمایا: ’’انہوں نے یہ بتا دیاکہ خدانے کیسے کام کرنے والے مجھے دیئے ہیں۔ خدانے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفرکو ایک لمحہ میں کاٹ کررکھ دیتی ہیں۔ خدانے مجھے وہ دل بخشے ہیںجو میری آوازپر قربانی کرنے کے لئے تیارہیں میں انہیں سمندرکی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تووہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیارہیں۔ میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تووہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں۔ میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کاحکم دوں تووہ جلتے ہوئے تنوروں میں کود کر دکھا دیں‘‘۔
آپ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے بے پناہ غیرت تھی اورخلافت کے ساتھ والہانہ پیار اور عشق تھا۔ خاموشی کے ساتھ بغیرکسی نام ونمودکے خداکی محبت میں محو بغیر تھکے جانفشانی سے خدمت کرتے چلے جانا آپ کی زندگی کاخلاصہ ہے۔ آپ کی سوانح ایسی سچی اور سادہ الفاظ میں لکھی ہوئی سوانح عمری ہے کہ جتنی بار مطالعہ کریں اس کی اثرانگیزی کم نہیں ہوتی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک بار فرمایا: ’’مولوی ظہورحسین صاحب جب اکیلے روس میں داخل ہوئے تو وہاں آ پ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد ایک لمبا دورآپ کواذیتیں دینے کا شروع ہوا۔اسی حالت میں جبکہ آپ قید تھے چونکہ آ پ کورشین زبان نہیں آتی تھی۔ کوئی ساتھیوں سے رابطہ نہیں تھا آ پ نے رؤیامیں دیکھاکہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’ظہورحسین! آپ جیل میں دعوت الی اللہ کیوں نہیں کرتے ‘‘۔ اس رؤیاسے خدائی منشاء سمجھ گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے روسی زبان سیکھنی شروع کردی اورچونکہ کچھ مسلمان قیدی بھی تھے۔ اس لئے ان سے زبان بھی سیکھی اوران کو دعوت الی اللہ بھی شروع کی۔چنانچہ سب سے پہلا روس میں جواحمدی ہوا ہے وہ جیل میں ہواہے۔ مولوی صاحب کو نمازوں میں منہمک دیکھتے تو اس کا اور ان کی تلاوت کا ان کے ساتھیوں پر گہرا اثر ہوا اور اسی کے نتیجے میں ان کوزیادہ دلچسپی پیداہوئی۔ روس میں وہ شخص جو سب سے پہلے احمدی ہواہے وہ عبداللہ خان تھا۔ یہ عبداللہ خان تاشقند کا رہنے والا تھا اور اپنے علاقہ کابہت بڑا بارسوخ انسان تھا۔ عبداللہ خان کے ذریعے پھر اَور قیدیوں میں بھی احمدیت میں دلچسپی پیداہوئی اور کئی اور قیدیوں نے ان کی معرفت پھربیعتیں کیں۔ اس کے بعد مولوی ظہورحسین صاحب کے ساتھ مرکز کا بھی رابطہ کچھ عرصہ کٹارہا۔ پھرجب وہ واپس آئے تواس وقت اتنی ہوش نہیں تھی کہ بتائیں کہ کہاں کہاں احمدی ہیں اوران سے کس طرح رابطہ قائم کیاجاسکتاہے ۔چنانچہ رابطہ بالکل کٹ گیا اور رابطہ کٹنے کے باوجود مولوی ظہورحسین صاحب ہمیشہ اس بات پرمُصررہے اوراس بات کے قائل رہے کہ وہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہوچکی ہیں اورجوقائم ہیں جو پھیل بھی رہی ہوں گی، لیکن ہمیں ان کی تفاصیل کاعلم نہیں تھا۔ سب سے پہلے جو مجھے روس میں جماعت احمدیہ کے متعلق علم ہوا وہ ایک روسی انسائیکلوپیڈیا کے مطالعہ سے ہوا جس میں جماعت احمدیہ کے اوپرایک روسی سکالر نے مقالہ لکھاہے اور اس مقالے میں احمدیت کے متعلق کئی قسم کی باتیں درج ہیں۔ روسی مقالہ نگارنے بڑی تحدی کے ساتھ یہ لکھاکہ روس میں بھی احمدیہ جماعتیں موجودہیں۔ لیکن ان کاتعلق مرکزسے کٹ چکاہے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں