محترم مولانا بشیر احمدخادم صاحب درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم منیر احمد خادم ؔصاحب (ناظر اصلاح و ارشاد قادیان) نے اپنے والد محترم مولانا بشیر احمد خادم صاحب کے حالات زندگی تحریر کئے ہیں ۔ آپ کا مختصر ذکرخیر قبل ازیں 5؍جولائی 2002ء کے شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
محترم مولانا بشیر احمد خادم صاحب قریباً 1925ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں آپ کی دادی محترمہ حضرت مائی جیواں صاحبہؓ نے حضرت مولوی جان محمد صاحبؓ کے ذریعہ بیعت کی توفیق پائی۔ اس کے بعد آپ کے والد حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ اور والدہ حضرت عمراں بی بی صاحبہؓ اور دیگر عزیز بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے۔ ان تمام بزرگوں کی انتہائی مخالفت ہوئی مگر یہ سب بفضل خدا ثابت قدم رہے۔
آپ کے خاندان کا ڈسکہ میں بھینسوں کے بیوپار کا اچھا کاروبار تھا۔ دو مکان تھے۔ آپ کی والدہ آپ کے بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں اس لئے 1930ء میں آپ کے والد ڈسکہ کی جائیداد بیچ کر قادیان آگئے اور یہاں زمین خرید کر مکان بنوایا۔ آپ تین بھائی تھے۔ چھوٹے بھائی نذیر احمد صاحب نے بھی زندگی وقف کی اور تحریک جدید کی زمینوں پر سندھ میں بطور منشی مقرر ہوئے۔
محترم خادم صاحب نے چھٹی جماعت تک تعلیم پائی اور پھر بعض مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم ترک کردی۔ 1941ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر فوج میں بھرتی ہوگئے جہاں خوب تبلیغ کی توفیق پائی۔ پانچ سال بعد 1946ء میں فوج سے فراغت حاصل کرکے دیہاتی مبلغین کی کلاس میں شامل ہوکر زندگی وقف کردی۔ اپریل 1946ء میں آپ کی شادی حضرت فضل الدین صاحب عبد اللہؓکی بیٹی محترمہ عطیہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ ان سے خدا تعالیٰ نے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں ۔ دوسری شادی سے بھی دو بیٹے ہوئے۔ آپ کے آٹھوں بیٹوں کو مولوی فاضل کرکے زندگیاں وقف کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔
1947میں تقسیم ملک ہوا تو حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر محترم خادم صاحب نے بھی حفاظتِ مرکز کے لئے خود کو پیش کردیا۔ دورِ درویشی میں آپ نے بطور مربی متعدد مقامات پر چالیس سال تک خدمت کی سعادت حاصل کی اور اس دوران آپ کے ذریعہ گیارہ صد سے زائد بیعتیں ہوئیں جبکہ دو درجن سے زائد بچوں کو قادیان لاکر اور بعضوں کا خرچ خود برداشت کرکے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخلہ دلوانے کی توفیق ملی۔ آپ کو تبلیغ کا جنون تھا اور نئے نئے طریقے دعوت الی اللہ کے نکالا کرتے تھے۔ قادیان میں لمبا عرصہ آپ دفتر زائرین میں خدمت بجا لاتے رہے۔ کامیاب تبلیغ کے لئے خاص طور پر نماز تہجد میں رو رو کر دعا کرتے تھے ۔ تمام خدام سلسلہ اور خلیفہ وقت کے لئے دعائیں کرنا آپ کا معمول تھا۔ نماز تہجد بہت رقت اور سوز کے ساتھ ادا کرتے تھے اور چلتے پھرتے بھی ذکر الٰہی کرتے۔ گھر میں بھی بچوں کی تربیت کا بلکہ ماحول کی تربیت کا بھی خاص طور پر خیال رکھتے تھے ۔
آپ کو آٹھ سال بحیثیت صدر مجلس انصاراللہ بھارت خدمت کی توفیق ملی۔ اس دوران مجلس کا نیا دفتر تعمیر کروانے کی توفیق بھی ملی۔ اسی طرح بھارت میں مجلس کے اجتماعات کا آغاز بھی آپ کے دَور میں ہوا۔
خدمت خلق آپ کی زندگی کا خصوصی شعار تھا۔ یتیم بچوں اور بچیوں کو گھر میں لاکر ان کی پرورش کرتے تھے ۔کئی غریب اور یتیم بچیوں کی شادیاں اپنے گھر میں کیں ۔ ایک مرتبہ یوپی کے گاؤں انجولی سے حکیم عبد القدوس صاحب کو (جو لاوارث تھے) ،آپ کے بیٹے مکرم ظہیر احمد خادم صاحب قادیان لائے۔ اُن کی ایک زمین تھی جو انہوں نے جماعت کے نام وقف کر دی تھی اور پھر وہ آپ کے گھر میں رہا کرتے تھے اور آپ معصوم بچوں کی طرح اُن کی نگہداشت کیا کرتے تھے ۔ایک دفعہ گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ آپ حکیم صاحب کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت کی وجہ سے جنت کی بشارت دی ہے۔
آپ نہایت پوشیدہ طور پر غربا کی مدد کیا کرتے تھے اور بعض دفعہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کرکے ایسا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب کہ گھر میں گندم کی قلّت تھی، فاقے چل رہے تھے۔ آپ کی درخواست پر آپ کو بیس کلو گندم جماعتی اسٹور سے ملی۔ آپ جب گندم لے کر گھر جا رہے تھے تو راستے میں ایک دوست نے کہا کہ آپ تو یہاں کے پرانے باشندے ہیں آپ کو تواَورگندم مل جائے گی، میرے گھر میں گندم نہیں ہے۔ اس پر آپ نے یہ گندم ان کو اُٹھوادی اور خود خالی ہاتھ گھر آگئے ۔
آپ کی پہلی بیوی عطیہ بیگم صاحبہ کی وفات 1970ء میں ہوئی تھی۔ ان سے آپ کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔ مرحومہ نے آپ کے ساتھ تبلیغی میدان میں عورتوں میں تبلیغ اور تربیت و تنظیم لجنہ اماء اللہ کا بہت کام کیا اور بچوں کو قرآن کریم اور بڑی عمر کی مستورات کو قرآن کریم مع ترجمہ پڑھانے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ ان کی وفات کے ایک دن قبل تک چلتا رہا۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
حضرت مولوی صاحب نے اپنے متعدد رؤیا و کشوف ڈائری میں تحریر کئے ہیں جن میں سے چند اس مضمون میں شامل ہیں ۔ ایک کشف میں آپ نے نیم بیداری کی حالت میں اللہ تعالیٰ جلّ جلالہ کو انسان کی شکل میں کھڑا دیکھا۔ آپ اُن سے لپٹ لپٹ کر پیار کررہے ہیں اور پیار کے ساتھ جسم دبا تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اللہ میاں واقعی مخلوق پر آپ کے بڑے احسان ہیں آپ بہت ہی مہربان ہیں ۔ ہمیں آپ کا بیحد شکر کرنا چاہئے۔
ایک روز میاں بیوی تعلیم یافتہ ہندو قوم سے قادیان آئے اور تحقیق کی غرض سے مہمان خانہ میں ایک دن کے لئے ٹھہر گئے۔ آپ نے ان کو پیغام حق پہنچایا اور کچھ لٹریچر دیا۔ اگلی صبح نماز فجر کے بعد تلاوت کرکے آپ لیٹ گئے اور مہمانوں کے پاس جانے میں بے توجہی کا اظہار کررہے تھے کہ الہام ہوا: ’’ وصل مولیٰ کے جو بھوکے ہیں انہیں سیر کرو‘‘۔ چنانچہ فوراً اُٹھ کر گئے اور ان سے محبتِ الٰہی کے موضوع پر باتیں کیں ۔ خدا کے فضل سے اُن پر ایسا اچھا اثر ہوا کہ وہ احمدیت میں شامل ہوگئے۔
ایک دوپہر آپ نے خواب دیکھا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے جسم کو حضور علیہ السلام کے جسم کے ساتھ مل رہے ہیں ۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام نے ایک بہت بڑا پیالہ شربت کا بھر کر آپ کو دیا۔ آپ نے پیالہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر رقّت بھر ے لہجے میں عرض کیا کہ حضور دعا فرماویں کہ یہ پیالہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت کا ہو۔ حضورؑ نے فرمایا: آمین۔ پھر آپ نے وہ پیالہ پی لیا تو کچھ بچا ہوا شربت بھی حضورؑ نے آپ کے پیالہ میں ہی ڈال دیا اور وہ بھی آپ نے پی لیا۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھٹو اور ضیاء الحق کے بدانجام کے بارہ میں بھی قبل از وقت بذریعہ کشوف اطلاع دی۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ الہاماً قادیان کو چھوڑ کر باہر نہ جانے کا بھی ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ایک بار تہجد کی نماز کی ادائیگی کا ارشاد فرمایا۔ بارہا پریشانیوں کے دوران تسلّی آمیز الہام ہوئے۔ اور خلافت ثالثہ کے ابتدائی دَور میں آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت مرزا طاہر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے آئے ہیں اور آواز آئی کہ ’قادیان کی واپسی کا تعلق مرزا طاہر احمد کے ساتھ ہے‘۔ آپ سمجھ گئے کہ چوتھے خلیفہ حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہوں گے اور قادیان کی واپسی کا عظیم نشان ان کے ذریعہ ظاہر ہوگا۔
محترم بشیر احمد خادم صاحب کی وفات 26؍جولائی 2001ء کو ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں