محترم میاں نذر محمد صاحب درویش قادیان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مئی 2009ء میں محترم میاں نذر محمد صاحب درویش قادیان کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم محمد اعظم فاروقی صاحب معلم وقف جدیدکے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
1948ء میں محترم میاں نذر محمد صاحب کی عمر 17 سال تھی جب حافظ آباد کے گاؤں پریم کوٹ میں حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی تشریف لائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا پیغام پڑھ کر سنایا کہ احمدی جوان حفاظتِ مرکز کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں۔ یہ آواز جب محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے اپنے بیٹے میاں نذر محمد کا ہاتھ حضرت مولانا صاحبؓ کے ہاتھ میں تھما دیا اور عرض کی کہ ’’مولوی صاحب آپ اس کو فوراً قادیان پہنچائیں، اب میں اسے گھر لے کر نہیں جاؤں گی‘‘۔ حضرت مولوی صاحب اُس لڑکے کو جودھا مل بلڈنگ لاہور لے آئے جہاں چار روزہ ٹریننگ کے بعد جوانوں کو سلیکٹ کیا جانا تھا۔ محترم نذر محمد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ زیرتربیت جوانوں میں سب سے کم سِن مَیں تھا اور مجھے خدشہ تھا کہ اس وجہ سے مجھے مسترد نہ کردیا جائے چنانچہ مَیں نے اپنی برائے نام ہلکی مونچھوں پر سرسوں کا تھوڑا سا تیل لگا کر اوپر سرمہ لگا لیا تاکہ میری مونچھیں بڑی اور نمایاں معلوم ہوں۔ پھر سینہ تان کر اور پاؤں کی انگلیوں پر قطار میں کھڑا ہوگیا اور منتخب کرلیا گیا اور اس طرح قادیان پہنچنے کی خواہش حیرت انگیز طور پر پوری ہوگئی۔ ابتدائی دنوں میں ایک دفعہ سیر کرتے کرتے مَیں احمدیہ محلہ قادیان سے کچھ باہر نکل گیا تو چار سکھ بلوائیوں میں پھنس گیا۔ ایک کہنے لگا اس بکرے کو ذبح کر لیتے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ یہ چوہدری ظفراللہ خان کا آدمی ہے، اس کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے،اگر اس ایک بکرے کو ذبح کرو گے تو تمہیں کئی بکرے ذبح کروانے پڑیں گے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پُر فتن حالات میں دشمن سے بچالیا۔ 1956ء میں میری والدہ مجھے ملنے قادیان آئیں۔ انہوں نے دیسی گھی بیچ بیچ کر کرایہ کا انتظام کیا تھا۔ لاہور سٹیشن پر ایک ذی ثروت احمدی نے کہا کہ ’’مائی جتنے چاہو پیسے لے لو اور اپنا پرمٹ مجھے دیدو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’یہ پیسے سنبھال کر رکھو، میں تو اپنے مرکز قادیان اور اپنے درویش بیٹے کو دیکھنے کے لئے سڑ رہی ہوں‘‘۔ جب یہ واقعہ کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تک پہنچایا تو حضورؓ نے اُن کے لئے دس روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جو انہیں ساری زندگی ملتا رہا۔ اُس دَور میں کئی صحابہؓ کی صحبت سے فیض پایا۔ یہ صحابہؓ جب حضرت مسیح موعودؑ کی جدائی کا تذکرہ کرتے تو زاروقطار روتے۔ دس سال قادیان میں رہنے کے بعد 1958ء میں بعض گھریلو نامساعد حالات کی وجہ سے حضورؓ کی اجازت سے مَیں پاکستان آگیا اور 1964ء میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی کوشش سے مجھے واپڈا میں ملازمت مل گئی۔
محترم میاں نذر محمد صاحب نہایت مخلص، احمدیت کے عاشق اور فدائی تھے۔ نمازوں، تہجد، چندوں اور جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں بطور الیکٹریشن ڈیوٹی دیا کرتے۔ آپ داعی الی اللہ بھی تھے اور خدمت خلق کا جذبہ بھی بہت نمایاں تھا۔ اہل محلہ میں سے اگر کوئی آدھی رات کو بھی بجلی کی خرابی دُور کرنے کے لئے کہتا تو کبھی انکار نہ کرتے اور کسی لالچ کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اپنی گفتگو میں دعوت الی اللہ کے پہلو نکال لیا کرتے تھے۔ اپنے محکمہ میں احمدی مشہور تھے اور اپنے افسروں کو بھی دعوت الی اللہ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پول کے اوپر بجلی ٹھیک کررہے تھے کہ پول میں کرنٹ آگیا اور دونوں نیچے گر کر زخمی ہوگئے۔ ساتھی چند دن بعد فوت ہوگیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ آپ نے اسے احمدیت کے معجزہ کے طور پر اپنے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا۔
سلسلہ کی کتب ہمیشہ زیرمطالعہ رہتیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تو خود کو جماعت اور خدمت خلق کے لئے وقف کردیا۔ زیارت مرکز کے مواقع تلاش کرتے۔ آپ کی وفات پر اہل علاقہ نے بہت دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں