محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل قادیانی درویش

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل قادیانی کا ذکرخیر بھی شامل اشاعت ہے۔
آپ 4دسمبر1906ء کو حضرت میاں مہرالدین صاحبؓ (ابن حضرت مہر حامد علی صاحبؓ) کے ہاں قادیان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کاخاندانی گھر مسجد مبارک کے قریب تھا۔ یعنی مسجد فضل کے متصل ۔ مسجد فضل آپؓ کے والد صاحب نے بنوائی تھی۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ جب والد صاحب نے مجھے اسکول داخل کروانا تھا تو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے پاس لے گئے اور عرض کی کہ بڑے بیٹے کو اسکول میں داخل کروایا تھا لیکن اُس نے نہیں پڑھا ۔ اب اسے داخل کروانا ہے حضور اس کے لئے دعا کریں کہ یہ پڑھے۔ حضورؓ نے اسی وقت موجود احباب کے ساتھ دعا کروائی اور دعا کر کے فرمایا: داخل کروا دیں پڑھ جائے گا۔
بعد ازاں محترم مولوی محمد ابراہیم صاحب نے مشکلات کے باوجود پڑھائی جاری رکھی۔ میٹرک پاس کیا پھر مولوی فاضل کیا۔ نومبر 1929ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے مدرس متعین ہوئے۔ 1937ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے درس القرآن صاف کرکے پیش کرنے کی ذمہ داری آپ کے سپرد فرمائی چنانچہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل یہ درس نہایت محنت اور عرقریزی سے تیار کرکے پیش کرنے کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی اور حضورؓ نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کا شکریہ ادا کیا۔
تقسیم ملک کے وقت حضرت مصلح موعود ؓ نے قادیان کی مرکزی حیثیت کی فعّالیت کے لئے سلسلہ تعلیم دین کے جاری رکھنے کے لئے چند علماء کو قادیان میں قیام رکھنے کی ہدایت جاری فرمائی جن میں محترم مولوی محمد ابراہیم صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ 1956ء میں آپ مبشرین کلاس (مدرسہ احمدیہ) کے انچارج مقرر ہوئے۔ چند دن بعد مدرسہ احمدیہ اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈماسٹر متعین ہوئے۔ بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ بھی آپ ہی تھے۔ پھر 1966ء میں نائب ناظر تصنیف بنائے گئے۔ اپریل 1976ء میں صحت کی وجہ سے اس کام سے سبکدوش ہوئے۔ تقسیم ملک کے بعد 1947ء تا 1955ء اور 1966ء تا 1976ء گویا اٹھارہ سال آپ صدر انجمن احمدیہ کے ممبر رہے۔ 1977ء میں آپ نے ضعفِ صحت اور ضعفِ بصر کی وجہ سے رکنیت سے معذرت کردی۔
آخر عمر میں قصیدہ حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار بہت دہراتے تھے اور قصیدہ اتنایاد تھا کہ ایک مرتبہ سیدھا پڑھتے تھے پھر دوسری مرتبہ الٹی طرف سے یعنی 70ویں شعر سے شروع کرتے اور 1 پر ختم کرتے تھے۔ آپ کو تفسیر قرآن، علم حدیث، احمدیہ لٹریچر اور مذہب عیسائیت اور عقائد غیرمبائعین کے بارہ میں کامل عبور حاصل تھا ۔ آپ کے مضامین بدر میں بکثرت شائع ہوئے جو آپ کے نکتہ رس ، دقیق الفہم طبع، وسعتِ علم ، بادلیل تحریر، مدعا پیش کرنے اور مدّمقابل کے دلائل کے کامل ابطال کے شاہکار ہیں ۔ آپ کے مضامین جامع و مانع ہوتے تھے ۔آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔
1947ء میں آپ کے سارے خاندان نے پاکستان ہجرت کرلی۔ صرف آپ اور آپ کی والدہ صاحبہ قادیان میں رہ گئے۔ والدہ صاحبہ قادیان سے جانے پر کسی طرح راضی نہ ہوتی تھیں ۔ آخر جب حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے تمام عورتوں کے چلے جانے کا حکم ہوا تو آپ اپنی والدہ صاحبہ کو لے کر وہاں پہنچے جہاں سے ٹرک روانہ ہوا کرتے تھے۔ یہ انتظام حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے سپرد تھا۔ حضورؒ نے آپ کو لسٹ دکھائی کہ قادیان میں رہنے والوں میں آپ کا نام ہے۔ تب آپ نے اپنی والدہ کو بھجوادیا اور خود درویشی کی زندگی اختیار فرمائی۔
آپ غرباء کی بہت خاموشی سے مدد فرمایا کرتے تھے۔ بچیوں کی تربیت کاانتہائی خیال رکھتے تھے۔ تبلیغ کا جنون تھا۔ کبھی کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
خلافت سے والہانہ تعلق تھا۔ خلیفۂ وقت کے لئے بہت دعائیں کیا کرتے تھے اور ان کی حفاظت کے لئے فکرمند رہا کرتے تھے۔ اپنی اولاد کو دین کی خدمت کے لئے نصائح فرماتے تھے۔
آپ کے داماد محترم محمد انعام غوری صاحب ناظراعلیٰ آپ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ مولانا صاحب مرحوم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید عالم تھے ۔ خدمت دین کا بے پناہ جذبہ تھا۔ اپنی عمر عزیز کے بہترین سالوں میں قرآن و حدیث کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام پر عبور حاصل کیا۔ ہر کتاب کا مطالعہ اتنا گہرا تھا کہ ضروری حوالہ جات کے صفحات اور سطور ازبر تھیں ۔
موازنہ مذاہب کے مضمون میں بھی خاصی مہارت حاصل تھی۔ بائبل تو گویا یوں معلوم ہوتا تھا حفظ ہی کرلی ہے۔ ایک مرتبہ ایک پادری صاحب کہنے لگے آپ کو اپنی کتاب کے حوالے نکالنے میں دیر لگتی ہے لیکن بائبل کے حوالے فوراً نکال لیتے ہیں ۔ آپ کے مضامین بہت علمی ٹھوس مواد پر مشتمل ہوتے۔ مسائل کا استنباط، طرز استدلال بہت مضبوط اور مؤثر ہوتا۔
جولائی 1978ء کی بات ہے موسمی تعطیلات میں پہلے مَیں نے تبلیغی و تربیتی وفد کے ساتھ کشمیر جانے کا پروگرام بنایا تھا اور یاری پورہ میرا حلقہ تجویز کیا گیا تھا۔ مولانا صاحب مرحوم نے جب یہ سنا تو فرمایا وہاں دو ایک غیرمبائعین رہتے ہیں ان سے پوچھنا میری اتنے صفحوں کی ایک چٹھی اور اتنے صفحوں کی دوسری چٹھی ابھی تک آپ کے پاس لاجواب پڑی ہے اور پھر فرمایا نوٹ بک اور قلم اور دفتر سے کتابچہ ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ لے کر آجاؤ۔ خود چلنے پھرنے کے قابل نہیں اور نظر بھی پوری طرح کام نہیں کرتی اور میرے آنے تک اپنی اہلیہ محترمہ سے چند ایک کتابیں نکلوائیں اور تیار ہوکر بیٹھ گئے ۔ میں آکر پاس بیٹھ گیا آپ ایک ایک کتاب پکڑاتے اور کہتے نکالو فلاں صفحہ اور خط کشیدہ سطریں پڑھو۔ نکالو فلاں صفحہ اور حاشیہ کی عبارت پڑھو ۔ وغیرہ وغیرہ اس طرح آپ نے کئی کتابوں کے ضروری حوالہ جات نوٹ کروا دیئے ۔
تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ضروری لٹریچر ساتھ رکھتے اور دھڑلے سے تبلیغ کرتے ۔ اور پھر منواکر ہی چھوڑتے۔ دینی مسئلہ پر گفتگو کرتے وقت ایک خاص جوش کی حالت ہوتی اور مضمون یوں آپ کے منہ سے نکلتا گویا اندر ایک موّاج دریا موجزن ہے جس کی لہریں ایک کے پیچھے ایک آتی چلی جاتی ہیں ۔ اور یہ سب آپ کی شبانہ روز محنت اور کثرت مطالعہ کا نتیجہ تھا۔
آپ ذیابیطس کے مریض تھے۔ مختصر بیماری کے بعد 28ستمبر 1978ء کو وفات پائی۔ آپ کی اہلیہ اوّل سے دو بیٹے پاکستان میں تھے۔ بڑے بیٹے جوانی میں وفات پاگئے جبکہ دوسرے مظفر احمد 28مئی 2010ء کو مسجد دارالذکر لاہور میں شہید ہوئے۔ دوسری اہلیہ مونگھیربہار کی باشندہ تھیں جن سے دو بیٹیاں ہیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں