محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍دسمبر 2006ء میں محترم مولانا ظہور حسین صاحب کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جو دسمبر 1977 ء میں رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش غالباً 1899ء کی ہے۔ ہم تین بھائی تھے۔ میرے والد محترم شیخ حسن بخش صاحب میرے بچپن میں ہی امر تسر میں وفات پا گئے جس کے بعد بڑے بھائی شیخ محمد حسین صاحب (انسپکٹر ڈاکخانہ جات جہلم) مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور منجھلے بھائی شیخ مظہر صاحب تعلیم کے لئے قادیان چلے گئے۔ جہلم میں مَیں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا لیکن میرا دل بالکل نہیں لگتا تھا اس لئے 1910ء میں مجھے قادیان بھجوادیا گیا جہاں میرا دل ایسا لگا کہ گھر آنے کو بھی نہ چاہتا تھا۔ قادیان میں مَیں پانچویں جماعت میں داخل ہو گیا۔ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مکرم مولوی صدرالدین صاحب نے چند دنوں کے بعد مجھے مشورہ دیا کہ تم کمزور ہو اس لئے چوتھی جماعت میں ایک سال اَور لگاؤ۔ میرے منجھلے بھائی نے میری طرف سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں درخواست لکھی کہ میں یتیم ہوں اور پانچویں جماعت میں ہوں لیکن ہیڈماسٹر صاحب مجھے چوتھی جماعت میں داخل کر رہے ہیں ازراہ شفقت مجھے پانچویں میں ہی رہنے دیا جائے۔ جب مَیں نے خود حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست پیش کی تو آپؓ نے لکھا کہ اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کر لیا جائے۔ میں سمجھا کہ مجھے پانچویں جماعت میں ہی رہنے دیا جائے گا لیکن میرے بھائی نے کہا کہ حضورؓ نے تو فرمایا ہے کہ اسے عربی مدرسہ میں پڑھایا جائے جہاں عربی کی بڑی بڑی کتب پڑھنی پڑیں گی اور وہ تم کیسے پڑھوگے؟
میں دوبارہ حضورؓ کے پاس گیا اور عرض کی کہ نہ میرے باپ نے عربی پڑھی اور نہ ہی میرے دادا نے۔ مجھے تو قرآن کریم بھی اچھی طرح پڑھنا نہیں آتا، عربی کی اتنی بڑی بڑی کتابیں کس طرح پڑھوں گا؟۔ حضورؓ نے بڑے جوش سے انگلی ہلا کر فرمایا:’’تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم مدرسہ احمدیہ میں پڑھو‘‘۔ آپؓ کے اس فرمان کا مجھ پر گہرا اثر ہوا اور میں نے بھائی سے کہا کہ میں اب مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھوں گا۔ چنانچہ میں مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوگیا۔
میری درخواست پر حضورؓ نے مولوی محمد علی صاحب کو میرا وظیفہ لگانے کا ارشاد فرمایا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ بجٹ میں زیادہ سے زیادہ چھ روپے ماہوار کی گنجائش ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ باقی رقم میں خود ادا کروں گا۔ چند دنوں بعد جب حضورؓ درس دینے کے لئے مسجد تشریف لائے تو میں حضور کے سامنے صف پر بیٹھاہواتھا۔ حضور نے میرا نام لئے بغیر میرا سارا واقعہ بتایا۔ درس کے بعد حضورؓ نے ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور فرمایا: ’’تم سمجھتے ہو خدا تعالیٰ عربی پڑھنے والوں کو رزق نہیں دیتا، مجھے دیکھو میںنے بھی تو عربی کے یہی حروف پڑھے ہیں‘‘۔ خدا شاہد ہے کہ آج تک مجھے رزق کی تنگی نہیں ہوئی۔
اس زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے اور یہی تلقین فرمایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کے قیام کی اصل غرض حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے قائم مقام علماء پیدا کرنا ہے۔ اگر تم میں سے کوئی دنیا کمانا چاہتا ہے تو وہ چلاجائے۔
کچھ دنوں بعد میرے بڑے بھائی کو میرے وظیفہ کے بارہ میں پتہ چلا تو انہوں نے فوراً خط لکھا کہ اس کا وظیفہ بند کیا جائے اور بیس روپے بھیج دئیے۔
جب حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ: ’’کوئی سلسلہ تنخواہوں کے ذریعہ تبلیغ کرکے کامیاب نہیں ہوا اس لئے نوجوان اس عہد کے ساتھ اپنی زندگیاں وقف کریں کہ کسی موقع پر بھی ہم سے کچھ نہیں مانگیں گے اور ہم جہاں چاہیں ان کو بھیجیں گے‘‘۔ اس پر اس عاجز نے بھی زندگی وقف کرنے کی درخواست پیش کر دی۔
1920ء میں مَیں نے مولوی فاضل پاس کیا تو بھائی کی خواہش تھی کہ مَیں B.A. کروں۔ جب مَیں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا بتایا تو بھائی نے علیحدہ خرچ بھیجنے پر معذرت کرلی۔ پھر مَیں حضورؓ کی ہدایت پر مربیان کلاس میں داخل ہو گیا۔ جب تین سال بعد مربیان کلاس فارغ ہوئی توفتنہ ارتداد جاری تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے کشمیر جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضورؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ نے مجھے ہدایت دی کہ کسی سے کچھ مانگنا یا لینا نہیں ہے۔ راستہ میں مجھے خیال آیا کہ گزارہ کیسے ہوگا؟ تو معاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ صحا بہ کرام ایک کھجور کھاکر گزارہ کرتے تھے۔ میں چنے کھاکر گزارہ کر لوں گا۔ اسی طرح صحابہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے، میںبھی کھا لوں گا۔
جب میں جموں پہنچا تو انجمن نے مجھے کرایہ کے پانچ روپے دئیے اور جموں سے 42 میل کے فاصلہ پر ایک علاقہ میں بھیجا۔ لیکن میں نے کرایہ لینے سے انکار کر دیا۔ اسی اثناء میں ناظر صاحب دعوت الی اللہ کا خط آیا کہ تمہارا ماہانہ الائونس پندرہ روپے مقرر کیا جاتا ہے۔ میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ادھم پور پہنچ کر کام شروع کردیا۔ آریوں کا ایک نوجوان مبلغ وہاں آیا ہوا تھا اور عصر کے بعد سر بازار تقریر کرتا تھا۔ اُس سے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نمایاں کامیابی عطا فرمائی۔
قادیان واپس پہنچنے پر حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات ہوئی۔ دفتر نے بتایا کہ حضورؓ نے مجھے روس بھجوانے کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ اس پر میں نے فارسی سیکھنی شروع کردی ۔ شہزادہ عبدالمجید صاحب بھی تہران تک میرے ساتھ جا رہے تھے۔ حضور نے ہمارے لئے سو سو روپیہ کی منظوری عنایت فرمائی۔ جب حضورؓ 1924 ء میں لندن کے لئے روانہ ہوئے تو ہم بھی امرتسر تک حضور کے ہمراہ گئے۔ وہاں سٹیشن پر حضورؓ نے ہمیں دعا کراکے رخصت کیا۔ ہم لاہور، کوئٹہ اور رباب سے ہوتے ہوئے مشہد (ایران) پہنچ گئے۔ یہ سارا سفر کچھ پیدل، کچھ خچروں پر اور کچھ گھوڑا گاڑی پر ڈیڑھ ماہ میں کیا۔ مشہد میں مجھے تپ محرقہ ہوگیا۔ شہزادہ صاحب تو تہران چلے گئے لیکن میں 21 دن بیمار رہا۔ باوجود بہت کوشش کے پاسپورٹ بھی نہ ملا۔ چنانچہ ایک نوجوان کی مدد سے ایک رات سرحد پار کرنے کی کوشش کی لیکن انگریزوں کا جاسوس ہونے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ پندرہ دن وہاں رہا۔ پھر تین ماہ سمر قند کے سیاسی قید خانہ میں گزارے۔ اس عرصہ میں نہ تو غسل کرسکا اور نہ لباس تبدیل کر سکا۔ اس دوران میرا پیارا خدا خوابوں میں مجھے تسلی دیتا رہا۔ ایک بار حضورؓ نے خواب میں مجھے ڈانٹا کہ میں نے تمہیں تبلیغ کے لئے بھیجا ہے اور تم چپ کر کے بیٹھے ہو۔ اس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور استغفار کیا اور ایک ساتھی قیدی سے روسی زبان سیکھنی شروع کردی۔ انہی دنوں ایک ایرانی کو میرے متعلق خواب آئی کہ مجھے تاشقند لے گئے ہیں اور مجھے گولی ماردینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ جب باہر لے جانے لگے تو آواز آئی کہ اس کو نہ مارو یہ میرا بندہ ہے۔ آواز صاف تھی لیکن کہنے والے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ دوبارہ آواز آئی۔ اس کے بعد میرے سوا سب لوگ زمین میں دھنس گئے۔
مجھے تاشقند اور ماسکو میں جو تکالیف آئیں وہ بالکل اس خواب کی شرح تھیں۔ بعض دفعہ مجھے مرنے کا یقین ہو گیا تھا۔ تین ما ہ اشک آباد میں گزارکر مجھے تاشقند لے جایا گیا۔ وہاں پہ میرا باقاعدہ بیان لینا شروع ہوا۔ کئی دفعہ وہ مغرب کے وقت شروع کرتے اور سحری کے وقت تک میرا بیان لیتے رہتے۔ جب اِس سے یہ بات نہ معلوم ہو سکی کہ میں جاسوس ہوں تو انہوں نے تاشقند کے ایک تجربہ کار جاسوس عبدالقادر کو میرے کمرہ میں قیدی کی شکل میں بھیجا تاکہ وہ سراغ لگائے کہ میں جاسوس ہوں یا نہیں۔ اس سے اگلے دن میں نے خواب دیکھا کہ میرے اس کمرہ میں 7,8 قیدی میرے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں اور تشہد کی حالت میں ان میں سے ایک نے میری آنکھوں میں چولہے کی راکھ ڈالی ہے جس سے میری آنکھ مکدر ہوگئی ہے۔ میں نے سمجھا کہ مجھے ان میں سے کسی سے تکلیف پہنچے گی۔ چنانچہ چند ہی دن بعد عبدالقادر نے حکومت کو بتایا کہ یہ انگریزوں کا جاسوس ہے جس پر دوسرے قیدیوں نے بھی ڈر کر مجھ سے تعلقات ختم کردیئے۔
اس کے بعد مجھے ایک زمیںدوز قیدخانہ میں لے گئے۔ ایک رات سپاہیوں نے آکر مجھے اپنا بستر باندھنے کو کہا۔ اُن کے ساتھ عبدالقادر بھی تھا۔ وہ باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں کو جگادیا کہ یہ مجھے لے جارہے ہیں۔ دوسرے قیدی میرے بہت معتقد تھے اور کئی دل سے احمدی تھے۔ کچھ دیر بعد جب عبدالقادر اور سپاہی آئے تو اُنہیں سب کو جاگتا دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک کاغذ اپنی طرف سے جاسوسی کے متعلق لکھ کر میرے بستر میں ڈال دیں۔ ایک قیدی نے میرے بستر کا ایک ایک کپڑا جھاڑا اور پھر بچھایا جس کی وجہ سے سپاہی اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ قیدیوں نے بڑی محبت سے مجھے الوداع کیا۔ ترک قیدی میرا بستر اٹھا کر باہر تک لایا۔ پھر رات کو ایک کمرہ میں مجھے مارا گیا اور میری مشکیں باندھ کر دونوں ہاتھ پیچھے باندھے جس سے بے حد درد ہوا۔ پھر مجھے لٹاکر دوبارہ باندھا اور ایک چھوٹا تختہ منگا کر اس پر لٹاکر پھر باندھ دیا۔ ساری رات میں بندھا رہا اور دعا کرتا رہا کہ : ’’اے خدا! تُو میرے آقا کو خبر دے کہ مجھے یہ تکلیف ہے تاکہ وہ تیرے حضور دعائیں کریں اور میری مشکل کشائی ہو‘‘۔ رہائی کے بعد قادیان آکر مجھے پتہ چلا کہ حضورؓ کو اسی رات میری تکلیف دکھائی گئی۔ دوسرے ہی دن حضورؓ نے مفتی محمد صادق صاحبؓ ناظرا مور خارجہ کو فرمایا کہ برطانیہ کے نمائندہ کی معرفت ما سکو خط لکھو کہ ہم نے اپنا ایک مربی ایک سال سے وہاں بھیجا ہوا ہے جس کی ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ہمیں شک ہے کہ وہ قید میں ہے اور اس کو تکلیف دی جا رہی ہے۔
اُس رات مجھے باندھا گیا تو میرے پیشاب میں تیزابی مادہ پیدا ہوگیا اور پیٹ کا اوپر والا حصہ بہت متاثر ہوا۔ میری بیماری کو دیکھ کر ایک بڑا افسر آیا تو میں انہیں سارا ظلم و ستم بتایا۔ اس پر افسر نے مجھے ہسپتال بھجوادیا جہاں مَیں دو ماہ زیرعلاج رہا۔ جب واپس آیا تو وہ افسر جو مجھے تکلیف دیتا تھا وہاں سے تبدیل ہو گیاتھا۔ پھر ایک صبح کوئی بڑا افسر آیا تو خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ تمہارے لئے برکت کا موجب ہوگا۔ وہ افسر معائنہ کر کے چلا گیا اور تیسرے دن اس نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ جب میں جا رہا تھا تو خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ زار روس کی پیشگوئی بیان کروں۔ کمرہ میں مجھے کرسی دی گئی۔ ترجمان ایک ترک نوجوان تھا جو میرے لمبے بیانات بھی ترجمہ کرتا رہا تھا اور تقریباً احمدی ہو چکا تھا۔ افسر نے پوچھا کہ اگر واقعی خدا ہے اور تمہارے امام نے تمہیں توحید کی اشاعت کے لئے بھیجا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھاؤ۔ میں نے پوچھا: کونسا نشان؟۔ کہنے لگا کہ تمہارے امام کو علم ہو جائے کہ تم یہاں ہو اور وہ اس کے لئے کوشش کرے اور تمہیں بھی علم ہوجائے۔ میں نے بڑے آرام سے اُسے کہا کہ ان کو علم ہو گیا ہے اور خدا نے مجھے خبر دی ہے کو حضور کوشش کر رہے ہیں۔ اُس نے دو تین دفعہ زور دے کر پوچھا کہ میں نشان مانگتا ہوں۔ جبکہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ علم ہو چکا تھا کہ حضور کو پتہ لگ گیا ہے اور یہ افسر محض میرا امتحان لے رہا ہے۔ میں نے کہا کہ جس طرح یہ رات اور آپ میرے افسر ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہو چکا ہے تو اس نے مسکرا کر منہ دوسری طرف کرلیا۔ پھر پوچھا کہ تم مجھے اپنے حق میں کیسا سمجھتے ہو؟ تومیں نے کہا کہ دو دن قبل جب آپ آئے تھے تو خدا نے مجھے اطلاع دی تھی کہ آپ کا وجود میرے لئے برکتوں کا باعث ہے ۔ اس کے بعد میں نے زار روس کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کا تفصیلی ذکر کیا۔ افسر نے پوچھا کہ کیا یہ پیشگوئی واقعہ سے پہلے کی ہے؟ میں نے کہا یقینا اور یہ پیشگوئی ’’براہین احمدیہ‘‘ میں موجود ہے اور میری ان کتابوں میں موجود ہے جو آپ کے پاس ہیں۔
میرے بیان کا اس پر بڑا اثر ہوا اور کہنے لگا کہ تم آرام کی نیند سویا کرو، تمہارے خلاف کوئی شکایت کریگا تو نہیں مانوں گا۔ کچھ دنوں بعد مجھے ماسکو کے قیدخانہ میں بھیج دیا گیا۔ انہوں نے مجھے کہا تم جاسوس ہو اور جاسوس کی سزا گولی ہے۔ تمہیں تین دن کی مہلت دیتے ہیں، صحیح صحیح بتا دو!۔ خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ جس قدر وہ لوگ مجھے تکلیف دیتے تھے حضرت مصلح موعودؓ کی محبت میرے دل میں بڑھتی چلی جاتی تھی۔ اس عرصہ میں انہوں نے مجھے بہت تکالیف دیں۔ کپڑے اتار کر سخت سردی میں ساری رات تہہ خانے میں رکھا گیا۔ چھوٹے سے کمرہ میں کئی مہینے تنہا بند رہا۔ حتیٰ کہ رفع حاجت کے لئے صرف ایک برتن دیا گیا۔ بعض دفعہ لوہے کی چار پائی پر مشکیں باندھ دیتے تھے۔ جب زار کے بعد لینن روس کا سربراہ بنا تو اس نے کہا تھا کہ خدا نہیں ہے تب کئی پادری قتل کرادئیے گئے، سینکڑوں لوگ جلا وطن کئے گئے اور خدا کے جنازے اٹھائے گئے۔ پھر چار ماہ بعد مجھے دوسرے قیدیوں کے ساتھ منتقل کیا گیا تو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں جوش پیدا کیا اور مَیں نے اُن پچیس آدمیوں کو خدا کے بارہ میں 15 منٹ تک بتایا۔
چونکہ میں بہت کمزور ہو گیا تھا اس لئے مجھے ہسپتال بھیجا گیا۔ ایک دن خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اگر یہ پوچھیں کہ خدا ہے؟ تو روسی میں جواب دینا۔ اس کے تیسرے دن ایک سپاہی نے کہا کہ افسر بلا رہے ہیں۔ میں گیا تو 20 افراد بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پہلا سوا ل کیا کہ کیا خدا موجود ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا ہے اور مجھے یقینی طور پر اس بات کا پتہ ہے اور لینن نے بہت برا کیا جو یہ کہا کہ خدا نہیں ہے۔ میں کافی دیر تک ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بیان کرتا رہا جس کے بعد وہ سب ادب سے مجھ سے ملے اور مصافحہ کیا۔
پندرہ دن بعد ایک سپاہی آیا اور پوچھا کہ ’’ظہور حسین کون ہے‘‘ اور بتایا کہ تمہیں جلد ہی ہندوستان بھیجاجائے گا۔ مجھے پچاس روپے دئیے گئے۔ دو سال بعد پہلی دفعہ کچھ انگور، بسکٹ اور انڈے منگوائے اور خدا کا بہت شکر ادا کیا۔ میں سمندری جہاز کے ذریعہ تہران پہنچا جہاں شہزادہ عبدالمجید صاحب سے ملاقات ہوئی۔ پھر بغداد اور بصرہ کے راستہ کراچی پہنچا اور ایک ہفتہ کے بعد قادیان مقدس پہنچ گیا۔ میری آمد کی خوشی میں قادیان کے اداروں میں چھٹی کردی گئی۔
قید خانے میں مجھے حضور کی دعائوں پر اتنا یقین تھا کہ میں کئی دفعہ کہتا کہ رشتہ داروں کو بھی میرا اتنا فکر نہیں جتنا حضورؓ کو ہے۔ مجھے حضورؓ کی عظمت کی جھلک بھی دکھائی گئی اور میں نے بہت استغفار کیا کہ میں نے حضور کی قدر نہیں کی۔ قید کے دوران ہی میں نے کئی خوابوں میں دیکھا کہ بہت سے روسی قادیان آئے ہیں۔
قادیان واپس پہنچ کر پنجاب، یوپی اور اڑیسہ، کلکتہ اور بہار میں جماعت کی خدمت کرتا رہا۔ جامعہ نصرت میں دینیات کی کلاس کو پڑھاتا رہا۔ ایک سال مدرسہ احمدیہ قادیان میں اور دوتین سال جامعہ احمدیہ ربوہ میں پروفیسر رہا۔ 1957ء میں ریٹائرڈ ہوا جس کے بعد چیف انسپکٹر مال کے فرائض 5 سال تک انجام دینے کی توفیق پائی۔ انچارج رشتہ ناطہ بھی رہا۔ مسجد اقصیٰ قادیان اور پھر ربوہ میں 30 سال تک قرآن کریم کا درس دینے کی سعادت پائی۔ جلسہ سالانہ پر بھی دو سال تقاریر کی توفیق ملی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں