محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ 2001ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرتبہ:مکرم فخرالحق شمس صاحب ) میں محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کے امریکہ میں قیام کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے:- ’’آپ کا امریکہ کا دَور امارت سب پہلوؤں سے بہت مبارک ثابت ہوا اور جماعت نے بہت ترقی کی… آپ کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے حسن کارکردگی کے اس انداز ومعیار کو بہت بڑھائے…۔‘‘
محترم مولانا صاحب کی وفات پر آپ کے عزیزواقارب سے تعزیت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ مولانا کلیم صاحب تو اُن لوگوں میں سے ہیں جن کا ذکر سورۃ الفجر کی آخری آیات میں ہے۔ان کی ساری عمر تو خدمات میں گزری ہے…۔
محترم کلیم صاحب نماز تہجد التزام کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ مَیں نے کوئی تہجد ایسی ادا نہیں کی جس میں پہلے جماعت کے لئے دعا نہ کی ہو۔ ایک دفعہ کسی وجہ سے تہجد کی نماز چھوٹ گئی تو صبح کہنے لگے کہ آج صدقہ دینا چاہئے، میری تہجد کی نماز چھوٹ گئی ہے۔
آپ میں ریاء نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ایک بار غانا کے ایک وزیر نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کے والد صاحب کون تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ مسجد کے مؤذن تھے اور مسجد میں جھاڑو دیا کرتے تھے۔ اس پر اُس وزیر نے اُٹھ کر آپ کو گلے سے لگالیا اور کہا کہ جس قوم میں آپ جیسے وجود ہوں وہی قومیں ترقی کیا کرتی ہیں۔
آپ میں خدمت خلق کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ صدقہ و خیرات کے علاوہ بھی کمزوروں اور ناداروں کی مدد آپ کا شیوہ تھا۔ بوڑھے لوگوں کا بوجھ اٹھاکر انہیں منزل تک پہنچا آتے۔ پاکستان بننے کے بعد جب لوگ مسائل کا شکار تھے تو آپ ایک معمر بے سہارا عورت کو اپنے کندھے پر اٹھالائے اور گھر والوں سے کہا کہ اس کی خدمت کرو۔
اپنے اہل و عیال اور بچوں سے بھی بے انتہا شفقت کا سلوک کیا لیکن دینی کاموں میں سستی پر خفا بھی ہوجاتے۔ اگر کوئی گھر میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم نہ کہتا تو اُسے گھر سے باہر بھیج دیتے کہ دوبارہ آؤ اور سلام کہو۔
وقف کے تقاضوں سے خوب آگاہ تھے۔ جب آپ پہلی بار افریقہ تشریف لے گئے تو آپ کے جڑواں بیٹے صرف سات دن کے تھے۔ آپ کی اہلیہ نے آپ کی روانگی سے پہلے تشویش کا اظہار کیا لیکن آپ نے کہا کہ مَیں سب کو خدا کے حوالہ کرکے جارہا ہوں۔ آپ جماعت کے مالی معاملات میں بہت محتاط تھے۔ جو بھی نذرانے ملتے وہ سیکرٹری مال کے پاس جمع کروادیتے۔ جماعت کی کار کبھی ذاتی کاموں کے لئے استعمال نہیں کی۔ خود کو حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کا شاگرد کہلوانا پسند کرتے تھے۔ حضرت مولانا مبشر صاحب جب اپنا ذاتی خط لکھتے تو مشن ہاؤس کی لائٹ بند کردیتے اور اپنا دیا جلا لیتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اُن کے قدموں میں ہی آپ کی قبر بنائی گئی ہے۔
محترم مرزا محمد افضل صاحب بیان کرتے ہیں آپ لفظ ’’درویش‘‘ کی عملی و عکسی تصویر تھے۔ ایک بار امریکہ میں ایک عیسائی ادارہ کا انچارج اور کچھ طالبعلم آپکے پاس آئے تو آپ نے بائبل سے اتنے حوالے زبانی پیش کردیئے کہ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ اتنے حوالے تو ہمیں بھی یاد نہیں۔
محترم عبدالمالک صاحب آف لاہور کا بیان ہے کہ جب میں امریکہ گیا تو محترم مولانا صاحب امریکہ کے امیر و مشنری انچارج تھے۔ آپ نے میری خاطر تواضع کرکے مجھے اپنے ہمراہ لیا اور بازار سے مرغی اور دیگر چیزیں خرید کر واپس مشن ہاؤس آئے۔ پھر مجھے کہا کہ یہ چیزیں فریج میں رکھ دو۔ مَیں نے دیکھا کہ فریج میں پہلے سے وہی چیزیں اور مرغی وغیرہ موجود ہے۔ مَیں نے حیران ہوکر پوچھا کہ مزید خریدنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو فرمایا کہ وہ جماعت کا سامان ہے جبکہ تم میرے ذاتی مہمان ہو اس لئے ذاتی رقم سے یہ اشیاء خریدی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں