محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جولائی 2009ء میں مکرم قمر احمد عامر صاحب اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کے ساتھ بطور کارکن تین سال کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ کو قرآن کی ایسی محبت تھی کہ ہر وقت قرآن کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی کتاب لکھتے رہتے۔ کارکنان سے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا کہا کرتے۔ چنانچہ آپ کے کہنے پر مَیں نے اپنے محلہ میں ترجمہ کلاس شروع کی۔

مولانا بشیر احمد قمر صاحب

وفات سے پہلے قرآن سے متعلق احادیث جمع کرنے کا کام کررہے تھے۔ کارکنان کو ٹوپی پہننے کی تاکید بھی کرتے۔ کئی لوگ دفتر میں پڑھنے آتے رہتے۔
میری بعض مشکلات کا علم ہونے پر غیرمعمولی مدد کی اور بہت فکر کے ساتھ راہنمائی کرتے رہے۔ کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ لطیف مزاح فرماتے۔ کتنی بھی تکلیف ہو دفتر ضرور آتے اور چھٹی کبھی نہ کرتے۔ اگر کوئی طبیعت کی خرابی کا کہہ کر چھٹی مانگتا تو پوچھتے کہ یہ کونسی بیماری ہے۔ وفات سے چند ماہ پہلے آپ کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق چند دن گھر پر رہے اور پھر دفتر میں بستر لگوالیا تاکہ دفتر ضرور آسکیں۔ جماعتی اخراجات کو ہرممکن بچانے کی کوشش کرتے۔
کسی پر بوجھ بننا پسند نہ کرتے۔ کبھی میری گاڑی کو استعمال کرتے تو اصرار کرکے پیٹرول کے پیسے دیتے۔ آخری بیماری میں ایک طبّی ٹیسٹ کے لئے آپ کو اسلام آباد بھجوایا گیا تو اُسی روز تکلیف اٹھاکر واپس آگئے کہ مَیں جماعت کی گاڑی کو اتنی دیر نہیں روک سکتا اور نہ ہی گیسٹ ہاؤس مصروف کرنا چاہتا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں